انبیاء و صحابہ کی قاتل امت یہود موجودہ مسلمانوں کی خیر
خواہ کیسے ہو سکتی ہے؟
یقینا تو ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں، سب لوگوں سے زیادہ سخت عداوت
رکھنے والے یہود کو اور ان لوگوں کو پائے گا جنھوں نے شریک بنائے ہیں اور
یقینا تو ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں، ان میں سے دوستی میں سب سے
قریب ان کو پائے گا جنھوں نے کہا بیشک ہم نصاریٰ ہیں۔ یہ اس لیے کہ بیشک ان
میں علماء اور راہب ہیں اور اس لیے کہ بیشک وہ تکبر نہیں کرتے۔المائدۃ -
آیت 82
وطن عزیز پاکستان میں گزشتہ چند دنوں سے کچھ عجیب و غریب باتیں سننے اور
دیکھنے کو مل رہی ہیں اسلام کے بدترین دشمن اہل یہود کے حق میں نرم رویے
رکھنے کی ھدایات جاری ہو رہی ہیں اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کو تسلیم کرنے کی
راہیں ہموار کی جا رہی ہیں قبلہ اول بیت المقدس کو قانونی طور پر یہود کے
ہاتھوں دینے کا عندیہ پیش کیا جا رہا ہے یونیورسٹیوں کے مختلف پروفیسرز دبے
اور کھلے لفظوں میں ایسے نظریات کا پرچار کر رہے ہیں حتی کہ اب تو قومی
اسمبلی میں حکمران جماعت سے تعلق رکھنی والی رکن قومی اسمبلی *عاصمہ حدید*
نے واضح طور پر یہودیوں کے حق میں کھلا بیان دیتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم
کرنے کی طرف اشارہ دیا ہے ۔
چند دن قبل عمان کی حکومت نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے ۔یہ بہت ہی پریشان کن
خبریں ہیں کہ آخر ہمارے ان لوگوں کو کیا مسئلہ بن گیا ہے۔ کہ وہ اچانک ایک
ڈاکو، غاصب اور ظالم قوم یہود کے حق میں کیوں اتنے نرم ہوئے جا رہے ہیں ایک
ایسی قوم کی طرف دوستی کا ہاتھ کیوں بڑھایا جا رہا ہے کہ جن کی تاریخ وحشت
و بربریت سے بھری پڑی ہے ایک ایسی قوم کہ جس نے حضراتِ انبیاء علیہم السلام
تک کو معاف نہیں کیا -
کتنے ہی انبیاء کو قتل اور کتنوں کو تکلیفیں پہنچانے والی قوم ہماری خیر
خواہ کیسے ہو سکتی ہے ایک ایسی قوم کہ جن کے ہاتھ ہزاروں صحابہ کرام رضی اﷲ
عنہم اجمعین کے خون سے رنگین ہیں ایک ایسی قوم کہ جنہوں نے ہزاروں اولیاء،
علماء ائمہ ومحدثین کو قتل کیا ایک ایسی قوم کہ جو پہلے دن سے آج تک
مسلمانوں کے خلاف مشرکین اور نصارٰی کو جنگوں پر ابھارتی چلی آ رہی ہے ایک
ایسی قوم کہ جنہوں نے اپنی کتاب تک کو معاف نہ کیا اور اس میں من مانی
تبدیلیاں کر ڈالیں آخر ہم ان کے حق میں کیوں اتنے نرم ہوئے چاہتے ہیں ؟
آئیے اہل یہود کے اہل حق کے خلاف بھیانک تاریخی چہرے سے پردہ اٹھاتے ہیں
