صدر: ہماری ویب رائیٹرز کلب
کالم نگاری کی دنیا میں میر افسر امان کا نام تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ کئی
سالوں سے ملک کے سیاسی،سماجی ، معاشرتی، حالات حاضرہ، تاریخ ، شخصیات،سماجی
، تہذیبی اور اسلامی موضوعات پر متعدد اخبارات اور سوشل میڈیا پر لکھ رہے
ہیں۔ سچ لکھنا، بلا کسی ڈر و خوف کے حق لکھنا کسی بھی کالم نگار کی اہم
خصوصیت تصور کی جاتی ہے ۔ ایسے ہی لکھاریوں اور کالم نگاروں میں ایک نام
میر افسر امان صاحب کا بھی ہے ۔ جنہیں کالم نگاری کرتے ہوئے زیادہ عرصہ
نہیں ہوا لیکن کم عرصے میں انہوں نے کالموں کا ٹاور کھڑا کر دیا ہے۔ انہوں
اپنے تعارف میں لکھا کہ ’’ میں نے کالم نگاری شروع کرتے وقت تین شعبوں،
اسلام، جماعت اسلامی اور حالات حاضرہ پرلکھنے کا پروگرام بنایا۔ پاکستان کے
کافی اخبارات اور رسائل میں قرآن، حدیث، سیرت، اسلامی تاریخ ، حالات حاضرہ
اور تعارف جماعت اسلامی پر کالم نگاری کر رہا ہوں‘‘۔ بقول ان کے وہ آج تک
تقریباً چھ سو کالم لکھ چکے ہیں۔ وہ سیدھے سادھے آدمی ہیں ، لگی لپٹی نہیں
رکھتے، ان کی سوچ اسلامی ہے اور باقاعدہ ایک سیاسی جماعت کے منشور سے متفق
اور اس کے ہمنوا ہیں۔ ان کی تحریروں سے جماعت اسلامی سے عقیدت اور رغبت صاف
عیاں ہے۔ وہ اسے چھپاتے بھی نہیں، بانگ دھل کہتے ہیں اور اسے اپنے لیے باعث
فخر سمجھتے ہیں۔
میر صاحب فارغ البال ہیں، بچوں کی شادیاں ہوگئیں ہیں ، شریک سفر 2013میں
ساتھ چھوڑکر وہاں چلی گئیں جہاں سے لوٹ کر کوئی نہیں آتا ۔ اب زند ہ رہنے
کے لیے کھاتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں ، جماعت کے کاموں میں وقت دیتے ہیں اور
جو وقت بچتا ہے اسے کالم نگاری میں صرف کردیتے ہیں۔ میر صاحب اُن کالم
نگاروں میں سے ہیں جو پیسے لے کر کالم نہیں لکھتے اور نہ ہی وہ لفافہ صحافت
کو پسند کرنا تو دور کی بات اسے ایک لعنت تصور کرتے ہیں۔ تب ہی تو ان کے
کالموں میں سچائی اور بیباکی کی واضح جہلک دیکھائی دیتی ہے۔ کالم نگار کی
ایک خوبی سچائی ، ایمانداری، غلط بات کو غلط اور سچ کو سچ کہنا ہے۔ میر
افسر امان صاحب میں الحمد اللہ یہ خوبی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے وہ جو کچھ
لکھتے ہیں بلاخوف و ڈر لکھتے ہیں ، مصلحت پسندی سے کام نہیں لیتے بلکہ بے
باکی اور صاف گوئی ان کی کالم نگاری کا ایک وصف ہے۔ میرصاحب مصلحت پسندی ،
لالچ، پلاٹ ، پرمٹ یا لفافہ کلچر سے مبر ا ہیں ،ان کی یہی خوبی ان سے سچ
اور حق لکھواتی ہے۔
امیر افسر امان ایک نظریاتی آدمی ہے۔ اس کا اظہار وہ واضح الفاظ میں کرتے
ہیں ۔ ان کا عمل ، ان کا اٹھنا بیٹھنا، گفتگو کرنا ان کے نظریات کی نشاندھی
کرتا ہے۔انہوں نے لکھا ’’میں جماعت اسلامی سے ۱۹۶۸ء میں متعارف ہوا۔جلد ہی
جماعت کا فعال کارکن بنا اور ۱۹۷۷ء میں جماعت کا رکنیت کا حلف اُٹھایا کہ
میں جماعت اسلامی میں خالصاً رضا الہی کے لیے شریک ہو رہا ہوں۔ میرے نزدیک
اُخروی کامیابی کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ اللہ مجھے اس پر قائم رہنے کی توفیق
عطا فرمائے۔ اس وقت سے آج تک اللہ تعالی کی مدد سے سے جماعت کا فعال کارکن
ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے مرتے دم تک دین کی خدمت کرتا رہوں آمین‘‘۔یہ
