عظمی ظفر
رات دھیرے دھیرے اپنی چادر پھیلا رہی تھی کالی سیاہ چادر جس میں سب کچھ چھپ
رہا تھا سب کچھ۔یہاں تک کہ اس کے گناہ بھی، وہ کس گناہ کو یاد کرتی،کسے
بھولتی کس گناہ کی معافی پہلے مانگتی اسے سمجھ نہیں آرہی تھی۔گناہ کوئی ایک
تھا؟گناہوں کا تو انبار تھا،تعفن تھا،ڈھیر تھا۔’’حولہ!آجاؤ کنسرٹ شروع ہونے
والا ہے‘‘ ،زوہا نے آواز لگانا شروع کردی۔’’جسٹ کمنگ، تم انجوائے کرو میں
آتی ہوں‘‘، لپ اسٹک کا ایک کوٹ اور گہرا کرتی حولہ نے اپنے خوبصورت ہونٹوں
کو مزید نمایاں کیا جدید تراش خراش کے لباس نے اس کی حسین سراپے کو گویا
ہائی لائٹ کردیا تھا ۔ہائی ہیل پہن کر ٹھک ٹھک کرتی لاونج میں آگئی جہاں
زوہا ٹی وی پر ایک مشہور سنگر کے گانے کی پرفارمینس دیکھ رہی تھی۔
ایک ہاتھ سے ٹی وی کے ریمورٹ کو ہلا ہلا کر گلوکار کو داد دینے والی زوہا
نے جب حولہ کو دیکھا تو سب بھول گئی۔ ’’تم کہاں جا رہی ہو حولہ اور اتنی
ڈارک لپ اسٹک ؟ امی نے دیکھ لیا نا،تو شامت ہے تمہاری‘‘،زوہا نے گھسا پٹا
ڈراوا دیا۔ مجھے!جب کہ اسے پتہ تھا کہ یہ میں تھی ’’حولہ فاروق ‘‘جو دل
چاہتا وہ کرتی جس کو کسی سے ڈر نہیں لگتا تھا۔چاہے ابو کی عزت پہ حرف آئے
یا گھر میں طوفان کھڑا ہو میری مرضی سب سے مقدم تھی کیونکہ میں بچپن سے بہت
لاڈلی تھی ضدی، اکھڑ، مزاج میں تیز منہ، پھٹ الگ۔ مگر خوبصورتی کی آگے سب
دب جاتے تھے یوں حولہ تعریفوں کے جملے سن سن کر بڑی ہوتی گئی۔سب کے الگ الگ
جملے تھے جو اس کی سماعتوں سے گزتے تھے۔
کوئی کہتا ،’’حولہ تو باربی ڈول ہے،حولہ پڑھائی میں سب سے آگے ہے،حولہ پر
ہر رنگ جچتا ہے‘‘۔یوں حولہ نے اپنا دماغ ساتوں آسمان پر رکھ لیا معمولی شکل
صورت اور کم عقل بھائی بہن کسی گنتی میں نہیں آتے تھے۔بچپنا جیسے ہی لڑکپن
میں کودا ،بلا کا غرور حولہ کے مزاج میں سما گیا۔
حولہ نے جوانی میں قدم کیا رکھاشرم وحیاء کی چادر ایک کونے میں ڈال دی،
آزادی کا نا جائز استعمال حولہ نے ایسے کرنا شروع کیا کہ سب نے خاموش رہنے
میں عافیت جانی مگر حولہ تھی کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ رات گہری
کالی ہو کر بھی پتا نہیں کیوں اس جگہ مکمل طور پر روشن تھی، جگمگا رہی تھی۔
اس کا دل چاہا کہ اسے اس جگہ کوئی نہ دیکھے بس جس کو حال دل سنانے آئی ہے
اس کی ایک بار نظر کرم ہوجائے ورنہ اسے ابھی تک سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ
اس جگہ کیسے آسکتی ہے۔ ایسی جگہ جہاں کوئی اپنی مرضی سے نہیں آتا۔
حولہ نے گھر سے قدم کیا نکالا خواہشوں کے جنگل میں ایک پنچھی بن کر اڑنے
لگی۔جہاں خطرہ ہی خطرہ تھا مگر اسے اس کہ پرواہ کب تھی ان خواہشوں کو پورا
کرنے کے لیے اس نے سب کا دل دکھایا۔ماں ہاتھ پہ ہاتھ مل کر سوچتی رہ جاتی
لاڈ پیار کا غلط استعمال کیونکر کیا حولہ نے۔تایا کے گھر سے پہلا رشتہ کیا
آیا اس کے لیے حولہ نے گھر میں طوفان کھڑا کردیا کہ اس کی اجازت کے بغیر
کوئی رشتہ کیوں لے کر آیا۔معمولی شکل والے محب کو اس نے فورا انکار کردیا
’’میں اس داڑھی والے سے شادی نہیں کروں گی اس کو کیا لگتا ہے وہ میرے قابل
ہے جو آگیا منہ اٹھا کر‘‘،محب کو حولہ کی اونچی آواز کمرے تک بآسانی سنائی
دی۔
اس نے داڑھی پر ہاتھ پھیرا اور فخر سے مسکرا دیا یہ تو سنت ہے، نبی سے نسبت
ہے اور چپ چاپ گھر سے باہر نکل گیا۔ آج سب کو ڈگری ملنے والی تھی وہ آئی آر
