راستے کا سوال اور انجام کی طلب

”ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا۔ نہ کہ اُن کا راستہ جن پر غضب کیا گیا، اور نہ اُن کا جو گمراہ ہو گئے۔“ (سورۃ الفاتحہ: 5/7)
انسان کی زندگی ایک مسلسل سفر ہے، اور یہ سفر راستوں کی پہچان اور منزل کی تلاش سے بھرا ہوا ہے۔ ہر صبح ایک نیا موڑ لاتی ہے، ہر لمحہ کوئی نیا انتخاب، اور ہر فیصلہ کسی نئے راستے کی جانب انسان کو لے جاتا ہے۔ اسی لیے جب انسان اپنے رب کے حضور حاضر ہوتا ہے، تو عبادت و استعانت کے بعد اُس کا دل سب سے فطری، سب سے اہم، اور سب سے گہری دعا مانگتا ہے: ”ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔“ یہ دعا، گویا زندگی کا مرکز ہے۔ یہ محض کسی راستے کی نشاندہی نہیں، بلکہ روشنی، بصیرت، ہدایت، بصارت، اور ثابت قدمی کی التجا ہے۔ یہ ایک ایسی صدا ہے جو دل سے نکلتی ہے، جس میں اعتراف بھی ہے کہ ہم خود راہ نہیں بنا سکتے، اور عجز بھی ہے کہ ہمیں راستہ مل بھی جائے تو ہم اس پر چلنے کی طاقت نہیں رکھتے، جب تک رب ہماری رہنمائی نہ کرے۔ جب بندہ کہتا ہے: ”ہمیں سیدھا راستہ دکھا“ تو وہ یہ نہیں کہہ رہا ہوتا کہ ”ہمیں آسان راستہ دے“ یا ”وہ راستہ دے جو دوسروں سے مختلف ہو“، بلکہ وہ سچّا، دائمی، اور رب کے قریب لے جانے والا راستہ مانگ رہا ہوتا ہے۔ وہ راستہ جو دل کی گہرائیوں کو بھی سیدھا کرے، جو سوچ کو، نیت کو، اور قدموں کو پاکیزگی عطا کرے۔ ”ہمیں سیدھا راستہ دکھا“، یعنی وہ راستہ جو مقصد تک پہنچاتا ہے، جو دل کو سکون دیتا ہے، جو زندگی کو مقصد، روشنی اور یقین بخشتا ہے۔ یہ راستہ ایک فلسفہ نہیں، نہ ہی کوئی تجریدی خیال، بلکہ یہ ایک حقیقی، عملی اور جیتا جاگتا راستہ ہے، وہ جس پر اللہ کے منتخب بندے چلے، جنہوں نے رب کی رضا کو پانے کے لیے دنیا کی چکا چوند کو ٹھکرا دیا، اور اپنے قدموں کو صرف اُس منزل کی طرف رکھا جو رب کی خوشنودی تک لے جاتی ہے۔ اسی لیے بندہ اگلی آیت میں کہتا ہے:
”اُن لوگوں کا راستہ جن پر تُو نے انعام فرمایا۔“ یہاں راستے کی مزید وضاحت کی جاتی ہے، تاکہ بندہ کسی غلط سمت میں نہ بہک جائے۔ وہ جاننا چاہتا ہے کہ یہ سیدھا راستہ کیسا ہے، کیسا ہونا چاہیے۔ یہ انعام یافتہ لوگوں کا راستہ ہے، یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین، جنہوں نے علم، عمل، صبر، اخلاص، اور وفا سے اس راستے کو اپنی زندگی بنا لیا۔ یہ وہ راستہ ہے جس میں گواہی بھی ہے، جان کی بازی بھی ہے، اور دل کی پاکیزگی بھی۔ اور جب وہ کہتا ہے: ”جن پر تُو نے انعام فرمایا“ تو وہ دنیا کے مشہور چہروں یا کامیاب مہمات کی بات نہیں کر رہا، بلکہ اُن دلوں کی بات کر رہا ہے جو رب کی رضا پا گئے، جن کی راتیں سجدوں میں گزریں، جن کی دن کی تھکن اللہ کے راستے میں خرچ ہوئی، جنہوں نے دنیا میں گمنام ہو کر، آخرت میں شہرت پائی۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر رب نے دنیا میں بھی کرم کیا اور آخرت میں بھی عزت دی۔ مگر چونکہ انسان کمزور ہے، بھٹکنے والا ہے، غفلت کا شکار ہو سکتا ہے، اس لیے وہ محض راستے کی طلب پر رکتا نہیں، وہ اس کی نفی بھی کرتا ہے کہ کون سا راستہ نہیں چاہیے۔ اسی لیے وہ عاجزی سے عرض کرتا ہے:
