کچھ دنوں پہلے کی بات ہے۔ میں ایک ویب سائٹ پر امریکا کی
تاریخ میں ہونے والے ناقابلِ فراموش واقعات کا مطالعہ کر رہی تھی، جہاں
کتنے ہی عجیب وغریب واقعات پڑھتے ہوئے میری حیرت میں اضافہ ہوتا گیا۔ خاص
طور پر ایک واقعہ میرے لیے بڑا پُراسرار تھا۔ یہ واقعہ سولہویں صدی کے وسط
میں رونما ہوا، جب امریکی ریاست میسا چیوسیٹس کے شہر سیلم میں بیس افراد کو
ایک ساتھ پھانسی پر چڑھادیا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ جادو ٹونے کے زبردست
ماہر مانے جاتے تھے۔ لیکن یہ تو ان کا ذاتی فعل تھا، اس پر سزائے موت جیسا
انتہائی اقدام اٹھانا۔ سوال یہ ہے کہ ریاست نے ایسا کیوں کیا؟ دراصل اس شہر
میں پہلے ایک شخص جادو ٹونے کا ماہر بنا، پھر دوسرا، پھر تیسرا، یوں جادوگر
کے پاس لوگوں کا ہجوم بڑھتا گیا۔ کچھ جادو سیکھنے کے خواہش مند تھے تو کچھ
جادو کروانے آتے تھے۔ اب بات اس شہر تک محدود نہ رہی۔ دور دراز علاقوں سے
بھی لوگ جادوگر بننے کے لیے آنے لگے۔
ایک طرف جادوگروں کی تعداد میں اضافہ ہورہا تھا، تو دوسری طرف لوگوں کی
زبانوں پر سحر کے تذکرے تھے اور ہر ایک ذہن اسی خیال میں ڈوبا ہوا تھا کہ
وہ جادو کے گُر سیکھ لے۔ لوگ غیرارادی طور پر اس جادوئی دنیا کے اسیر بن کر
اپنی حقیقی ذمے داریوں سے دور ہوتے جارہے تھے۔ ابتدا میں حکومتی حلقے لوگوں
کی اس کیفیت کی وجہ سمجھنے سے قاصر تھے۔ معاملے کی تہہ تک اس وقت رسائی
حاصل ہوئی جب دوسرے شہروں، قصبوں اور دیہات سے لوگ بہت بڑی تعداد میں
میساچیوسیٹس کا رُخ کرنے لگے۔ تب حکومت کو اس معاملے کی سنگینی کا احساس
ہوا اور ریاست اپنی ذمے داری نبھانے کے لیے آگے آئی۔
حکومت اس فتنے کو جلد ازجلد ختم کرنا چاہتی تھی، سو جادو ٹونا کرنے کے
الزام میں بہت سے افراد کو حراست میں لے لیا گیا، ان پر مقدمہ چلایا گیا
اور جرم ثابت ہونے پر بیس جادوگروں کے گلے میں پھندے ڈال دیے گئے۔
اگر جادو سیکھنے سکھانے کا یہ سلسلہ محدود پیمانے پر جاری رہتا اور اس سے
سماجی اور معاشی زندگی متاثر نہ ہوتی تو حکومت کو اتنے سخت اقدام کی ضرورت
محسوس نہ ہوتی، لیکن بات ذاتی افعال کے دائرے سے نکل کر معاشرتی بگاڑ تک
جاپہنچی تھی، چناں چہ حکومت کو نہایت سختی کے ساتھ اس معاملے سے نمٹنا پڑا۔
آج اکیسیویں صدی میں بھی ہم ایک جادو کے اسیر ہیں۔ ہم سوشل ویب سائٹس کے
شہرِ طلسم میں جی رہے ہیں۔ سماجی ویب سائٹس ایک جادو ہیں اور ہم روزبہ روز
ان کے سحر میں جکڑے چلے جارہے ہیں اور غیرمحسوس طور پر ان کی ذہنی غلامی
میں مبتلا ہوچکے ہیں۔سوشل ویب سائٹس جہاں لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لائی
ہیں، وہیں یہ ایسی زمینیوں کی صورت اختیار کرگئی ہیں جن پر نفرتوں کے بیج