انبیاء کرام کو قتل کرنا اور تنگ کرنا یہود کی پرانی عادت ہے۔جیسا کہ قرآن
میں موجود ہے ۔ اے نبیﷺآپ ان یہودیوں سے کہہ دیجئے کہ اس سے پہلے تم اﷲ کے
نبیوں کو کیوں قتل کیا کرتے تھے، اگر تم مومن تھے ؟البقرۃ آیت 91۔
*یوسف علیہ السلام اور یہود*
قرآن نے یوسف علیہ السلام کے خلاف ان کے بھائیوں کی پلاننگ کا ذکر کیا ہے
کہ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے کہا یقینا یوسف اور اس کا بھائی ہمارے
باپ کے ہاں ہم سے زیادہ پیارے ہیں، حالانکہ ہم ایک قوی جماعت ہیں۔لہذا یا
تو یوسف کو قتل کردو، یا اسے کسی زمین میں پھینک دو ، تاکہ تمہارے باپ کا
چہرہ تمہارے لیے اکیلا رہ جائے گا اور اس کے بعد تم نیک لوگ بن جانا۔انہوں
نے یوسف کے قتل کی پلاننگ بنائی اور اپنے باپ سے کہنے لگے کہ اے ابا جان
اسے کل ہمارے ساتھ بھیج کہ چرے چگے اور کھیلے کودے اور بیشک ہم ضرور اس کی
حفاظت کرنے والے ہیں۔ باپ نے ان کی حرکات کو بھانپتے ہوئے کہا کہ یقینا
مجھے یہ بات غمگین کرتی ہے کہ تم اسے لے جاؤبہرحال انہوں نے ضد کی اور
بالآخر جب وہ اسے لے گئے تو انھوں نے طے کرلیا کہ اسے اندھے کنویں میں ڈال
دیں اور یوں وہ اپنی طرف سے یوسف علیہ السلام کا کام تمام کرنے اور انہیں
کنویں میں ڈالنے کے بعد اپنے باپ کے پاس اندھیرے میں روتے ہوئے آئے۔
*عیسی علیہ السلام اور یہود*
عیسی علیہ السلام کے متعلق تو یہودی لوگ برملا علی الاعلان کہتے ہیں کہ ہم
نے ہی عیسی کو قتل کیا ہے جیسا کہ ان کی یہ بات اﷲ تعالٰی نے قرآن میں نقل
کی ہے ۔اور ان کے یہ کہنے کی وجہ سے کہ بلاشبہ ہم نے ہی مسیح عیسیٰ ابن
مریم کو قتل کیا، جو اﷲ کا رسول تھا، حالانکہ نہ انھوں نے اسے قتل کیا اور
نہ اسے سولی پر چڑھایا اور لیکن ان کے لیے اس (مسیح) کا شبیہ بنادیا گیا۔
*محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کے خلاف یہود کی سازشیں*
*زہریلے گوشت کے ذریعے آپ کو شہید کرنے کی کوشش*
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ ایک یہودی عورت رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وسلم کے پاس ایک زہر آلود ( پکی ہوئی ) بکری لے کر آئی ، نبی کریم صلی
اﷲ علیہ وسلم نے اس میں سے کچھ ( گوشت کھایا ) ( آپ کو اس کے زہر آلود ہونے
کاپتہ چل گیا ) تو اس عورت کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس لایاگیا ،
آپ نے اس عورت سے اس ( زہر ) کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا : ( نعوذ باﷲ!
