فیکٹری آفس میں بیٹھا Chemical Instruments Sigma
Company Canada کی ایک انسٹرومنٹس ڈسکرپشن بُک پڑھ رہا تھا جس میں تمام
کیمیکل پراسس اور لیب میں استعمال ہونے والے آلات کے بارے معلومات بمع
تصاویر درج تھی۔ جیساکہ آلات کا استعمال ،مٹیریل ،رینج،کیلیبرشن ،ایکوریسی
اورپری کاشن اِن شارٹ مکمل انفارمیشن جو بھی ضروری تھی ۔ابھی میں اُس کتاب
کی ورق گرادنی کر رہاتھا ایک نیم پڑھا ورکر کسی کام سے آیا لیکن مجھے مصروف
دیکھ کے ڈسٹرب نہ کیا اور وہ بھی آلات کی تصویروں کو بڑے انہماک سے دیکھنے
لگا ۔ دیکھتے دیکھتے ایک دم بُڑبڑیا : " یہ انگریز بھی عجیب سے لوگ ہیں پتہ
نہیں کیا کیا اور کیسی کیسی چیزیں بنا رہے ہیں " اور ساتھ ہی مجھ پہ ایک
سوال بھی داغ دیا : " مظہر صاحب ! یہ چیزیں پاکستان میں نہیں بنتی یا ہم
پاکستانی بنا نہیں سکتے ۔۔؟ مَیں نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا : نہیں عمر!
ہم صرف اینٹوں کا چورہ ملی مرچ پاؤڈر بنا سکتے ہیں۔ہم صرف ہیئر ریمونگ
پاؤڈر ملا زہریلا دودھ بنا سکتے ہیں۔ہم صرف گدھوں اور کتوں کے گوشت سے لذیذ
کھانے بنا سکتے ہیں ۔ہم صرف مردہ جانوروں کی انتڑیوں سے گھی بنا سکتے ہیں ۔ہم
صرف سوڈیم سکرائیڈ ( سکرین ) ملا مشروب اور مٹھائیاں بنا سکتے ہیں ۔ ہم صرف
قربانی کے بکروں کے دانت توڑ کر دوندا بنا سکتے ہیں ۔ہم صرف قربانی کے قریب
جانوروں کا انجیکش لگا کر پُھلا کے موٹا بنا سکتے ہیں۔ ہم صرف گلے سڑے پھل
فروخت کر کے لوگوں کو الّو بنا سکتے ہیں۔ہم صرف جعلی ادویات بنا سکتے ہیں۔
ہم صرف ہسپتال کے بیماری زدہ کچرے سے کھانے پینے کا سامان بنا سکتے ہیں ۔ہم
صرف ایسٹرز(کیمیکلز)سے آم اور سیب کا خالص جوس بنا سکتے ہیں۔ہم صرف ریت سے
بھری ہوئی وزنی لوہے کی چارپائیاں بنا سکتے ہیں۔ہم صرف آٹے سے بنا ہوا خالص
سوہن حلوہ بنا سکتے ہیں۔ہم عورتوں کو عزت دینے کی بجائے کاروبار کے لیے شو
پیس بنا سکتے ہیں۔ہم صرف مسجد اور قبرستان کے تالے توڑنے اور پمپ اتارنے کے
منصوبے بنا سکتے ہیں۔ہم صرف جعلی نوٹ جعلی ڈگریاں اور جعلی کاغذات بنا سکتے
ہیں۔ ہم صرف عدالتوں میں قرآن پہ جھوٹی گواہیاں دینے والے گواہ بنا سکتے
ہیں ۔ہم صرف قرضوں اور بے روزگاری کے ریکارڈ بنا سکتے ہیں ۔ہم صرف نااہل
اور کرپٹ لوگوں کو حکمران بنا سکتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی رینکنگ میں
بھارت کے بیس اور بنگلا دیش کا ایک ہسپتال ٹاپ پانچ سو ہسپتال میں آتا ہے
اور پاکستان کے پمز ہسپتال نام پانچ ہزار نو سو گیارہ نمبر آتا ہے جو
پاکستان کا نمبر ۱ ہسپتال ہے عالمی سروے کے مطابق دنیا کی ٹاپ پانچ سو
یونیورسٹیوں میں بھی پاکستان کی ایک بھی یونیورسٹی کا نام نہیں اور اِس کے
باوجود بھی ہم پلیاں اور سڑکیں بنا سکتے ہیں۔ہم صرف چوروں کو سادھ اور
سادھوں کو چور بنا سکتے ہیں۔ہم یونیورسٹیوں سے بڑے گورنر اور وزیراعظم ہاوس
بنا سکتے ہیں۔ہم صرف کرپشن اور حرام خوری کے عالمی ریکارڈ بنا سکتے ہیں۔ہم
صرف جعلی ڈگری والوں کو وزیر ِ تعلیم ،بدمعاشوں کو وزیر ِقانون اور چوروں
کو وزیر ِ خزانہ بنا سکتے ہیں۔ہمارے تعلیمی ادارے موجد وں نہیں صرف کلرکس
بنا سکتے ہیں۔ تو یہ تھیں ہماری ایجادات جن سے ہم اور ہماری قوم فخراور
استفادہ کر رہی ہے ۔یہاں ہر شخص ایک دوسرے کو Slow Poision کا انجیکشن
