غیرت کے نام پرقتل اور زیادتی کے بڑھتے واقعات

وطن عزیز پاکستان میں غیرت کے نام پرقتل اور زیادتی کے بڑھتے واقعات پر مشتمل حالیہ رپورٹ نے جہاں کئی سوالوں کو جنم دیا ہے وہیں ہم غیرت کے نام پر قتل کے حوالہ سے جون 2014ء میں اسلامی نظریاتی کونسل اور اس سے قبل مذہبی جماعتوں کی ایک تنظیم سنی اتحاد کونسل کے فتوی کو بھی آج کے کالم کا موضوع بنایاہے سانچ کے قارئین کرام! وزارت داخلہ اور نیشنل پولیس بیورو کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گزشتہ پانچ سالوں (جون 2014ء تا جون ،2018ء ) میں ملک میں غیرت کے نام پر قتل کئے جانے والوں کی کل تعداد 1548 ہے، ونی کے 45 واقعات درج ہوئے جبکہ 5416 دیگر ظالمانہ جرائم کی رپورٹ درج ہوئی، گزشتہ 5 سالوں کے دوران خواتین اور لڑکیوں سے زیادتی، اجتماعی زیادتی کے 14003 مقدمات درج کئے گئے وزارت داخلہ اور نیشنل پولیس بیورو کی رپورٹ میں دئیے گئے اعداد و شمار کے مطابق سال 2014ء میں کاروکاری کے 326، 2015ء میں 320، 2016ء میں 355،2017ء میں 309 جبکہ جون 2018ء تک 238 مقدمات درج ہوئے، اس طرح ان کی کل تعداد 1548 بنتی ہے۔ 2014ء میں ونی کے 10، 2015ء میں 5، 2016ء میں 9،2017ء میں 15 جبکہ جون 2018ء میں 6 کیسز رپورٹ ہوئے جس کی کل تعداد 45 بنتی ہے۔ 2014ء میں قتل کے 1109، 2015ء میں 836، 2016ء میں 1320، 2017ء میں 1266 جبکہ جون 2018ء تک 781 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن کی کل تعداد 5412 بنتی ہے اس طرح 2014ء میں تیزاب گردی کے 18،2015ء میں15، 2016ء میں 31، 2017ء میں 18 جبکہ جون 2018تک 17واقعات ہوئے جن کی کل تعداد 99بنتی ہے۔2014میں تحویلی جنسی تشدد کا ایک، 2015ء میں ایک، 2016ء میں 3 واقعات رپورٹ ہوئے جن کی کل تعداد 5 بنتی ہے۔ اسی طرح ملک بھر میں2014ء میں زیادتی، اجتماعی زیادتی کے 2739، 2015ء میں 2534، 2016ء میں 3330، 2017ء میں 3495 جبکہ جون 2018ء تک 1905 واقعات ہوئے جن کی کل تعداد 14003 بنتی ہے وزارت داخلہ اور نیشنل پولیس بیورو کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں گزشتہ پانچ سالوں میں خواتین پر تشدد، کاروکاری ، ونی، زیادتی/اجتماعی زیادتی اور دیگرجرائم کی کل تعداد 21,012 ہے۔رپورٹ کے مطابق وطن عزیز پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کئے جانے والوں کی کل تعداد 1548 ، جبکہ گزشتہ 5 سالوں کے دوران خواتین اور لڑکیوں سے زیادتی، اجتماعی زیادتی کے 14003 مقدمات درج کئے گئے ۔سانچ کے قارئین کرام !اسلامی مملکت پاکستان جو کہ اسلام کے نام پر وجود میں آئی جہاں مسلمانوں کو اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق اپنی زندگیاں بسر کرنا تھیں اور ملک کا آئین اور قوانین بھی دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق ترتیب دیے گئے وہاں خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات کا اتنی بڑی تعداد میں ہونا لمحہ فکریہ ہے اگر زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو ابھی بہت سے زیادتی کے واقعات کی رپورٹ درج نہیں کروائی جاتی جسکی وجہ والدین کی جانب سے بدنامی کا خوف سر فہرست ہو تا ہے اگر زیادتی خاص طور پر اجتماعی زیادتی کے مرتکب افراد کو قانون کے مطابق فوری سزائیں دی جاتیں تو معاشرے میں ایسے واقعات کی مکمل روک تھا م ممکن تھی ہمارے ہاں انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ اگر زیادتی کرنے والا طاقت ور ہے تو وہ مقدمہ کی رپورٹ میں قانونی پچیدگیوں کے سبب سزاسے بچ جاتا ہے جس کی وجہ سے جرائم کرنے والوں کی حوصلہ شکنی نہیں ہوتی معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی کے بڑھتے واقعات آئے روز اخبارات میں رپورٹ ہوتے رہتے ہیں ایک غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ گیارہ بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے جوکہ معاشرہ میں بڑھتی بے راہ روی کے سبب جنسی درندوں کی تعداد میں اضافہ کی نشاندہی کرتی ہے بعض جنسی جرائم میں ملوث افراد کو قانون کے مطابق سزائیں بھی دی گئی ہیں لیکن معاشرہ میں ایسے جرائم کرنے والوں کو جب تک نشان عبرت نہیں بنایا جائے گا اُس وقت تک ایسے واقعات کو رکنا ناممکن