) میں آپ کو قتل کرنا چاہتی تھی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : " اﷲ
تعالیٰ ایسا نہیں کرے گا کہ تمھیں اس بات پر تسلط ( اختیار ) دے دے۔ "
انھوں ( انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ) نیکہا : یا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا
: " ( تمھیں ) مجھ پر ( تسلط دے دے۔ ) " انھوں ( انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ )
نے کہا : صحابہ رضوان اﷲ عنھم اجمعین نے عرض کی : کیا ہم اسے قتل نہ
کردیں؟آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نیفرمایا : " نہیں۔ " انھوں ( انس رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ) نے کہا : تو میں اب بھی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم
کیدہن مبارک کے اندرونی حصے میں اسکے اثرات کو پہچانتاہوں۔
مسلم 5705
*یہود کی طرف سے نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم پر جادو*
بنی زریق کے ایک شخص یہودی لبید بن اعصم نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر
جادو کر دیا تھا اور اس کی وجہ سے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کسی چیز کے
متعلق خیال کرتے کہ آپ نے وہ کام کر لیا ہے حالانکہ آپ نے وہ کام نہ کیا
ہوتا۔ ایک دن یا ( راوی نے بیان کیا کہ ) ایک رات نبی کریم صلی اﷲ علیہ
وسلم میرے یہاں تشریف رکھتے تھے اور مسلسل دعا کر رہے تھے پھر آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم نے فرمایا کہ عائشہ! تمہیں معلوم ہے اﷲ سے جو بات میں پوچھ رہا
تھا، اس نے اس کا جواب مجھے دے دیا۔ میرے پاس دو ( فرشتے جبرائیل و میکائیل
علیہما السلام ) آئے۔ ایک میرے سر کی طرف کھڑا ہو گیا اور دوسرا میرے پاؤں
کی طرف۔ ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے پوچھا ان صاحب کی بیماری کیا ہے؟ دوسرے
نے کہا کہ ان پر جادو ہوا ہے۔ اس نے پوچھا کس نے جادو کیا ہے؟ جواب دیا کہ
لبید بن اعصم نے۔ پوچھا کس چیز میں جواب دیا کہ کنگھے اور سر کے بال میں جو
نر کھجور کے خوشے میں رکھے ہوئے ہیں۔ سوال کیا اور یہ جادو ہے کہاں؟ جواب
دیا کہ زروان کے کنویں میں۔ پھر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اس کنویں پر
اپنے چند صحابہ کے ساتھ تشریف لے گئے اور جب واپس آئے تو فرمایا عائشہ! اس
کا پانی ایسا ( سرخ ) تھا جیسے مہندی کا نچوڑ ہوتا ہے اور اس کے کھجور کے
درختوں کے سر ( اوپر کا حصہ ) شیطان کے سروں کی طرح تھے میں نے عرض کیا یا
رسول اﷲ! آپ نے اس جادو کو باہر کیوں نہیں کر دیا۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ
وسلم نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے اس سے عافیت دے دی اس لیے میں نے
مناسب نہیں سمجھا کہ اب میں خواہ مخواہ لوگوں میں اس برائی کو پھیلاؤں پھر
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس جادو کا سامان کنگھی بال خرما کا غلاف
ہوتے ہیں اسی میں دفن کرا دیا۔بخاری 5763
