اسلام کی دعوت کیسے دیں؟؟؟
آئیے!
قرآن و سنت سے پوچھتے ہیں
از
زبیر احمد علیمی
کسی بھی شے کو عملی طور پر کرنے سے قبل اسکے اساسی و بنیادی اصول و ضوابط
کا ادراک ہونا ایک لازمی امر ہے جو کرنے والے میں اہلیت اور عمل میں تاثیر
و قوت پیدا کر دیتی ہے اور متعین کردہ مقاصد کے حصول کو حتمی و یقینی بنا
دیتی ہے جو کہ ایک ناگزیر عمل ہے۔ایسا ہی معاملہ دینِ اسلام کی دعوت و
تبلیغ کے ساتھ بھی ہے جو احکامِ الہی ٰ میں سے ایک نہایت اہم و اساسی فریضہ
ہے گو کہ اسکی انفرادی اور اجتماعی دونوں صورتیں ہیں مگر اساسی اصول و
ضوابط کا اطلاق بالعموم ہے۔
اسلام کی ترویج و اشاعت کا سلسلہ دائمی و ابدی ہے جو کہ قیامت تک جاری و
ساری رہے گا۔اس حساس وثقیل ذمہ دای کو اللہ جل شانہ نے انبیاء علیھم السلام
کے بعد ان کے متبعین وپیر وکاروں کے ذمہ لگائی ہے، اب چونکہ محمد رسول
اللہﷺ خاتم النبیین ( آخری رسول) ہیں اور آپ کی امت آخری امت ہے تو یہ اہم
ترین ذمہ داری ان کے سر ہے۔اسلام نے اپنی دعوت و ترویج کے لیے کچھ اساسی
اصول و شرائط وضع کئےہیں اور رسول اللہ ﷺ کی پوری زندگی اسلام کی تعلیم و
تبلیغ میں صرف ہوئی ہے تو ہم پر بھی یہ واجب ہے کہ اسلام کی خدمات اسلامی
طریقے کے مطابق بحسنِ خوبی انجام دیں۔
اسلام کی دعوت کے لیے اولین شرط یہ ہے کہ مبلغِ اسلام کے لیے احکامِ دین کا
جاننا بے حد ضروری ہے جن میں عربی لغت، قرآن و حدیث، سیرت النبی ﷺ، سیرت ِ
صحابہؓ، فقہ کا عالم ہونا اس طور کہ قرآن و سنت، علم الکلام اور کتبِ فقہ
کی روشنی میں احکام و مسائل کے استنباط کرنے پر قدرت ہو،چنانچہ ارشادِ باری
تعالیٰ ہے: اور ہم لوگوں کے لیے ان مثالوں کو بیان کرتے ہیں، اور ان مثالوں
کو صرف علماء سمجھتے ہیں ' (العنکبو ت : 43) ۔دوم یہ کہ اس کا قلب و نفس
خشیتِ الٰہی سے معمور ہو اور شعائرِ اسلام کا مکمل طور پر پیکر ہو، ارشادِ
باری تعالیٰ ہے :اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی بارگاہ میں (نجات کا
) وسیلہ تلاش کرو، اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم کامیاب
ہو'(المائدۃ:35) مزید فرمایا 'سو تم لوگوں سے نہ ڈرو مجھ سے ڈرو ،اور میری
آیتوں کے بدلے میں تھوڑی قیمت نہ لو' (المائدۃ:44)۔اورمزید رہنمائی فرمائی
کہ ' اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جس طرح اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں ہر
گز موت نہ آئے مگر مسلمان ہونے کی حالت میں' ( اٰلِ عمران:102)۔سوئم یہ کہ
وہ لوگوں کو خیروبھلائی کا حکم کرنے والا ہو اور شرو برائی سے باز رکھنے
والاہو، قرآن کریم کلام گو ہے : 'اور تم میں ایسے لوگوں کی ایک جماعت ہونی
چاہیےجو اچھائی کی طرف بلائیںاور نیک کاموں کا حکم دیں اور برے کاموں سے
منع کریں، اور وہی لوگ فلاح کو پہنچنے والے ہیں' (آلِ عمران: 104)۔ حضرت
ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے جس شخص
نے برائی کو دیکھا،وہ اپنے ہاتھ سے برائی کو مٹائے،اگر وہ اس کی طاقت نہیں
رکھتاہو تو اپنی زبان سے مٹائے اور اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل سے اس
کو برا جانےاور یہ سب سے کمزور درجے کا ایمان ہے۔( صحیح مسلم) چہارم شرط یہ
کہ اللہجل جلالہ اور اس کے رسول ﷺ کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت و
دانائی،عمدہ نصیحت اور مکارمِ اخلاق کے ساتھ دعوت دے ، حکمت سے مراد کہ وہ