بوئے اور تعصب کی فصلیں اگائی جارہی ہیں۔ ظاہر ہے اس بوائی اور کاشت سے زہر
کی فصل ہی حاصل ہونی ہے۔
آنکھوں کو خیرہ کردینے والی روشنی میں پہلے پہل اپنا آپ اپنا نمایاں نظر
آنا کسی سحر سے کم نہیں ہوتا۔ اسی طرح جیسے پہلی بار کسی نوجوان کے ہاتھ
میں شناختی کارڈ آتا ہے اور اپنی پہچان کا احساس پورے جسم میں خوشی اور فخر
کی لہر دوڑادیتا ہے۔ یہ ویب سائٹس تو اس کیفیت سے کہیں زیادہ سحر انگیز
ہیں۔ اپنا نام، اپنا تعارف، اپنی تصویر، رتبہ اور ہر وہ قابل ذکر فعل جو ہم
نے سرانجام دیا ہو یا نہ دیا ہو اپنے نام کے ساتھ ان ویب سائٹس کی دیواروں
پر آویزاں کرکے ہم خوشی سے نہال ہوجاتے ہیں۔ یہ محاورہ اب پُرانا ہوگیا کہ
”نیکی کر دریا میں ڈال“ اب تو یوں ہے کہ کچھ بھی کر فیس بُک پر ضرور ڈال۔
حالیہ برسوں میں سائبر بلنگ پاکستان میں ایک سنگین مسلہ بن گئی ہے۔روزانہ
کی بنیاد پر ہزاروں لوگوں کو پاکستان میں سماجی میڈیا کے ذریعے بدنام کی
جاتا ہے۔منفی پیغامات یا تبصروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ایک سروے کے مطابق
پاکستان میں 75% خواتین مردوں کی طرف سماجی میڈیا پر حراساں کی جاتیں
ہیں۔جس کے لئے ان کی تصاویر کو جالی اکاونٹ کے ذریعے استعمال کیا جانا عام
ہے۔ایسی صورتحال میں خواتین کا خاموشی سے اپنا سماجی میڈیا کا اکاونٹ بند
کردینا مسلئے کا حل نہیں۔بلکہ قانونی مدد لے کر مجرم کو کیفِ کردار تک
پہچاناضروری ہے تاکہ مزید مجرمانہ ذہنوں کو پست کیا جاسکے۔حراساں کرنا،
بلیک میلنگ یا سوشل میڈیا پر رکیک حملے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے کے
مائنڈسیٹ اور نظام انصاف کم زور ہونے کی وجہ سے خواتین شکایت کرنے اور آواز
اٹھانے سے قاصر رہتی ہیں۔ چناں چہ یہاں یہ بات اہم ہے کہ کہ اگر پاکستان
میں اس حوالے سے قوانین موجود بھی ہیں تو کس حد تک ان پر عمل درآمد ہورہا
ہے۔متعلقہ ادارے اس حوالے سے کتنے محترک ہیں۔
میری دوست پر ایک دن انکشاف ہوا کہ فیس بک پر ان کی فیک آئی ڈی بنائی گئی
ہے، جس کے ذریعے غیراخلاقی تصاویر اور دیگر مواد شیئر کیا جارہا ہے۔ میری
یہ دوست یونی ورسٹی میں تدریس کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ سو خاتون ہی نہیں
استاد کی حیثیت سے بھی ان کی عزت اور وقار خطرے میں تھے۔ پریشان خاتون نے
متعلقہ ادارے سے رابطہ کیا، تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ یہ حرکت کرنے والا
کوئی اور نہیں ان کے ادارے سے تعلق رکھنے والا ایک شخص تھا جو ادارہ میری
خاتون دوست کچھ عرصہ پہلے چھوڑ چکی تھیں۔بہرحال معاملہ سامنے آنے کے بعد
باقاعدہ کاروائی کا ارادہ کیا گیا۔ جس کے بعدFIA سے رابطہ کیا۔ اب مسئلہ یہ