*یہود کا نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم کو مذاق کرنا*
مسلمان رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) کو متوجہ کرنے کے لیے لفظ(
راعنا)استعمال کرتے تھے جب یہودیوں نے دیکھا تو وہ بھی اس لفظ کے ساتھ آپ
کو مخاطب کرنے لگے ، مگر زبان کو پیچ دے کر لفظ بدل دیتے، جس سے وہ لفظ
گالی بن جاتا۔ یعنی وہ ’’ رَاعِنَا ‘‘ کی بجائے ’’ رَاعِینَا ‘‘ کہتے، جس
کا معنی ’’ ہمارا چرواہا ‘‘ ہے۔ یا وہ اسے رعونت سے اسم فاعل قرار دے کر ’’
رَاعِنًا ‘‘ کہتے جس کا معنی احمق ہے ، پھر آپس میں جا کر خوش ہوتے۔ اﷲ
تعالیٰ نے مسلمانوں کو آپ کے لیے یہ لفظ استعمال کرنے ہی سے منع فرما دیا
اور ’’ انظْرنَا ‘‘ کہنے کا حکم دیا۔اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ۔اے لوگو جو ایمان
لائے ہو ! تم رَاعِنَا (ہماری رعایت کر) مت کہو اور اْنظْرنَا (ہماری طرف
دیکھ) کہو اور سنو۔ اور کافروں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔
*یہود کا حمایت یافتہ ایجنٹ عبداﷲ بن ابی اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں*
عبداﷲ بن ابی رئیس المنافقین اور یہود کے باہمی روابط بہت زیادہ تھے اور
دونوں اسلام اور اہلیان اسلام کے خلاف ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور مشاورت
کیا کرتے تھے اہل یہود نے بہت سے مواقع پر عبداﷲ بن ابی کو مسلمانوں کے
خلاف استعمال کیا ہے حتی کہ قرآن میں اﷲ تعالٰی نے دونوں کو بھائی قرار دیا
ہے یعنی یہود اور منافقین آپس میں مسلمانوں کے خلاف بھائیوں کی طرح تعاون
کرتے ہیں ۔فرمایا ۔
کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنھوں نے منافقت کی، وہ اپنے ان بھائیوں
سے کہتے ہیں جنھوں نے اہل کتاب میں سے کفر کیا،۔الحشر 11۔اس آئت میں
بالاتفاق اہل کتاب سے مراد یہود اور( الذین نافقوا )سے مراد عبداﷲ بن ابی
اور اس کی جماعت کے لوگ ہیں
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا پر تہمت ،غزوہ احد کے موقعہ پر عین
میدان جنگ سے اپنے لوگوں کو واپس لے جانا ،لیخرجن الاعز منھا الاذل جیسے
جملے بولنا ،خیبر کے یہودیوں کو مسلمانوں کے حملہ آور ہونے کی ایڈوانس خبر
دینا ،یہ سب کام یہود کے ساتھ گٹھ جوڑ رکھنے والے اسی عبداﷲ بن ابی کے ہی
تھے ۔
*منافقین اور یہود، دونوں کی مسلمانوں سے نفرت حسد کی وجہ سے تھی*
یہود کا حسد اس وجہ سے تھا کہ وہ اس انتظار میں تھے کہ آخری آنے والے رسول
انہیں کے خاندان یعنی بنی اسرائیل سے ہونگے لیکن جب آخری نبی حضرت محمد صلی
اﷲ علیہ و سلم بنی اسرائیل کی بجائے بنی اسماعیل سے آگئے تو وہ خاندانی
رقابت اور حسد کا شکار ہو کر حق کا انکار کر بیٹھے ۔ جیسا کہ قرآن میں
موجود ہے ۔ اپنے دلوں کے حسد کی وجہ سے، اس کے بعد کہ ان کے لیے حق خوب
واضح ہوچکا۔ اور عبداﷲ بن ابی کا حسد اس وجہ سے تھا کہ نبی کریم صلی اﷲ
علیہ و سلم کے مدینہ منورہ میں تشریف لانے سے پہلے اوس اور خزرج کے لوگ
مشترکہ طور پر عبداﷲ بن ابی کو اپنا لیڈر منتخب کر چکے تھے بس اعلان باقی
تھا جس کے لیے تاج پوشی کی تاریخ مقرر کرنے والے ہی تھے نبی کریم صلی اﷲ