لوگوں کی ذہنی استعداد، عقل و فہم اور موقع و محل کی مناسبت کو ملحوظ رکھتے
ہوئے کلام کرے،چنانچہ کلامِ حق صراحتاً حکم دیتا ہے کہ ' آپ اپنے رب کے
راستے کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے، اور احسن طریقے کے ساتھ
ان پر حجت قائم کیجئے، بے شک آپ کا رب ان کو بہت جاننے والا ہے جو اس کے
راستے سے بھٹک گئے اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جاننے والا ہے'
(النحل: 125)۔مزید مفصل ہدایت دی گئی اور فرمایا: اور اس سے عمدہ کلام کس
کا ہو سکتا ہےجو اللہ ( کے دین) کی دعوت دے اور نیک کام کرے اور کہے کہ بے
شک میں مسلمانوں میں سے ہوںټ اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہے، سو آپ برائی
کو اچھے طریقے سے دور کریں، پس اس وقت جس کےاور آپ کے درمیان دشمنی ہے وہ
ایسا ہو جائے گا جیسے وہ آپ کا خیر خواہ دوست ہے۔(حم السجدۃ: 33-34) ، حدیث
مبارکہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے مکارمِ
اخلاق کو مکمل کرنے کے لیے مبعوث فرمایا ہے۔(مؤطا امام مالک رقم
الحدیث:1677)۔اسی طرح حضرت حسین بن علی بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد
سے رسول اللہﷺ کے اپنےہم نشینوں کے ساتھ سیرت کے متعلق سوال کیا ، تو انہوں
نے کہا : رسول اللہﷺ کے چہرے پر ہمیشہ بشاشت رہتی تھی، آپ بہت نرم مزاج
تھے، آپ سے بات کرنا بہت سہل تھا، آپ بد مزاج اور سخت دل نہ تھے،نہ بد
گفتار تھے ، نہ لوگوں کے عیب بیان کرتے تھے، نہ بخل کرتے تھے، ٖفضول باتوں
کی طرف توجہ نہیں کرتے تھے، جو شخص آپکے پاس کوئی امید لے کر آتا آپ اس کو
مایوس نہیں کرتے تھے اور کسی کو نامراد نہیں کرتے تھے، آپ نے اپنے لیے تین
چیزوں کو چھوڑ دیا تھا، آپ بحث و تکرار، زیادہ باتوں اور بے مقصد کاموں میں
نہیں پڑتے تھے، اور آپ نے لوگوں کے لیے بھی تین چیزیں چھوڑ دیں تھیں، آپ
کسی شخص کی مذمت کرتے تھے اور نہ اسکا عیب نکالتے تھے، اور نہ کسی کی
پوشیدہ چیز معلوم کرتے تھے، اور صرف اسی معاملے میں بات کیا کرتے تھے جس
میں آپ کو ثواب کی امید ہوتی تھی،اور جب آپ گفتگو فرماتے تھے تو آپ کے ہم
مجلس اس طرح اپنے سروں کو جھکا لیتے جیسے ان کے سروں پر پرندے ہوں، اور جب
آپ خاموش ہوتے تب وہ آپ سے کوئی بات کرتے تھے، اور وہ آپ کے سامنے کسی بات
میں بحث نہیں کرتے تھے ، اور جب کوئی شخص آپ سے بات کرتا تو سب اس کی بات
ختم ہونے تک خاموش رہتے، جب آپ کے شرکاء ِ مجلس ہنستے تو آپ ہنستے تھے اور
جس چیز پر وہ تعجب کرتے آپ بھی تعجب کرتے، جب کوئی اجنبی سختی سے بات کرتا
یا سوال کرتا تو آپ صبر کرتے تھے، حتیٰ کہ اگر آپ کے اصحاب اس پر سختی کرتے
تو آپ فرماتے: جب تم دیکھو کہ ضرورت مند اپنی حاجت کو طلب کر رہا ہےتو تم
اس کے ساتھ نرمی کرو، آپ بغیر نوازش اور عطا کے اپنی تعریف کو قبول نہیں
کرتے تھے،ہاں ! آپ کسی کو کچھ عطا کرتے اور وہ آپ کی تعریف کرتا تو آپ قبول
کر لیتے ، آپ کسی کے کلام کو منقطع نہیں کرتے تھے حتی کہ وہ شخص حد سے
تجاوز کرتا تو پھر اس کی بات کاٹ کر اس کو روکتے یا اٹھ جاتے۔(شمائل ترمذی
رقم الحدیث:352)۔مندرجہ بالا امورسے ایک داعی و مبلغ ِ اسلام پر یہ امر
منتج ہوتا ہے کہ اسے ایسے اوصافِ حمیدہ سے متصف ہونا چاہیے تا کہ ابلاغ و
دعوت کا عمل مؤثر ہو سکے۔ پنجم شرط یہ کہ اس میں ہمت و شجاعت، دلیری اور
بہادری ہو۔ظلم و ستم کا حوصلہ مندی کے ساتھ مقابلہ کر سکے۔اعلاءِ کلمۃ الحق