انجیکٹ کر رہا ہے ۔بے غیرتی اور ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ کسی میں بھی رتی
برابر ندامت کاعنصر نہیں۔خیر چھوڑیں کچھ ماتم ایسے ہوتے ہیں جن سے نہ تو
آوازیں اٹھتی ہیں نہ جسم لال ہو تا ہے اور نہ ہی ثواب ہوتا ہے لیکن وہ اندر
سے اعضا کو ہلا دیتے ہیں میرا ماتم بھی کچھ اسی قسم کاہے ۔
ماتم ِ رئیگاں کے بعد ایک آدھ ہلکی پھلکی تجویز۔ یہ قومی المیہ ہے کہ ہمارا
دماغ رائٹ وے میں کام ہی نہیں کرتا ہم جب تک کچلے نہ جائیں تب تک ایکشن ہی
نہیں لیتے۔ مرض جب تک لاعلاج نہ ہو جائے تب تک کسی سپیشلسٹ ڈاکٹر کو چیک ہی
نہیں کروانا ۔آج پاکستان میں پینے والے صاف پانی کا بہت بڑا مسئلہ ہے اور
ہماری سابقہ گورنمنٹ جس نے گڈ گورننس کا بڑاڈھول پیٹا لیکن کرپشن کے ریکارڈ
بنانے کے سوا کچھ نہ کیا۔ صاف پانی کے ایشو کو حل نہیں کیا گیا بس ڈنگ ٹپاؤ
پالیسیاں بنائیں کیونکہ ہم نے ہمیشہ Cause کی بجائے Effect کو کنٹرول کرنے
کی ناکام کوشش کی ہے ۔ایفیکٹ کو کنٹرول کرنے کے لیے اربوں روپے تو فلٹریشن
پلانٹس پہ لگا دیے لیکن جس وجہ سے زیر زمین پانی خراب ہو رہا ہے اُس کاز کے
بارے کسی نے سوچا ہی نہیں۔اگر ہم زیر زمین پانی کو Contaminate ہونے بچا
لیں تو ہمیں پلانٹس لگانے کی ضرورت ہی نہ پیش آئے جس سے اربوں روپے کا ٹیکہ
سرکاری خزانے لگنے کے ساتھ یرقان جیسی مہلک امراض سے بھی بچا جا سکتاہے۔اِس
کا بہتریں حل یہی ہے کہ اپنی عوام کو اس پولیوشن کے بارے ایجوکیٹ کی جائے
کہ وہ گندگی کو پانی میں نہ پھینکیں اور پلاسٹک جو ڈی کمپوز نہیں ہوتی اس
کا کم سے کم استعمال کریں۔ فیکٹریوں کے ویسٹ واٹر پلانٹس کو لازمی انسٹال
کروائیں اور اُن کا پراپر چیک اینڈ بیلنس ہونا چاہیے تاکہ کسی فیکٹری کا
ویسٹ واٹر اَن ٹریٹڈ تو نہیں جو زیر زمین پانی کو آلودہ نہ کرے ۔
اِسی طرح پاکستان کامحکمہ انٹی کرپشن اور نیب ہے ۔انٹی کرپشن کا ادارہ
کرپشن کے کاز کو ہینڈل کرتی ہے جبکہ نیب ایفیکٹ کو دیکھتے ہیں تو کیا ہم نے
کاز کو چھوڑکے ایفیکٹ کو دیکھنے کا وطیرہ بنا لیا ہے ۔؟ اگر ہمارا دارہ
انٹی کرپشن کو فل فعال کیا جائے تو ستر فیصد تو کرپشن شروعات میں پکڑی جائے
اور کام اربوں کھربوں تک نہ پہنچے لیکن جہاں انٹی کرپشن کا محکمہ ہی کرپشن
کا گڑھ ہو تووہاں دودھ کی رکھوالی پہ بلّا معمور و الی کہاوت صادق آتی ہے ۔اب
نئی حکومت کرپشن کو لے کے کافی سیریس ہے تو حکومت کو چاہیے کہ اِس ناسور کو
اگر جڑ سے ختم کرنا ہے تو پہلے انٹی کرپشن کے ادارے کی خامیاں دور کر کے
اسے فعال کر یں اور پھر بلاتفریق آپریشن کیا جائے۔انٹی کرپشن کے بعد نیب سے
چھانٹی کروائی جائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا ۔معذرت اوردکھ کے ساتھ ہم جوتوں
سے کام کرنے والی قوم ہیں اس کا ثبوت یہ ہے کہ ناجائز تجاوزات کا آپریشن
شروع لاہور میں ہوا ہے تو قابض لوگوں نے اپنے غیر قانونی کھوکھے اور اڈے
خانیوال میں اٹھا کے اپنی دوکانیں لے لیں ہیں۔احتساب ہوناچاہیے اور بلا
تفریق ہونا چاہیے اور ہر سطح پر ہونا چاہیے۔ حکومت اور اداروں کو کسی بھی
جگے سے ڈرنا نہیں چاہیے اور اِس بلا تفریق احتساب پہ وزیراعظم عمران خان کے
لیے مجروح سلطان پوری ؔکا ایک شعر پیش ِ خدمت ہے ۔۔
دیکھ زنداں سے پرے رنگ چمن جوش بہار رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ
دیکھ
|