تھا کہ یہ کیس بنتا بھی ہے یا نہیں۔ سال بھر بعد ان کی محنت رنگ لائی، کیس
درج ہوا، وہ شخص پکڑا گیا اور اس کے خلاف کارروائی عمل میں آئی۔اور مقدمہ
پیکا PECAکے قانون کے تحت درج کیا گیا۔
میری دوست تو ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ایک معزز پیشے سے وابستہ خاتون
ہیں، انھوں نے بہت پریشانی کے ساتھ ہی سہی صورت حال کا سامنا کرلیا۔ لیکن
اگر کسی عام عورت کے ساتھ ایسا ہوتا ہے تو وہ کیا کرے گی؟ وہ کیسے سامنے
آکر اپنے مسئلے پر بات کرسکتی ہے؟ یہ صرف مفروضہ نہیں ایک تلخ حقیقت ہے۔
پاکستان میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھنے کے ساتھ خواتین کی
سیکیوریٹی کا مسئلہ ایک نئی صورت میں سامنے آتا ہے۔ خواتین کو ہراساں کرنے،
بلیک میل کرنے اور بدنام کرنے کے لیے اب سیاہ کردار لوگ موبائل فون،
انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہیں۔
مسلہ یہ ہے کہ ہم ایسی کسی کاروائی کو اب بھی جرم تصور ہی نہیں کرتے بلکہ
خاموش رہنا اس کا واحد حل گردانتے ہیں۔ پیکا PECA کے قانون کا نافذ ہونا
پاکستان میں خوش آئیند ہے لیکن اب بھی اس حوالے سے عوام میں شعور نا ہونے
کے برابر ہے۔اگر کسی کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ رونما ہو تو اسے فورا FIA میں
شکایت کرنی چاہیے۔پیکا کے قانون کی شق 18 کے مطابق آن لاین حراسمنٹ ثابت
ہونے کے بعد تین سال قید بامشقت یا ایک ملین روپے جرمانے کی سزا یا دونوں
سزائیں دی جاسکتی ہیں۔
ہمارے معاشرے کا چلن یہ ہے کہ اگر کسی لڑکی کو یونی ورسٹی جاتے ہوئے راستے
میں کوئی اوباش شخص تنگ کرے اور وہ اس بارے میں گھر پر بتائے تو اس کی
تعلیم چھڑوا کر گھر بٹھا دیا جاتا ہے، اگر کسی ملازمت پیشہ خاتون کو ایسی
صورت حال کا سامنا کرنا پڑے تو ہدایت ملتی ہے کہ نوکری چھوڑ کر گھر بیٹھ
جاؤ، اگر کسی عورت کو فون پر تنگ کیا جارہا ہے تو اس مسئلہ کا حل عورت کے
فون اٹھانے پر پابندی لگاکر نکالا جاتا ہے۔ موبائل، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا
کے حوالے سے بھی یہی مائنڈسیٹ اپنا کام کرتا ہے۔ مردوں کی طرح خواتین کو
بھی جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کا پورا حق ہے، لیکن اگر کسی خاتون کو
ہراساں یا پریشان کیا جائے تو اسے ٹیکنالوجی سے دور کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح
اگر کسی عورت یا لڑکی کو بلیک میل کیا جارہا ہو اور وہ یہ مسئلہ سامنے لائے
تو سب سے پہلے وہ مجرم قرار پاتی ہے۔ یہ فرض کرلیا جاتا ہے کہ اس نے کچھ
کیا ہوگا، اس کی غلطی ہوگی۔ ایسے میں وہ بہت سے لوگوں کے سامنے ذلت اور
شرمندگی سہنے کے بہ جائے ایک شخص کے ہاتھوں بلیک میل ہونے کو ترجیح دیتی