کی قوت اور اولوالعزمی جیسی اعلی ٰصفات سے مزین ہو۔ایسے جوش و ولولہ کا
حامل ہو کہ ظالم و جابر حکمرانوں کے خلاف حق کا پرچم بلند کر سکے۔چنانچہ حق
تعالی کاٰ ارشاد ہے: اور اللہ کی راہ میں اس طرح جہاد کرو جس طرح جہاد کرنے
کا حق ہے۔(الحج:78)۔حضرت ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے
فرمایا: افضل جہاد ظالم حاکم کے سامنے کلمئہ حق کہنا ہے۔(سنن ابی داؤد) اور
عبداللہ طارق بن شہاب بیان کرتے ہیں کہ کسی شخص نے رسول اللہﷺ سے سوال
کیاکہ کون سا جہادسب سے افضل ہے؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ظالم سلطان کے
سامنے کلمئہ حق بلند کرناسب سے افضل جہادہے۔ (سنن نسائی)اور حضر ت عبد اللہ
بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم میری امت میں ان
لوگوں کو دیکھو جو ظالم کو ظالم کہنے سے ڈریں تو تم ان سے الگ ہو جاؤ۔
(مسند احمد،جامع ترمذی ،صحیح ابنِ حبان)
چنانچہ مجددِ الف ثانی شیخ احمد سرہندیؓ کا اندازِ تعلیم یہ تھا کہ صالحین
کی جماعت تیار کرکے انھیں اچھی طرح سے ظاہری و باطنی علوم سے آراستہ و
پیراستہ کرکے دنیا کے اطراف و اکناف میں پھیلا دیا جائے مگر بزریعہ مکتوب
انھیں مرکز کے ساتھ وابستہ رکھا جائے اور حکمرانوں پر رائے عامہ کا دباؤ
(pressure) مسلسل برقرار رکھا جائے تا کہ رائے عامہ انھیں صراط مستقیم سے
ہٹنے نہ دے۔
آپ کے اندازِ تعلیم کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ امراء کو قائل و معتقد رکھا
جائے۔ انھیں اس طریقہ عالیہ کا حامی و مدد گار بنایا جائے اور انھیں کے
ذریعے حکومت کی پالیسیوں پر اثرانداز ہوا جائے۔ آپ کے اندازِ تعلیم و
تبلیغ کا تیسرا پہلو یہ تھا کہ خود بادشاہِ وقت کومجبور کرنا چاہیے کہ وہ
تعلیماتِ اسلام پر طوعاً و کرھًا چلے۔ اپنے آپ کو مطلق العنان نہیں ذمہ
دار سمجھے۔ اس کو شخصی حکومت کی تمام تر برائیوں سے اجتناب پر مجبور کرنا
چاہیے جوابا اگر وہ قید و نظربند کرتا ہے یا ظلم و ستم ڈھاتا ہے تو کرتا
رہے مگر بادشاہ وقت کو یہ یقین ہونا چاہیے کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے اسے
شریعتِ اسلام کی پابندی طوعًا و کرھًا کرنی پڑے گی۔
چوتھا اندازِ تعلیم و تبلیغ کا پہلو یہ تھا کہ علماء وصلحاء اور پڑھے لکھے
طبقے کو اپنے مکتوبات کے پر زور اندازِ بیاں ( کہ جس کو ایک مستشرق نے
قرآن کے بعد اسلام کا دوسرا عظیم کارنامہ قرار دیا ہے ) کے ذریعے قائل کیا
جائے اور ان کوبھی اس جہاد میں شامل کیا جائے۔ ( ماخوذ من جہانِ امام ربانی
مجددِ الف ثانی شیخ احمد سرہندیؓ از پروفیسر نثار احمد جان سرہندی مجددی، ص
۴۴۵- ۴۴۶، امام ربانی فاؤنڈیشن کراچی)۔
مندرجہ بالا شرئط کو اگر کوزے میں بند کیا جائے اور نتیجے کا خلاصہ ان جامع
و مختصر نکات میں اسطرح بند کیا جائے : (1) علمِ دین کا حصول (2) اللہ اور
اسکے رسولﷺ کی خشنودی و رضا کا طالب ہونا(3)لوگوں کی بھلائی کا مقصود ہونا
(4) نرم دلی، صبر،محبت و شفقت سے کام لینا (5) اللہ کی رضا پر استقامت
اختیار کرنا (6)سچ وحق بات کہنا۔
ان تمام مندرجہ بالا شرائط کا پالن کار ہی ایک کامیاب اور مؤثر مبلغِ اسلام
صحیح معنیٰ میں بن سکتا ہے اور مستحق بھی۔ اللہ سے دعاء ہے کہ ہم سب کو ان
شرائط کا عامل اور دینِ اسلام کی بے لوث خدمت و تبلیغ کی سعادت نصیب
فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ
|