کے میدان میں سب سے آگے نکلنے کے لیے اس ڈگری کو لینے آئی تھی۔جب اس نے شہر
کے ایک رئیس باپ کے اکلوتے بیٹے فواد حسن کا دوستی کے لیے بڑھتا ہاتھ ایک
بار پھر پوری کلاس کے سامنے بڑی نخوت سے جھٹک دیا۔ ایسا فواد حسن نے کب
دیکھا تھا بدلے میں اس نے پارکنگ سے نکلتی گاڑی پر حولہ کو تحفے کے طور پر
تیزاب کے چھنٹے دیے جس نے اس کے حسین چہرے کو جھلسا دیا تھاجہاں اس کی چیخ
وپکار سن کر سب پیچھے ہٹے تھے وہاں ایم بی اے ڈپارٹمنٹ سے مدد کے لیے محب
ہی آگے بڑھا تھا۔
خوبصورت حولہ کا ایک رخ داغ دار ہوگیا تھا اتنا کہ جب اس نے اسپتال سے آکر
اپنا چہرہ آئینے میں دیکھا تو آئینہ توڑ ڈالا اور پھر آئینہ نہیں دیکھا۔
رات کی تنہائی میں تنہا ہوکر بھی وہاں کوئی تنہا نہیں تھا، عجیب گہما گہمی
تھی سب مصروف تھے۔ سب کو ضروری کام تھا،مگر وہ چاہتی تھی کہ سب سے پہلے وہ
آگے بڑھ جائے اور اس کالی چادر میں چھپ جائے اس دیوار پر لگ جائے اور خود
کو مل مل کر صاف کر ڈالے۔ کئی مہینے گزے حولہ کا چہرہ تو بگڑ کر ٹھیک ہوگیا
مگر اس کا دل بدل گیا کیونکہ اس حادثے کے بعد اس نے اپنا کریہہ چہرہ ہی
نہیں دیکھا تھا بلکہ اپنا مکروہ دل بھی دیکھ لیا تھا۔
اوپر کمرے سے آتی محب کی تلاوت ہر روز اسے بدل رہی تھی ۔وہ رات معافی
مانگتی، صبح کا انتظار کرتی اور جب آیت،آیت اس کے دل پر اترنے لگی تب اس کا
دل تڑپنے لگا،بدلنے لگا۔ایک شام تایا جان نے اسے محبت سے محب کے لیے پھر
مانگ لیا اور حولہ چند دنوں بعد حولہ محب بن گئی۔ داغ دار حولہ ایک وجیہہ
چہرے والے محب کے ساتھ جچچتی نہیں تھی مگر محب نے اسے یوں تھاما کہ وہ سچ
مچ موم کی گڑیا ہو۔ محب نے نکاح کی محبت کا وہ ثمر دکھایا جو پہلے حولہ نے
نہیں دیکھا تھا یہ محبت دل سے تھی جو اﷲ نے ڈالی تھی صرف چہرے کی محبت نہیں
تھی محب اﷲ کے لیے اس سے محبت کرتا تھا۔
وہ اس دیوار کے بالکل قریب تھی اتنی قریب کہ اسے ہاتھ لگا کر چھو رہی تھی۔
وہ حیران تھی کہ وہ یہاں تک کیسے پہنچی وہ خود نہیں آئی تھی۔ اس لگا کہ کسی
نے دھکا دے کر یہاں تک پہنچا دیا ،وہ ورطہ حیرت تھی ،شرمسار تھی، گناہ گار
تھی وہ پہلے سسکی پھر رونے لگی پھر اس کی آنکھیں زارو قطار برسنے لگیں۔ مگر
یہاں سب آئے ہی اسی لیے تھے اپنے ہی اشکوں سے دھلنے آئے تھے یہاں سب ہی رو
رہے تھے اس کا دل چاہا کہ وہ بھی اس دیوار میں لگ جائے اور مل مل کر اپنے
گناہوں کو صاف کرلے دھو لے،بیت اﷲ کا جلال اس پر ہیبت طاری کررہا تھا اﷲ کی
کبریائی کے آگے سب جھکے تھے وہ بھی جھک گئی ماضی آہستہ آہستہ دھندلا ہوکر
اس سے دور جارہا تھا منظر شفاف ہوگیا تھا۔
حولہ نے حرم کے ٹھنڈے فرش پر،پرسکون نماز ادا کی اس کے سامنے خانہ کعبہ
اپنی پوری حرمت کے ساتھ موجود تھا اندھیرے میں ڈوبی کائنات اور وہ ایک تھے
مگر ان کا رب روشن دلیل تھا اس کے نور نے حولہ کے دل کو بھی روشن کردیا تھا
حولہ نے سر سجدے میں رکھ دیا ۔کتنی دیر سجدے میں گزری تھی کہ اس نے اپنے
برابر میں محب کو بیٹھے دیکھا۔وہ بھی دعا مانگ رہا تھا ۔آنسو اس کے چہرے کو
بھگو کر اس کی داڑھی میں جذب ہورہے تھے۔ حولہ نے اس وجیہہ چہرے کے آنسؤوں
کو دیکھا جو اسے موتی سے کم نہ لگے۔ اس نے جلدی سے ایک موتی اپنی ہتھیلی پر
رکھ لیا۔محب کی تلاوت متواتر آرہی تھی حولہ نے ایک بار ایسے ہمسفر کے ملنے
کا سجدہ شکر ادا کیا۔رات رفتہ رفتہ گز رہی تھی اندھیرا چھٹ رہا تھا۔
|