ہے۔ اگر کوئی خاتون ایسے کسی مسئلے کے بارے میں اپنے گھر والوں کو بتائے تو
اس پر اعتماد کیا جانا چاہے، اسے تسلی دینی اور اس کی مدد کرنی چاہیے، مگر
اس کے لیے مائنڈسیٹ بدلنے کی ضرورت ہے۔
سائبر کرائم ایکٹ جو کہ 2016 میں منظور ہوا جس کا مقصد سائبر کرمنلز کو
قانون کے کھٹرے میں لانا ہے۔ سابقہ مملکتی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالاجی
اینڈ ٹیلیکمینوکیشن انوشان رحمان اس حوالے سے لاتعداد زندگیان سوشل میڈیا
کے غلط استعمال کے ذریعے برباد ہونے کا ذکر کر چکی ہے۔ قانون پاس ہوئے ہونے
کو 3 سال مکمل ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک سائبر کرائم ایکٹ پرعملدرآمد کے
متعلق آگا ہی کے حوالے کوئی مہم نہیں چلائی گئی ہے۔لیکن اس حوالے سے ڈیجیٹل
رائیٹس فاؤنڈیشن (ڈی آر ایف) سائبر کرائم ایکٹ کے متعلق آگاہی مہم چلا رہی
ہے۔
ڈیجیٹل رائیٹس فاؤنڈیشن نے سائبر کرائم کے متعلق 2016 میں ملک کے 17 بڑی
یونیورسٹیز میں آن لائن حراسمینٹ کے متعلق ریسرچ کی جس کے نتائج ذیل ہیں۔
34٪ عورتون نے آن لائن حراس کیے جانے کا اعتراف کیا۔
55٪ عورتون نے جواب دیا وہ ایسی عورتوں کو جانتی ہیں جن کو حراس کیا گیا
ہے۔
47 ٪ ایف آئی ای کو شکایات کی اور ایجنسی کے اقدام سے مطمئن ہے اور مدد بھی
لی ہے۔
53٪ ایف آئی ای کے رپورٹنگ پروسیجر کو زیاہ بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ
72 ٪ پڑھی لکھی عورتوں کہ پتا ہی نہیں ہے کی حراسمینٹ روکنے کا ایسا کوئی
قانون موجود ہے۔
اس لئے آگاہی کی سخت ضرورت ہے۔یہ مسئلہ صرف عام خواتین تک محدود نہیں۔
ہمارے یہاں ہوتا یہ ہے کہ اگر آپ کو کسی عورت سے اختلاف ہے، اس کی کوئی بات
پسند نہیں،اس سے بدلہ لینا ہے تو اس کی عزت اور وقار کو نشانہ بنایا جاتا
ہے۔ پروفیشنل لکھنے والی خواتین کو اس صورت حال کا سامنا روز کرنا پڑتا ہے۔
اگر وہ آن لائن اپنی بات کرے، اپنا موقف پیش کرے، کسی سے اختلاف کرے، تو
اسے چپ کرانے کے لیے رکیک الفاظ کا استعمال، ذاتی حملے اور کردار کشی کے
گندے ہتھیار استعمال کیے جاتے ہیں۔ ہمیں یہ ماننے کی ضرورت ہے کہ عورت کا
احترام لازم ہے اور سوشل میڈیا کا استعمال اس کا بھی حق ہے۔
جہاں تک خواتین کا تعلق ہے تو انھیں خود بھی محتاط طرز عمل اپنانے اور
ٹیکنالوجی کی زیادہ سے زیادہ سمجھ بوجھ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم مختلف
رشتوں میں بندھے ہوتے ہیں، نہایت قابل اعتماد رشتوں کے ساتھ دوست، منگیتر
اور کولیگز کے رشتے بھی ہمارے لیے اہم ہوتے ہیں، لیکن ان رشتوں کو برتتے
ہوئے حدود قائم اور اس بات کا پوری طرح خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ کس پر کس
حد تک اعتماد کیا جائے۔
