برطانیہ میں مسجد کے اندر چوہے چھوڑنے کا افسوسناک واقعہ
(Fazal khaliq khan, Mingora Swat)
مذہبی منافرت کسی بھی معاشرے کی تباہی کا سبب بن سکتا ہے، برطانیہ کا واقعہ انتہائی افسوس ناک ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔ |
|
|
فضل خالق خان (مینگورہ سوات) برطانیہ میں آباد مختلف قومیتوں، مذاہب اور ثقافتوں کو ایک دائرہ میں سمو کر "کثیرالثقافتی معاشرہ" کہا جاتا ہے، لیکن بعض اوقات یہی معاشرہ انتہا پسندی، تعصب اور نفرت کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں برطانیہ کے شہر شیفیلڈ کی ایک مسجد کے باہر جان بوجھ کر چوہے چھوڑنے کا واقعہ ایسا ہی ایک افسوسناک، شرمناک اور قابلِ مذمت عمل ہے، جس نے صرف مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح نہیں کیا بلکہ برطانیہ جیسے مہذب اور قانون پسند معاشرے کی روح کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے انڈیپنڈنٹ کے مطابق، 66 سالہ ایڈمنڈ فاؤلر کو شیفیلڈ گرینڈ مسجد کے باہر سی سی ٹی وی کیمروں نے اس وقت ریکارڈ کیا جب وہ اپنی گاڑی کے پچھلے حصے سے جنگلی چوہے نکال کر مسجد کی حدود میں چھوڑ رہا تھا۔ ان کی حرکتوں کے باعث نہ صرف مسجد کی صفائی اور تقدس متاثر ہوا، بلکہ نمازیوں اور مسجد انتظامیہ میں شدید خوف اور بے چینی بھی پھیل گئی۔ عدالتی کارروائی کے دوران انکشاف ہوا کہ فاؤلر نے مئی اور جون 2025 کے درمیان تین بار ایسی حرکتیں دہرائیں۔ عدالت نے ان پر نسلی بنیادوں پر ہراساں کرنے کے چار الزامات ثابت ہونے پر انہیں 18 ماہ قید کی سزا سنائی اور ساتھ ہی رہائی کے بعد مزید 18 ماہ تک مسجد کے قریب آنے پر پابندی عائد کر دی۔ مسجد ہو، گرجا گھر، گردوارہ یا مندر جیسی عبادت گاہیں کسی بھی مذہب یا مسلک سے تعلق رکھتی ہوں، وہ روحانیت، امن، اجتماعیت اور یکجہتی کی علامت ہوتی ہیں۔ ان پر حملہ صرف ایک عمارت پر نہیں بلکہ ایک نظریے، ایک عقیدے اور ایک پوری کمیونٹی پر حملہ سمجھا جاتا ہے۔ فاؤلر جیسے افراد جب مذہبی مقامات کو نشانہ بناتے ہیں تو وہ نہ صرف قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں بلکہ معاشرتی ہم آہنگی کو بھی پارہ پارہ کر دیتے ہیں۔ مسجد کے منتظمین کے مطابق اس واقعے کے بعد کمیونٹی کے افراد خوفزدہ ہیں، اور اکثر لوگ نماز اور عبادات کے لیے مسجد آنے سے جھجھک محسوس کر رہے ہیں۔ یہ صورت حال نہایت افسوسناک اور قابلِ توجہ ہے، کیونکہ اگر کسی مذہبی اقلیت کو اپنے بنیادی حق یعنی مذہبی عبادت کے لیے بھی غیر محفوظ ماحول کا سامنا کرنا پڑے تو یہ کسی بھی جمہوری اور انسانی حقوق کے دعویدار معاشرے کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ ایڈمنڈ فاؤلر کو قید کی سزا دینا اور مسجد کے قریب آنے پر پابندی عائد کرنا بلاشبہ برطانوی عدلیہ کی ایک مثبت اور واضح مثال ہے، جو یہ پیغام دیتی ہے کہ مذہبی بنیادوں پر نفرت پھیلانے، ہراساں کرنے یا کسی کمیونٹی کو نشانہ بنانے کی اجازت ہرگز نہیں دی جائے گی۔ تاہم یہ اقدام محض انصاف کا آغاز ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ نفرت انگیزی کے پس پردہ ذہنیت کا بھی گہرائی سے تجزیہ کیا جائے اور اس کی روک تھام کے لیے موثر پالیسیز ترتیب دی جائیں۔ ایسے واقعات کی روک تھام صرف قانون سے ممکن نہیں، بلکہ معاشرتی شعور، تعلیمی اداروں کا کردار، میڈیا کی ذمہ داری اور مقامی کمیونٹیز کا باہمی اتحاد بھی ضروری ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ خوف کے بجائے قانون کا سہارا لیں اور اپنی بات پرامن انداز میں متعلقہ فورمز پر اٹھائیں، جبکہ دیگر مذاہب و قومیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو چاہیے کہ وہ اپنے معاشرے میں نفرت پھیلانے والوں کے خلاف متحد ہو جائیں۔ شیفیلڈ مسجد کے واقعے نے یہ واضح کر دیا کہ نفرت انگیزی کی آگ کسی ایک مذہب یا قوم کو نہیں جلاتی بلکہ پورے معاشرے کو متاثر کرتی ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم تعصب، نفرت اور مذہبی منافرت کے خلاف ایک مشترکہ آواز بلند کریں تاکہ آنے والی نسلوں کو ایک زیادہ پرامن اور باہمی احترام پر مبنی دنیا دی جا سکے۔ |
|