علیہ و سلم مدینہ منورہ تشریف لے آئے اور عبداﷲ بن ابی کی سرداری کا خواب
ادھورے کا ادھورا ہی رہ گیا اور یوں وہ مسلمانوں کے خلاف حسد کا شکار ہو
گیا
اب اس مشترکہ وصف کی بنیاد پر یہود اور منافقین مل کر مسلمانوں کے خلاف صف
آراء ہونے لگے ۔
*یہود کی طرف سے ایک مسلمان عورت کو بے پردہ کرنے کی کوشش*
ابن ہشام نے ابوعون سے روایت کی ہے کہ ایک عرب عورت بنوقینقاع کے بازار میں
کچھ سامان لے کر آئی اور بیچ کر (کسی ضرورت کے لیے)ایک سنار کے پاس ، جو
یہودی تھا، بیٹھ گئی۔ یہودیوں نے اس کا چہرہ کھلوانا چاہا مگر اس نے انکار
کر دیا۔ اس پر اس سنار نے چپکے سے اس کے کپڑے کا نچلا کنارا اچھپلی طرف
باندھ دیا اور اسے کچھ خبر نہ ہوئی۔ جب وہ اٹھی تو اس سے بے پردہ ہوگئی تو
یہودیوں نے قہقہہ لگایا۔ اس پر اس عورت نے چیخ پکار مچائی جسے سن کر ایک
مسلمان نے اس سنار پر حملہ کیا اور اسے مارڈالا۔ جوابا یہودیوں نے اس
مسلمان پر حملہ کرکے اسے مارڈالا۔ اس کے بعد مقتول مسلمان کے گھروالوں نے
شور مچایا اور یہود کے خلاف مسلمانوں سے فریاد کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان
اور بنی قینقاع کے یہودیوں میں بلوہ ہوگیا۔(ابن ہشام 2/ 47 ، 48)بحوالہ
الرحیق المختوم ص327
*یہود نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم پر پتھر گرا کر آپ کو شہید کرنے کی
کوشش کی*
یہود کے بڑے قبیلے بنو نضیر کے قلعے مدینہ کے مشرق کی جانب کئی میل کے
فاصلے پر تھے۔ آپ (صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) ایک دیت کے سلسلے میں تعاون حاصل
کرنے کے لیے وہاں پہنچے تو انہوں نے کہا : ’’ ہاں، اے ابو القاسم ! جیسے آپ
پسند فرمائیں گے ، ہم ہر طرح سے آپ کی مدد کریں گے ‘‘۔ ادھر آپ سے ہٹ کر
انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس سے بہتر موقع کب ہاتھ لگے گا ، اس وقت آپ
(صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے قبضے میں ہیں ، آؤ کام تمام کر ڈالو ، چناچہ
یہ مشورہ ہوا کہ جس دیوار سے آپ لگے بیٹھے ہیں اس گھر کی چھت پر کوئی چڑھ
جائے اور وہاں سے بڑا سا پتھر آپ پر پھینک دے اور ہماری جان ان سے چھڑا دے۔
عمرو بن جحاش بن کعب نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور چھت پر چڑھ گیا۔ چاہتا
تھا کہ پتھر لڑھکا دے ، اتنے میں اﷲ تعالیٰ نے جبریل (علیہ السلام) کو نبی
(صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھیجا اور حکم دیا کہ آپ (صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم) یہاں سے اٹھ کھڑے ہوں۔ چناچہ آپ (صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) فوراً اٹھ
گئے ، آپ کے ساتھ اس وقت آپ کے صحابہ کی ایک جماعت بھی تھی ، جن میں ابوبکر
و عمر اور علی (رض) بھی تھے۔ آپ (صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) وہاں سے فوراً
مدینہ کی طرف چل پڑے۔ ادھر جو صحابہ آپ کے ساتھ نہیں تھے اور مدینہ میں آپ
کے منتظر تھے ، وہ آپ کے دیر کردینے کی وجہ سے آپ (صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم)
