مہربانی کرو، خدا کی مہربانی پاؤ
(Iftikhar Ahmed, Karachi)
مہربانی کرو، خدا کی مہربانی پاؤ
دنیا میں ہر انسان خوشی، محبت، سکون، عزت اور اللہ کی رحمت کا طلبگار ہے۔ ہر بندہ چاہتا ہے کہ اللہ اس پر رحم کرے، گناہوں کو معاف فرمائے، اور دنیا و آخرت میں کامیابی عطا کرے۔ مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ کی مہربانی حاصل کرنے کے لیے ہمیں بھی دوسروں پر مہربان بننا ہوگا۔ شاعر نے نہایت سادگی سے اس حقیقت کو یوں بیان کیا ہے:
کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر خُدا مہرباں ہو گا عرشِ بریں پر
یہ شعر دراصل ایک عظیم اصولِ حیات ہے جو ہمیں زندگی کا مقصد، راستہ اور کامیابی کا راز سکھاتا ہے۔
مہربانی کی حقیقت
مہربانی صرف ایک نیکی نہیں بلکہ ایک روحانی طاقت ہے۔ یہ وہ خوبی ہے جو پتھر دل کو بھی نرم کر دیتی ہے، دشمن کو دوست بنا دیتی ہے، اور ظلم کے اندھیروں میں بھی روشنی کی کرن پیدا کرتی ہے۔
مہربانی کے چند مظاہر:
کسی بوڑھے کو سڑک پار کرانا چھوٹوں سے نرمی سے بات کرنا کسی ضرورت مند کی عزتِ نفس مجروح کیے بغیر مدد کرنا معاف کر دینا، چاہے دل دُکھا ہو جانوروں کو مارنے کے بجائے ان کا خیال رکھنا اور سب سے بڑھ کر دل میں کسی کے لیے بُرا نہ سوچنا
یہ وہ اعمال ہیں جو شاید دنیا کو نظر نہ آئیں، لیکن اللہ کے نزدیک بہت مقبول ہوتے ہیں۔
قرآنِ حکیم کی روشنی میں
اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتے ہیں:
> "تم لوگوں کو معاف کر دیا کرو، کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف فرما دے؟" (سورۃ النور، آیت 22)
یہ آیت انسان کے اندر نرمی، درگزر، اور خلوص پیدا کرتی ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ اگر تم دوسروں کو معاف کرو گے تو میں تمہیں معاف کروں گا۔
یہی اصول ہمارے ایمان کی بنیاد ہے۔ جو بندہ دل میں بغض، حسد، نفرت اور تکبر رکھے گا، وہ اللہ کی رحمت سے دور ہو جائے گا۔ لیکن جو درگزر کرے گا، نرمی اپنائے گا، وہی اللہ کی مہربانی کا حقدار بنے گا۔
نبی کریم ﷺ کی سیرت سے مثالیں
رحمتِ دو عالم ﷺ کی ساری زندگی مہربانی کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔
1. طائف کا واقعہ
جب طائف کے لوگوں نے پتھر مار مار کر آپ ﷺ کو لہو لہان کر دیا، تب بھی آپ نے بددعا نہیں کی، بلکہ فرمایا:
"اے اللہ! میری قوم کو ہدایت دے، یہ نہیں جانتے"
2. فتح مکہ
جب دشمنوں نے سالوں تک ظلم کیا، ہجرت پر مجبور کیا، جنگیں کیں، اور آخر میں آپ ﷺ مکہ میں فاتح بن کر داخل ہوئے، تو آپ ﷺ نے سب کو معاف کر دیا اور فرمایا:
"آج تم پر کوئی گرفت نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو"
یہ مثالیں ہمیں سکھاتی ہیں کہ مہربانی کمزوری نہیں، بلکہ ایک فاتح کا وصف ہے۔
معاشرتی پہلو
اگر معاشرے میں ہر شخص مہربانی کو اپنا شعار بنائے تو:
نفرتیں ختم ہوں لوگ ایک دوسرے کے دکھ درد بانٹیں عدالتوں میں مقدمات کم ہوں جرائم کی شرح کم ہو جائے غریبوں اور یتیموں کو سہارا ملے
یہی وہ اسلامی معاشرہ ہے جس کا تصور قرآن اور سنت ہمیں دیتا ہے۔
مہربانی اور بچوں کی تربیت
بچپن ہی وہ وقت ہے جب دل نرم ہوتے ہیں اور شخصیت بن رہی ہوتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ:
بچوں کو چھوٹے چھوٹے عمل کے ذریعے مہربانی سکھائیں
جانوروں سے محبت، بڑوں کا احترام، چھوٹوں پر شفقت، غریبوں کی مدد، سب ان کے کردار کا حصہ بنائیں
اُنہیں یہ آیت یاد کروائیں:
"وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ، وَاللّٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ" (ترجمہ: اور وہ جو لوگوں کو معاف کرتے ہیں، اور اللہ نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے) (سورۃ آل عمران: 134)
نتیجہ
دنیا کی خوبصورتی صرف عمارتوں، کاروں، یا سائنسی ترقی میں نہیں، بلکہ دلوں کی نرمی، زبان کی شائستگی، ہاتھ کی سخاوت، اور عمل کی سچائی میں ہے۔ ہمیں اللہ کی رحمت اس وقت ملے گی جب ہم اللہ کے بندوں پر رحم کریں گے۔
لہٰذا آئیے آج دل سے عہد کریں:
ہم زمین والوں پر مہربانی کریں گے تاکہ عرش والا ہم پر مہربانی فرمائیں
|