خواتین کو کچھ باتوں کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے،اپنے اینڈرائڈ فون کی
لوکیشن ہمیشہ آف رکھیں تاکہ کسی کو پتا نہ چلے کہ کس وقت آپ کس مقام پر
ہیں، موبائل فون پر پاس ورڈ ڈالیں تاکہ اگر وہ کسی کے ہاتھ لگ جائے تو وہ
اسے غلط طور پر استعمال نہ کرسکے اور اس میں سے معلومات حاصل نہ کرسکے، اسی
طرح اپنے ای میل ایڈریس، سوشل میڈیا سائٹ وغیرہ کا پاس ورڈ کسی کو نہ دیں،
اپنا پاس ورڈ محفوظ رکھنا آپ کا بنیادی حق ہے، کسی کو حق نہیں کہ وہ آپ سے
آپ کا پاس ورڈ مانگے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم ڈیجیٹل عہد میں داخل ہوچکے ہیں، ہمیں ڈیجیٹل
ٹیکنالوجی کے استعمال اور اس کے تقاضوں کو سمجھنا ہوگا۔ اس سے دور رہ کر یا
کسی کو دور رکھ کر ہم مسئلے حل نہیں کر سکتے الجھنیں بڑھا ضرور سکتے ہیں۔
ان ویب سائٹس کو وجود میں آئے ہوئے تقریباً دس بارہ سال کا عرصہ گزرا
ہے۔اتنے کم وقت کے دوران پاکستان میں سوشل ویب سائٹس کا بخار پھیلنے کی وجہ
انتخابات تھے۔ انتخابات کے دوران جہاں گلیاں، سڑکیں اور میدان انتخابی
سرگرمیوں کا مرکز بنے، وہیں سیاسی جماعتوں اور ان کے حامیوں نے اپنی اپنی
جماعت کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا خوب خوب
استعمال کیا۔ ایسے میں سوشل ویب سائٹس پر اپنے حق میں دلائل سے زیادہ
مخالفین کے خلاف پرپیگنڈے اور الزامات کا وہ طوفانِ بدتمیزی مچا کہ دیکھنے
اور پڑھنے والی زبان توبہ توبہ کرنے لگی اور ہاتھ کانوں کو چھونے لگے۔
پگڑیاں اچھالنے اور گریبانوں پر ہاتھ ڈالنے کا وہ سلسلہ تھا کہ کوئی گناہ
گار بچا نہ کسی زاہد کی عزت محفوظ رہی۔ کسی کی داڑھی اور دستار کو نشانہ
بنایا گیا تو کسی کی لبرل سوچ پر تیر برسائے گئے۔ کمپیوٹر ایڈیٹنگ کے ذریعے
مخالف سیاست دانوں کی ایسی ایسی بیہودہ اور مضحکہ خیز تصاویر بناکر پوسٹ کی
گئیں کہ خدا کی پناہ۔ جاننے والے سچ اور جھوٹ کا فرق جانتے ہیں، لیکن بعض
تصاویر بناتے ہوئے ایسی صفائی دکھائی گئی کہ بالغ اور باشعور ذہن بھی دھوکا
کھاگئے۔الیکشن ہوگئے، نتائج آگئے، جیتنے والے خوشیاں اور ہارنے والے غم
مناکر اپنی اپنی زندگی میں مصروف ہوگئے، قصہ ختم ہوا مگر سوشل ویب سائٹس پر
اٹھنے والے اس طوفانِ بدتمیزی کی تلخ یادیں اب بھی محفوظ ہیں، حساس دلوں
میں بھی اور ان سائٹس کے پیجز پر بھی۔
انٹرنیٹ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو ہمیں ترقی کی راہوں پر دنیا کے ساتھ چلنے
کا ہُنر سکھاتی اور ہمارے دلوں میں اس سفر کی امُنگ جگاتی ہے، لیکن ہم نے
اس ٹیکنالوجی کو اخلاقی پستی کے مظاہروں کا سامان بنادیا ہے۔ طنز، طعنے،
الزام تراشی، ہتک آمیز رویہ، یہاں تک کہ گالیاں بھی سوشل ویب سائٹس پر