”نہ اُن لوگوں کا راستہ جن پر تیرا غضب نازل ہوا، اور نہ اُن کا جو گمراہ ہو گئے۔“ یہاں دو خطرات واضح کیے گئے ہیں: پہلا، وہ لوگ جن پر (اللہ کا غضب) ہوا، یعنی وہ جنہوں نے حق کو جانا، پہچانا، مگر جان بوجھ کر اس سے انکار کیا، غرور، عناد اور حسد میں آ کر۔ علم تھا، مگر نیت سیاہ تھی۔ زبان پر رب کا نام تھا، مگر دل دنیا کے سامنے جھکا ہوا تھا۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو (گمراہ ہو گئے)، وہ جو نیت میں تو مخلص تھے، مگر علم سے خالی، بصیرت سے دور، اور رہنمائی کے بغیر۔ اُن کے جذبات تھے، جوش تھا، مگر روشنی نہیں تھی۔ سو وہ اندھیرے میں بھٹک گئے، خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی کر بیٹھے۔ اور جب وہ کہتا ہے: ”نہ کہ اُن کا راستہ جن پر غضب ہوا یا جو بھٹک گئے“ تو گویا وہ اپنے رب سے فریاد کرتا ہے کہ: ”اے رب، مجھے اُن راستوں سے بچا جو چمکدار ضرور ہیں، مگر اندر سے کھوکھلے، جو پرکشش ضرور لگتے ہیں، مگر انجام میں تباہی لیے ہوتے ہیں۔ مجھے علم کے بغیر جذبے سے بھی بچا، اور علم کے ساتھ غرور سے بھی بچا۔“ یہ دونوں مثالیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ہدایت کا راستہ صرف نیت سے نہیں، اور صرف علم سے بھی نہیں، بلکہ علم، نیت، اخلاص، صبر، اور رب کی مدد، سب ساتھ ہوں، تب ہی انسان سیدھے راستے پر قائم رہ سکتا ہے۔ یہ آیات بندے کو ایک مستقل دعا سکھاتی ہیں۔ یہ ایک بار مانگنے کی بات نہیں، بلکہ ہر نماز، ہر رکعت میں، دن میں کئی بار، یہ یاد دہانی ضروری ہے کہ راستہ مسلسل مانگنا ہے، خطرات کو مسلسل پہچاننا ہے، اور رب سے مسلسل جڑے رہنا ہے۔ یہ آیات ہمیں یہ بھی سکھاتی ہیں کہ راہ پر آ جانا کافی نہیں، راہ پر قائم رہنا اصل امتحان ہے۔ کتنے ہی لوگ منزل کے قریب آ کر بھٹک جاتے ہیں، کتنے ہی علم والے کردار سے ہار جاتے ہیں، اور کتنے ہی نیک نیت لوگ بصیرت کے بغیر بہک جاتے ہیں۔ اس لیے یہ دعا ہر لمحہ، ہر نماز میں دہرانا لازم ہے، کیونکہ ہدایت کوئی ایک بار ملنے والی چیز نہیں، یہ وہ نور ہے جو ہر دن، ہر فیصلے، ہر قدم پر دوبارہ مانگنا پڑتا ہے۔ اسی لیے تو بندہ دن میں کم از کم 17 مرتبہ یہ دعا لازمی مانگتا ہے۔ یہ آیات صرف الفاظ نہیں، بلکہ بندے کے سفرِ حیات کا مرکزی محور ہیں۔ یہ انسان کی اصل ضرورت کو زبان دیتی ہیں، وہ ضرورت جو لباس، خوراک یا مکان سے بڑی ہے، وہ ضرورت جو روح کی بھوک ہے: ہدایت۔ راستہ۔ رہنمائی۔ ایک ایسا راستہ جس پر چل کر انسان خدا تک پہنچے، نہ کہ دنیا کی چمک میں کھو کر نفس کا بندہ بن جائے۔ یہ آیات انسان کے دل کو ہر گھڑی جھنجھوڑتی ہیں: ”تم تنہا نہیں چل سکتے۔“ علم کافی نہیں، نیت اکیلی نہیں، نیک خواہشات بھی خود راہ نہیں بناتیں۔ یہ سب تب مکمل ہوں گے، جب رب کا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں ہو، تبھی تم اندھیروں سے بچو گے، تبھی تم گمراہوں کے ہجوم میں بھی سیدھے راستے پر رہو گے، تبھی تم اُن میں شامل ہو جاؤ گے جن پر رب کا انعام ہوا، نہ اُن میں جن پر غضب نازل ہوا، نہ اُن میں جو بھٹک کر ضائع ہو گئے۔ یہ دعا، ایک مکمل فکری و عملی نظام کی بنیاد رکھتی ہے۔ یہ صرف عبادت گزاروں کی نہیں، بلکہ حکمرانوں، استادوں، شاگردوں، والدین، رہنماؤں، کارکنوں، دانشوروں، سب کی دعا ہے۔ ہر وہ شخص جو کسی بھی سطح پر اثر رکھتا ہے، اُسے اپنے عمل کے آغاز میں یہی کہنا ہے: ”رب ہدایت دے، سیدھی، سچی، کامل۔“ آمین۔

 

Shayan Alam
About the Author: Shayan Alam Read More Articles by Shayan Alam: 48 Articles with 16110 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.