کو ڈھونڈنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ اس دوران انہیں مدینہ سے آنے والے ایک
آدمی نے بتایا کہ آپ (صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ پہنچ گئے ہیں ، چناچہ
وہ صحابہ واپس پلٹ آئے اور رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچ
گئے۔ آپ (صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں اپنے ساتھ یہود کے غدر کی بات
بتائی اور ان کے ساتھ جنگ کی تیاری کا حکم دے دیا اور صحابہ کو لے کر ان کی
طرف چل پڑے۔ یہود لشکروں کو دیکھ کر اپنے قلعوں میں قلعہ بند ہوگئے۔ آپ
(صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا محاصرہ کرلیا ، اور انہیں مدینہ منورہ سے
جلا وطن کر دیا ‘‘۔ ( ابن کثیر)۔
مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کے خلاف شکوک و شبہات پیدا کرنے کے یہودی
ہتھکنڈے*
کمزور ایمان والے مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کے متعلق شکوک و شبہات پیدا
کرنے کے لیے یہود مختلف سازشیں کرتے رہتے تھے، اس سلسلہ کی ان کی ایک سازش
یہ بھی تھی کہ وہ اپنے خاص پڑھے لکھے نوجوانوں کو سپیشل اس کام کے لیے تیار
کرتے تھے کہ صبح کے وقت قرآن اور پیغمبر پر ایمان کا اظہار کرو اور شام کو
کفر و انحراف کا اعلان کر دو ، ممکن ہے یہ طریقہ اختیار کرنے سے بعض مسلمان
بھی سوچنے لگیں کہ یہ پڑھے لکھے لوگ مسلمان ہونے کے بعد اس تحریک سے الگ
ہوگئے ہیں تو آخر انھوں نے کوئی خرابی یا کمزور پہلو ضرور دیکھا ہوگا۔ جیسا
کہ اﷲ تعالٰی نے فرمایا ۔اور اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے کہا تم دن کے
شروع میں اس چیز پر ایمان لاؤ جو ان لوگوں پر نازل کی گئی ہے جو ایمان لائے
ہیں اور اس کے آخر میں انکار کردو، تاکہ وہ واپس لوٹ آئیں۔(ابن کثیر،
شوکانی)( تفسیر القرآن الکریم از شیخ عبد السلام بن محمد حفظہ اﷲ تعالٰی )
*یہود تمام اہل اسلام کی ہلاکت کے خواہاں ہیں*
یہودیوں کی اسی طرح کی ایک اور کمینگی کا ذکر حدیث میں آیا ہے۔ کہ وہ ’’
السلام علیکم ‘‘ کے بجائے ’’ اَلسَّامْ عَلَیکْم? ‘‘ کہتے، جس کا معنی ہے
تم پر موت ہو۔ رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے جواب میں صرف ’’
عَلَیکَ ‘‘ کہنے کا حکم دیا کہ وہ تمہیں پر ہو۔ [ مسلم، السلام، باب النہی
عن ابتداء۔۔ :
*یہود کے نزدیک اہل اسلام دنیا کے بدترین لوگ ہیں*
عبداﷲ بن سلام رضی اﷲ عنہ پہلے یہودی تھے بعد میں مسلمان ہو گئے انہوں نے
عرض کیا، یا رسول اﷲ! یہود انتہا کی جھوٹی قوم ہے۔ اگر آپ کے دریافت کرنے
سے پہلے میرے اسلام قبول کرنے کے بارے میں انہیں علم ہو گیا تو آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم کے سامنے مجھ پر ہر طرح کی تہمتیں دھرنی شروع کر دیں گے۔ چنانچہ
کچھ یہودی آئے اور عبداﷲ رضی اﷲ عنہ گھر کے اندر چھپ کر بیٹھ گئے۔ نبی کریم
صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا تم لوگوں میں عبداﷲ بن سلام کون صاحب ہیں؟
