جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں

حاجی عبدلوہاب صاحب کی زندگی

محمّد عادل خان تنولی

جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آب بقائے دوام لے ساقی!
اقبال کا یہ شعر جماعت کے ان بزرگوں پر صادق آتا ہے جو اپنی نذر پوری کر کے اللہ کے حضور حاضر ہو رہے ہیں۔ ان بزرگوں کا خاصہ یہ تھا کہ دین کی تعلیمات کا درس انہوں نے مولانا الیاس سے پایا اور صحیح معنوں میں دین کے داعی،جماعت کے بہی خواہ اور اپنا ہر لمحہ اللہ کے دین کے لیے وقف رکھنے اور اسی کے لیے سرگرداں رہتے ہوئے گزارا۔ ان میں سے کوئی رخصت ہوتا ہے تو خلا کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔

مولانا حاجی عبدالوہاب صاحب ایک ہمہ جہت، ہماگیر،داعی اور ولی کامل تھے۔ ان کی شخصیت میں کتنی ہی گوناگوں خوبیاں شامل تھی جن کو کام میں لاتے ہوئے حضرت نے انسانوں کا ایک ایسا عظیم گروہ تشکیل دیا جس نے اللہ کے دین کی اشاعت کے لئے مشرق و مغرب شمال جنوب کی وسعتوں کو سمیٹا۔

حاجی صاحب کا اصل نام راو محمد عبدالوہاب تھا۔ آپ 922 1کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے وقت اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان کے علاقے بورےوالا ہجرت کی۔ تعلیم کی تکمیل اسلامیہ کالج لاہور سے کرنے کے بعد تحصیلدار کے عہدے پر فائز ہوئے۔ دوران ملازمت مجلس احراراسلام کے ساتھ اور بعد از انیس سو چوالیس میں تبلیغی مرکز دہلی میں مولانا الیاس کی صحبت میں چھ ماہ گزارنے کے بعد نوکری کو خیرباد کہا اور ساری زندگی اللہ کے دین کے لیے وقف کردی۔ تبلیغی جماعت کے پانچ ایسے بزرگوں میں آپ کا شمار ہوتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی کے اسی سال دین حق کی تبلیغ و اشاعت میں گزارے۔

تبلیغی جماعت کے اول امیر محمد شفیق قریشی صاحب کی وفات کے بعد حاجی محمد بشیر اور پھر تیسرے نمبر پر آپ امیر مقرر ہوئے اور تادم مرگ اپنی امارت کی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھائی۔

حاجی عبدالوہاب صاحب کو یہ مقام بھی حاصل ہے کہ تمام مکاتب فکر کے علما اور عوام میں آپ کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

حاجی صاحب کا نام مختلف سیاسی سرگرمیوں میں بھی لیا جاتا رہا۔ اکتوبر 2013 میں تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات کے لئے آپ کا نام امیر جرگہ کے طور پر لیا گیا اور فروری 2014 میں خود تحریک طالبان کے کچھ کمانڈرز نے آپ کو حکومت کی جانب سے امن کمیٹی کا ممبر بنائے جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔

زمانہ طالبعلمی میں ہی تبلیغ کے کام سے جڑ گے۔ جماعت کی قیادت اور کار کونان سے مل کر دلی خوشی محسوس کرتے۔ دعوت دینے کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔ مجلس شورا کے اجلاس میں لازمی شرکت کرتے اور جماعتوں کی تشکیل میں ہدایت و مدد کرتے۔ مرکز جماعت، مرکزی زممداران اورعام عوام سے بھی قریبی تعلق رکھتے تھے۔

لاہور سے چالیس کلومیٹر دور رائیونڈ سے اس ولی کامل کی انتھک محنت و لگن سے حج کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا اجتماع انیس سو پچاس سے لے کر آج تک ہر سال باقاعدگی سے منعقد کیا جاتا ہے۔ جس میں ساری دنیا سے بندگان خدا اللہ کے دین کے لئے جوق در جوق کھینچے چلے آتے ہیں۔ یہ اجتماع حقیقی اسلام کا منظر پیش کرتا ہے ہر قسم کی منافرت تفرقہ بازی سے پاک اللّه سے سب کچھ ہونے اور مخلوق سے کچھ نا ہونے کا اصلی درس فیض دیتا ہے۔

نہ صرف علماء اور عوام آپ سے اپنے دینی و دنیاوی معاملات میں فیض و رہنمائی حاصل کرتے تھے بلکہ اندرون اور بیرون ملک کی کئی اہم شخصیات بھی حاجی صاحب سے ملاقات کا فیض حاصل کر چکی ہیں جن میں میاں محمد نواز شریف، وزیراعظم پاکستان شوکت عزیز، نوابزادہ نصراللہ خان، جنرل حمید گل، پرویز الہی، شیخ رشید، شہباز شریف، جنرل راحیل شریف وغیرہ شامل ہیں

2014 اور 15 کے دنیا کے 500 بااثر ترین مسلمانوں کی فہرست میں حاجی صاحب کو آپ کی دینی خدمات کے پیش نظر دسویں نمبر کا درجہ دیا گیا۔

کافی عرصہ طویل علالت کے بعد آج 18 نومبر 2018 کو صبح صادق کے وقت رشد و ہدایت کا یہ چراغ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بجھ گیا۔ حاجی صاحب کی وفات پر زندگی کے تمام ششعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے غم اور دکھ کا اظہار کیا ہے۔

حاجی صاحب کی زندگی کے ان گنت مزہبی روحانی کراماتی پہلو ایسے بھی ہیں جن سے پردہ اٹھنا ابھی باقی ہے۔ دوران گفتگو تبلیغی ساتھیو سے حاجی صاحب کی زندگی کے ایسے ایسے حالات و واقیات سننے کو ملے جن سے روح ایمان سے سرشار ہوتی محسوس ہوئی۔ حاجی صاحب کی داعی صفات کی انتھک محنت و کاوش کی بدولت اس وقت دنیا میں کروڑوں لوگ اس محنت سے جڑ چکے ہیں اور ہزاروں اپنی ساری ساری زندگی اس کام کے لیے وقف کر چکے ہیں۔

یہ وہ نفوس قدسیہ ہیں جن کو یاد کر کے مجھ سا نہ چیز صرف یہی کہ سکتا ہے جو سر سید احمد خان نے مولانا قاسم نانوتوی کی وفات کے وقت کہا تھا"دنیا ایسوں پر تو بہت روئی ہے جن پر رونا حق تھا مگر ایسی روح پر رونا افضل ہے جس جیسا اب کوئی تاقیامت شاید ہی دیکھے"

اللّه سے دعا ہے کے اللّه حاجی صاحب کو اپنا خاص قرب عطا فرماۓ اور ہم کو حاجی صاحب کی بتائی ہوئی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرماۓ۔ آمین

اللہ ہم کو آسانیاں پیدا کرنے اورآسانیاں بانٹنے کا شرف عطا فرمائے۔ کہے فقیر رہے نام اللہ کا.
 

Muhammad Adil Khan Tanoli
About the Author: Muhammad Adil Khan Tanoli Read More Articles by Muhammad Adil Khan Tanoli: 8 Articles with 6668 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.