ہمارے اخلاقی بحران کی تصویر پیش کرتی ہیں۔ اختلاف رائے کا حق ہر ایک کو
حاصل ہے، کسی نظریے، رائے اور شخصیت پر تنقید کرنا بھی کسی طور غلط نہیں،
تاہم یہ سب تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے ہونا چاہیے، لیکن میں نے بہ ظاہر
بڑے معقول اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو بھی اختلاف کا اظہار کرتے ہوئے
آپے سے باہر ہوتے دیکھا ہے، جو کسی سیاسی یا نظری بحث کے دوران مقابل پر
ذاتی حملے کرنے لگتے اور اس کی کردار کشی پر اُتر آتے ہیں۔ یہ سب سوشل ویب
سائٹس پر روز ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے سحر میں گرفتار ہم لوگ ان کے اثرات بڑی تیزی
سے قبول کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا میڈیا ہے جس کے ذریعے مختلف الخیال لوگوں
کو ایک دوسرے سے براہ راست مکالمے کا موقع ملتا ہے اور ہم دوسروں کی رائے،
سوچ اور نظریات جان پاتے ہیں۔ ایسا ہو بھی رہا ہے، لیکن اس کے ساتھ نفرت سے
بھری، اشتعال انگیز پوسٹس، شیئرنگ اور دوسروں کی تحقیر اور تذلیل پر مبنی
کمنٹس نفرتوں میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ یوں رابطوں کا یہ ذریعہ ہمارے
کسی بھی قسم کا نظری، فکری، مذہبی اور سیاسی اختلاف رکھنے والوں کو ایک
دوسرے سے دور کر رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سوشل ویب سائٹس کا نام پانے
والی ان جادوگرنیوں کو ہم پھانسی دے دیں۔ ایسا کرنا آگاہی کے ان دریچوں کو
بند کردینے کے مترادف ہوگا جن سے ہمارے سماج کو آگاہی کی روشنی میسر آرہی
ہے۔ درحقیقت یہ سائٹس دوسروں کی بات سمجھنے اور اپنی بات سمجھانے کا ایک
نہایت موثر ذریعہ ہیں۔ ان کے ذریعے وہ خبریں اور اطلاعات بھی عام آدمی تک
پہنچتی ہیں جو بہ وجوہ مین اسٹریم میڈیا پر نہیں آپاتیں۔ ان کی بہ دولت ان
سے وابستہ ہر شخص اپنی رائے، خیالات اور صلاحیتوں کا اظہار کرسکتا ہے۔ ایسے
موثر اور مفید ذریعے کو نفرت واشتعال پھیلانے اور اخلاق سوز زبان اور
تصاویر کے ذریعے دل کی بھڑاس نکالنے کا وسیلہ بنانا بھیانک جرم ہے۔ یوں تو
یہ ان سائٹس کے منتظمین کا بھی فرض ہے کہ وہ اشتعال اور نفرت پر مبنی مواد
اپنی سائٹس پر نہ رہنے دیں، اور بعض معاملات میں ایسا ہوا بھی ہے، لیکن اس
میڈیا سے وابستہ ہر شخص کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ خود ایسا مواد پوسٹ اور
شیئر کرے، نہ اس قسم کے دل آزاری پر مبنی کمنٹس کرے۔ اس طرح کا مواد ویب
سائٹس سے ہٹوانے کے لیے ان کا اپنا اپنا طریقہ کار بھی موجود ہے، جس پر عمل
کرکے یہ فریضہ ادا کیا جاسکتا ہے۔ ہم نے اپنی یہ ذمے داری نہ نبھائی تو
رابطوں کی یہ سائٹس رابطے توڑنے کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ |