میرا زندگی میں پہلی بار شہر خموشاں جانا تب ہوا ،جب میری
عزیز از جان پھپھو زینت بیگم فوت ہوئیں تھیں، میں بوجھل دل سے قبرستان گئی
میں نے ان کی قبر پر فاتحہ پڑھی،میں نے ان چیونٹیوں کی قطاروں کو دیکھا جو
مٹی پر چل رہی تھیں، میں نے دیکھا حد نظر تک قبریں ہی قبریں تھیں ،ان سب
قبروں کے سائز مختلف تھے ،کچھ قبروں پر پھول دار درخت لگے ہوئے تھے، چند
قبروں پر گلاب اور موتیے کے پودے لگے ہوئے تھے، مجھے یاد ہے ایک قبر کے پاس
پانی کا مٹکہ اور مٹی کا پیالہ بھی پڑا تھا، بہت سی قبروں پر پھول دار
چادریں چڑھی ہوئی تھیں ،فضا اگر بتیوں اور پھولوں کی خوشبو سے بوجھل ،سوگوار
سی تھی ،ویسے تو شہر خموشان میں عجب تفاوت تھا ،مگر سب قبروں میں ایک ہی
قدر مشترک تھی وہ کتبے تھے ،ہر قبر پر ایک کتبہ نصب تھا، میں نے بے اختیار
ہی ان کتبوں کو با آواز بلند پڑھنا شروع کردیا۔ ان کتبوں میں کئی ان کہی
داستانیں پنہاں تھیں ، ،شہر خموشاں کی آبادی بڑی متفرق تھی ،یہاں چھوٹی
قبریں تھیں ، جن میں نومولود بچے بستے تھے ، یہاں جوان،مرد،عورت،
بچے،بوڑھے،ادھیڑ عمر، ہر جنس،ہر عمر کے لوگ موجود تھے۔میرا یہ پہلا تعارف
کتبے سے تھا ۔مجھے یاد ہے کہ میں نے بے شمار قبروں کے کتبے پڑھے ، کئی
کتبوں پر قرآنی آیات لکھیں تھیں، کئی پر کوئی المیہ شعر لکھا ہوا تھا، کچھ
پر کسی پیارے کے لئے دعا لکھی تھی۔ ۔ہر کتبہ ایک عہد کی کہانی بتاتا تھا،
کسی کے ادھورے خواب سناتا تھا۔
دیکھا جائے تو ہر کتبہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ بہت جلد ہم بھی اس شہر خموشاں
کے باسی ہونگے۔اس کے بعد میں کینیڈا آگئی، میری پھپھو کی تنہائی میری دادی
اور چچا نے وہاں کی سکونت اختیار کر کے دور کردی۔
آج مجھے میری بہن نے میرے والد کی قبر اور کتبے کی تصویر بھیجی، میرے پیارے
اباجی اس قبر میں مکین ہیں ۔میں نے بے اختیار ہی کتبہ پڑھا، کتبہ پر لکھا
تھا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ۔
شوکت اللہ ولد ذکا اللہ "
تاریخ پیدائش ۔
تاریخ وفات۔
مجھے لگا ہم سب کی زندگی کی شاید کہانی یہی ہے۔اللہ تعالی کے نام سے پہلا
سانس لیتے ہیں اور آخری سانس اللہ تعالی کی وحدانیت اور اس کے رسول صلی
اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار کرتے ہوئے ختم ہوجاتا ہے۔پھر خیال آیا کہ
نہیں یہ ہم پر اللہ تعالی کی نعمت خداوندی ہے کہ ہم مسلمان پیدا ہوئے اور
مسلمان ہی مرئے۔کتنے دنیا میں لوگ ہیں جو سچ سے روشناس ہوئے بغیر ہی دنیا
سے رخصت ہوجاتے ہیں ۔اس لمحے زہن میں فبائی الاء ربکما تکذبان آہا۔
ایک بات پر مجھے یقین ہے کہ شہر خموشاں کے مکین بہت اتحاد و اتفاق سے رہتے
ہیں ۔یہاں پر چلنے والی ہوائیں بھی بوجھل سی ہوتی ہیں ۔ایک دل کو چیرنے
والا سکوت ہوتا ہے۔ وقت کے ساکت ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ یہاں کوئی کپڑوں کا
برانڈ نہیں ہے ،یہاں کوئی مرلوں اور کنالوں کا حساب نہیں ہے۔یہاں پر کوئی
افسری گریڈ نہیں ہے، یہاں کوئی امارت یا غربت کا تصور نہیں ہے،یہاں پر ایسی
مساوات ہے کہ اس کو دیکھ کر عقل ششدر رہ جاتی ہے ،یہاں بس ایک ہی کسوٹی ہے
جس پر پرکھ ہوتی ہے اور وہ ہے اعمال کی کسوٹی ، یہاں اعمال ہیں اور مکین
قبر۔قبر کے اندر کا حال اللہ جانتا ہے یا مکین قبر۔
اباجی کی وفات کے بعد جب میں واپس آئی اور موسم گرما کی بارشیں شروع ہوئیں
تو برسات کی راتوں میں بیچ رات کے میں جاگ جاتی، میرے تصور میں اباجی کی
قبر اور برستا پانی آجاتا،اب یہ پہلی سردیاں ابا جی کی وفات کے بعد آئی ہیں
۔تو میں سردیوں کی ان ٹھنڈی راتوں میں اکثر بے چین ہو کر اٹھ بیٹھتی ہوں،
ایک صدا سی کانوں میں گونجتی ہے:
"منزہ بیٹے ! مجھے کمبل اڑا دو۔"
پھر ادراک ہوتا ہے کہ اب ابا جی جہاں کے مکین ہیں، وہاں انھیں کمبل کی نہیں
صرف میری دعاوں کی ضرورت ہے۔ شاید بیٹیوں کا خمیر اللہ تعالی محبت سے
گوندھتا ہے ۔
میں ماضی کا سفر کرتی ہوں تو مجھے اپنے ابا کا شفیق چہرہ ، میرے چچا جی کا
خلوص، میری پھپھو کی چاہت،میرے ماموں کی نازپرورری ،میری نانی اور دادی کی
شفقتیں،میری خالہ کے لاڈ سب آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔اب یہ سب لوگ شہر
خموشاں میں بستے ہیں،جہاں ہو کا عالم رہتا ہے۔اللہ تعالی ہم سب کو توفیق
عطا فرمائے کہ ہم اس مختصر عرصہ زندگی میں کوئی اچھا کام کر جائیں ۔
کاش اس زندگی کی ہماہمی میں ہم زندگی کی اصل عبارت کو پڑھ پائیں ۔
|