ہیں ہمارے کالم نگار میر افسر امان۔
سو شل میڈیا کی ایک معروف ویب سائٹ ’’ہماری ویب‘‘ میرے اور میر افسر امان
کے مابین تعلق اور دوستی کا باعث ہے۔ ہماری ویب ویسے تو انفارمیشن
ٹیکنالوجی کا ایک تجارتی ادارہ ہے لیکن اس کے روح رواں جناب ابرار احمد
صاحب علم و ادب کے قدر داں ہیں، لکھاریوں کا احترام کرتے ہیں، خواہش رکھتے
ہیں کہ لکھاری انٹر نیٹ کی جدید سہولت سے مستفید ہوں چنانچہ انہوں نے ہماری
ویب میں ایک شعبہ ’’آرٹیکلز‘‘ کا قائم کیا اور احباب کو اس میں اپنے مضامین
اور کالم پوسٹ کرنے کی دعوت دی۔ لکھاری لکھتے رہے اور ہماری ویب میں ان کے
مضامین اور کالم اس کی زینت بنتے رہے۔ مارچ 2014میں منتظمینِ ہماری ویب نے
احباب سے رابطہ کر کے کراچی کے لکھاریوں کی ایک میٹنگ ہماری ویب کے آفس میں
طلب کی جس کا مقصد ’’ہماری ویب رائیٹرز کلب‘‘ کا قیام تھا۔ باہمی گفت و
شنید کے بعد احباب نے رائیٹرز کلب کے قیام سے اتفاق کیااس طرح ہماری ویب پر
لکھنے والے ایک دوسرے سے اور بھی قریب آگئے۔ اب ہمارے رابطے بڑھے، قربتوں
میں اضافہ ہوا۔ ہماری ویب رائیٹرذ کلب آن لائن لکھنے والوں کا ایک فعال
ادارہ ہے میر افسر امان اس ادارے کے نائب صدر ہیں۔ کراچی سے اسلام آباد
منتقل ہوچکے ہیں لیکن اب بھی ہماری ویب رائیٹرذ کلب کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
ان کے مضامین اور کالموں کا مجموعہ بعنوان’’ میر کے مضامین‘‘ منظر عام پر
آرہا ہے۔ دل کی گہرائیوں سے مبارک باد ۔
میر افسر امان صاحب کے اس مجموعے میں 84کالم شامل ہیں۔ جن میں’محبتوں کا
سفیر سراج الحق‘،’آل انڈیامسلم لیگ اور بھارت کے مسلمان‘،’ملالہ کی کہانی
اورکتاب اول۔کرسٹینا لیب ‘، ’سچ کا سفر۔ صدرالدین عاشوانی‘، ’جو اکثر یاد
آتے ہیں۔ احمد حاطب صدیقی‘،’بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح‘،’آ ل
انڈیا مسلم لیگ شکریہ‘، ’طالبان، مہربان ظالمان‘، ’۸۶سالہ قیدی مظلومی امت
ڈاکٹر عافیہ صدیقی‘، ’محصورین پاکستان اور جشنِ آزاد ی پاکستان‘،’عوام
کاآخری سہارا عدلیہ اور پاناما کیس کا فیصلہ محفوظ‘، ’عوام کا آخری سہارا
سپریم کورٹ‘، ’منشیات کا استعمال اپنے آپ کو قتل کرنا ہے‘،’امریکی جاسوس کی
کتاب دی کنٹریکٹر۔ریمنڈ ڈیوس‘، ’بانی جماعت اسلامی سید مولانا ابوا لاعلیٰ
موددی‘، ’قربانی سنتِ ابراہیم علیہ السلام‘، ’روہنگیا برما کے مظلوم مسلمان‘،
’پاکستان کے خلاف امریکی عزاہم‘،’الیکشن ۲۰۱۳ء اور سیاسی جماعتوں کی
کارکردگی کاتقابلی جائزہ‘۔ ’قا د یا نیت برطانوی سامراج کا خود کاشتہ
پودا‘،’پاکستان کااسلامی تشخص اور ایک بڑا میڈیا ‘،’اسلامی بم‘،’علامہ
اقبالؒ اور اسلامیہ جمہوریہ پاکستان‘، ’قومیت؟‘،جماعت اسلامی کی گو امریکہ
گو مہم!!!‘، ’بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کا فیصلہ‘اور’ایوان صدر کے
کچن پر۲۶ کروڑ کا خرچہ!!‘ شامل ہیں۔ ان کے مضامین اور کالم حالات حاضرہ کا
احاطہ کرتے ہیں، ملک کے سیاسی اور سماجی حالات اور اسلامی موضوعات کا مرقع
ہیں۔ دعا ہے کہ اسی طرح لکھتے رہیں اور نئی نسل ان کے خیالات و نظریات سے
فیض اٹھاتی رہے ۔ اللہ تعالیٰ انہیں تندرست و توانا رکھے اور ان کا قلم اسی
روانی سے رواں دواں رہے۔ آمین |