سارے یہودی کہنے لگے وہ ہم میں سب سے بڑے عالم اور سب سے بڑے عالم کے صاحب
زادے ہیں۔ ہم میں سب سے زیادہ بہتر اور ہم میں سب سے بہتر کے صاحب زادے
ہیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا، اگر عبداﷲ مسلمان ہو جائیں تو
پھر تمہارا کیا خیال ہو گا؟ انہوں نے کہا، اﷲ تعالیٰ انہیں اس سے محفوظ
رکھے۔ اتنے میں عبداﷲ رضی اﷲ عنہ باہر تشریف لائے اور کہا، میں گواہی دیتا
ہوں کہ اﷲ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اﷲ
کے سچے رسول ہیں۔ اب وہ سب ان کے متعلق کہنے لگے کہ ہم میں سب سے بدترین
اور سب سے بدترین کا بیٹا ہے، وہیں وہ ان کی برائی کرنے لگے۔بخاری 3329
*مسلمانوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے کی کوشش*
ابن ِ اسحاق کا بیان ہے کہ ایک بوڑھا یہودی شاش بن قیس، ایک بار صحابہ کرام
رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی ایک مجلس کے پاس سے گذرا ، جس میں اوس و خزرج
دونوں ہی قبیلے کے لوگ بیٹھے باہم گفتگو کررہے تھے۔ اسے یہ دیکھ کر سخت رنج
ہوا۔ کہنے لگا : ''اوہ ! ا س دیار میں بنو قَیلہ کے اشراف متحد ہوگئے ہیں۔
واﷲ ! ان اشراف کے اتحاد کے بعد تو ہمارا یہاں گذر نہیں۔'' چنانچہ اس نے
ایک نوجوان یہودی کو جو اس کے ساتھ تھا حکم دیا کہ ان کی مجلس میں جائے اور
ان کے ساتھ بیٹھ کر پھر جنگ بعاث اور اس کے پہلے کے حالات کا ذکر کرے۔ اور
اس سلسلے میں دونوں جانب سے جو اشعار کہے گئے ہیں کچھ ان میں سنائے۔ اس
یہودی نے ایساہی کیا۔ اس کے نتیجے میں اوس وخزرج میں تو تو میں میں شروع
ہوگئی۔ لوگ جھگڑنے لگے اور ایک دوسرے پر فخر جتانے لگے حتی ٰ کہ دونوں
قبیلوں کے ایک ایک آدمی نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ردّ وقدح شروع کردی ، پھر
ایک نے اپنے مدّ ِ مقابل سے کہا : اگر چاہو تو ہم اس جنگ کو پھر جوان کرکے
پلٹا دیں - مقصد یہ تھا کہ ہم اس باہمی جنگ کے لیے پھر تیار ہیں جو اس سے
پہلے لڑی جاچکی ہے- اس پر دونوں فریقوں کو تاو آگیا اور بولے : چلو تیار
ہیں، حَرہ میں مقابلہ ہوگا -- ہتھیا ر ... ! ہتھیار ...!اب لوگ ہتھیار لے
کر حرہ کی طرف نکل پڑے، قریب تھا کہ خونریز جنگ ہوجاتی لیکن رسول اﷲﷺکو اس
کی خبر ہوگئی۔ آپﷺپنے مہاجرین صحابہ کو ہمراہ لے کر جھٹ ان کے پاس پہنچے
اور فرمایا :''اے مسلمانوں کی جماعت ! اﷲ۔ اﷲ۔ کیا میرے رہتے ہوئے جاہلیت
کی پکار ! اور وہ بھی اس کے بعد کہ اﷲ تمہیں اسلام کی ہدایت سے سرفراز
فرماچکا ہے اور اس کے ذریعے تم سے جاہلیت کا معاملہ کا ٹ کر اور تمہیں کفر
سے نجات دے کر تمہارے دلو ں کو آپس میں جوڑ چکا ہے۔'' آپﷺکی نصیحت سن کر
صحابہ کو احساس ہوا کہ ان کی حرکت شیطا ن کا ایک جھٹکا اور دشمن کی ایک چال
تھی ، چنانچہ وہ رونے لگے اور اوس وخزرج کے لوگ ایک دوسرے سے گلے ملے۔ پھر
رسول اﷲﷺ کے ساتھ اطاعت شعار وفرمانبردار بن کر اس حالت میں واپس آئے کہ اﷲ
نے ان کے دشمن شاش بن قیس کی عیاری کی آگ بجھادی تھی۔الرحیق المختوم ص324
*کعب بن اشرف یہودی اور مسلمانوں کی تکالیف*
یہودیوں میں یہ وہ شخص تھا جسے اسلام اور اہل ِ اسلام سے نہایت سخت عداوت
اور جلن تھی۔ یہ نبیﷺ کو اذیتیں پہنچایا کرتا تھا اور آپﷺ کے خلاف جنگ کی
کھلم کھلا دعوت دیتا پھرتا تھا۔اﷲ کا یہ دشمن ، رسول اﷲﷺ اور مسلمانوں کی
ہجو اور دشمنانِ اسلام کی مدح سرائی بھی کیا کرتا تھا ۔ ایک دفعہ مسلمانوں
کے خلاف جنگ بھڑکانے کے لیے قریش کے پاس پہنچا اور مطلب بن ابی وداعہ سہمی
کا مہمان ہوا۔ پھر مشرکین کی غیرت بھڑکانے ، ان کی آتشِ انتقام تیز کرنے
اور انہیں نبیﷺ کے خلاف آمادہ جنگ کرنے کے لیے اشعار کہہ کہہ کر ان
سردارانِ قریش کا نوحہ وماتم شروع کردیا جنہیں میدان ِ بدر میں قتل کیے
جانے کے بعد کنویں میں پھینک دیا گیا تھا۔اسی طرح وہ صحابہ کرام رضی اﷲ
عنہم کی عورتوں کے بارے میں واہیات اشعار بھی کہا کرتا تھا اور اپنی زبان
درازی وبدگوئی کے ذریعے سخت اذیت پہنچاتا تھا ۔*یہی حالات تھے جن سے تنگ
آکر رسول اﷲﷺ نے فرمایا :''کون ہے جو کعب بن اشرف سے نمٹے؟ کیونکہ اس نے اﷲ
اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو اذیت دی ہے*۔'
*یہود نے عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ کے ہاتھ اور پاؤں توڑ دیے*
جب ان کے ہاتھ پاؤں خیبر والوں نے توڑ ڈالے تو عمر رضی اﷲ عنہ خطبہ دینے کے
لیے کھڑے ہوئے ‘ آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے
جب خیبر کے یہودیوں سے ان کی جائیداد کا معاملہ کیا تھا تو آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم نے فرمایا تھا کہ جب تک اﷲ تعالیٰ تمہیں قائم رکھے ہم بھی قائم رکھیں
گے اور عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما وہاں اپنے اموال کے سلسلے میں گئے تو رات
میں ان کے ساتھ مار پیٹ کا معاملہ کیا گیا جس سے ان کے پاؤں ٹوٹ گئے۔ خیبر
میں ان کے سوا اور کوئی ہمارا دشمن نہیں ‘ وہی ہمارے دشمن ہیں اور انہیں پر
ہمیں شبہ ہے اس لیے میں انہیں جلا وطن کر دینا ہی مناسب جانتا ہوں۔ جب عمر
رضی اﷲ عنہ نے اس کا پختہ ارادہ کر لیا تو بنو ابی حقیق ( ایک یہودی خاندان
) کا ایک شخص تھا ’ آیا اور کہا یا امیرالمؤمنین کیا آپ ہمیں جلا وطن کر
دیں گے حالانکہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمیں یہاں باقی رکھا تھا اور ہم
سے جائیداد کا ایک معاملہ بھی کیا تھا اور اس کی ہمیں خیبر میں رہنے دینے
کی شرط بھی آپ نے لگائی تھی۔ عمر رضی اﷲ عنہ نے اس پر فرمایا کیا تم یہ
سمجھتے ہو کہ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان بھول گیا ہوں۔ جب رسول
اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کہا تھا کہ تمہارا کیا حال ہو گا جب تم خیبر سے
نکالے جاؤ گے اور تمہارے اونٹ تمہیں راتوں رات لیے پھریں گے۔ اس نے کہا یہ
ابوالقاسم ( آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ) کا ایک مذاق تھا۔ عمر رضی اﷲ عنہ نے
فرمایا: اﷲ کے دشمن! تم نے جھوٹی بات کہی۔ چنانچہ عمر رضی اﷲ عنہ نے انہیں
شہر بدر کر دیا اور ان کے پھلوں کی کچھ نقد قیمت کچھ مال اور اونٹ اور
دوسرے سامان یعنی کجاوے اور رسیوں کی صورت میں ادا کر دی۔ بخاری 2730 |