ہے سانچ کے قارئین کرام :غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کی تعداد بھی وطن عزیز پاکستان میں بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے غیرت کیا ہے اس بارے محدث میگزین میں ایک مضمون میں اس کا تذکرہ جامع انداز میں کیا گیا ہے "غیرت دل کی حالت بدل جانے اور غصہ کے سبب ہیجانی کیفیت طاری ہوجانے کو کہتے ہیں، جس کا سبب کسی ایسی شے میں دوسرے کی دخل اندازی ہوتا ہے جس کو انسان اپنے ساتھ مخصوص سمجھتا ہے۔'' جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ آدمی نے اپنی بیوی کے بارے میں فلاں شخص پر غیرت کھائی۔اور فلاں عورت نے فلاں دوسری عورت پر (اپنے شوہر کے بارے میں)غیرت کھائی۔ یہ الفاظ اْسوقت بولے جاتے ہیں جب کسی کی غیرت وحمیّت خاک میں مل جائے اور وہ مرد/عورت دوسرے شخص کی اپنے حق میں دخل اندازی کو برا جانے۔'' مضمون میں ایک اور جگہ ذکر ہوتا ہے کہـ" اسلام میں ہر جرم کی سزا اْس کی نوعیت و شدت کے مطابق دی جاتی ہے کہ یہ ہی عدل وانصاف کا تقاضا ہے۔عشق وفسق کے رویے اختیار کرنا ، گو کہ اسلام کی نظر میں انتہائی ناپسندیدہ ہیں لیکن اس کی سزا یہ نہیں کہ ایسا کرنے والے کو موت کے گھاٹ اْتار دیا جائے۔ بلکہ ایسا کرنے والے کو تادیبی اور انسدادی سزا دی جانی چاہیے۔مرد وزَن کے بے محابا تعلقات اور اْن میں خفیہ آشنائی بھی ناجائز اور حرام ہیں، لیکن جب تک کوئی مرد وعورت بدکاری کے حقیقی جرم کا ارتکاب نہیں کرتا ، اس وقت تک اس کو بدکاری کی سزا نہیں دی جاسکتی۔ حتیٰ کہ کنوارے مرد وعورت اگر زناکاری بھی کرلیں تو شریعتِ اسلامیہ میں اْن کی سزا، قتل کی بجائے سو کوڑے اور جلاوطنی سے زیادہ نہیں۔ غیرت کے حوالے سے جرائم کی بعض سنگین صورتیں مجرموں کے لیے سزاے موت کو شرعاً لازم تو کرتی ہیں، تاہم ورثا کے لیے پھربھی قانون کو ہاتھ میں لینے کی گنجائش نہیں ہے، ایسا کرنا صرف مسلمان حاکم کا استحقاق ہے۔ اسی طرح یہ بھی یاد رہے کہ جس جرم کی سزا قرآن وسنّت نے مقرر کر دی ہو، اس کی جگہ از خود دوسری سزا مقرر کردینا چاہے وہ کم ہو یا زیادہ،ایک مسلمان کے لیے ایسا رویہ اختیار کرنا ناجائز ہے"۔سانچ کے قارئین کرام !ہمارے معاشرہ میں قوانین کی موجودگی کے باوجود غیرت کے نام پر خودسزادینے خاص طور پر قتل کے واقعات عام ہیں خاص طور پر خواتین کا قتل ان میں سر فہرست ہے ایک معتبر اخبار کی خبر کے مطابق "پاکستان میں غیرت کے نام پر عورتوں کے قتل کے متعدد واقعات کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایسے اقدام اسلام کی تعلیمات کے منافی ہیں اسلام کسی شخص کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے تاہم کونسل نے اپنے بیان میں پسندی کی شادی کرنے پر عورتوں کے قتل کی مذمت نہیں کی بلکہ کہا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے کسی عزیز یا عزیزہ کو کسی اخلاقی جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے دیکھے تو ’’مشتعل ہو جانا یا غیرت کا مظاہرہ کرنا طبعی بات ہے، مگر فواحشات و منکرات کو حرام قرار دینے کے باوجود اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی شخص ماورائے عدالت از خود بداخلاقی کے مجرم کو سزا دے۔‘‘اس سے قبل مذہبی جماعتوں کی ایک تنظیم ’سنی اتحاد کونسل‘ نے ایک فتویٰ جاری کیا تھا کہ جس میں غیرت کے نام پر قتل کی واضح مذمت کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ایسے اقدام اسلام کی تعلیمات کے منافی ہے۔ سابقہ حکومتوں نے ملک میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے قوانین کے نفاذ اور عملدرآمد کیلئے اقدامات تو کسی حد تک کیے ہیں لیکن اس کے باوجود غیرت کے نام پر قتل میں کمی دیکھنے کو نہیں مل رہی غیرت کے نام پر قتل سے متعلق جرائم ایکٹ 2016ء، زنا بالجبر سے متعلق جرائم ایکٹ 2016ء ، مقام کار پر خواتین کی ہراسگی کے خلاف تحفظ ایکٹ 2010ء کا نفاذ کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ ہندو شادی ایکٹ 2017ء میں شادیوں کا اندراج کرنے اور کم از کم 18 سال شادی کیلئے عمر کی حد مقرر کی گئی ہے از خود کارروائیوں کیلئے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق قائم کیا گیا ہے، دسمبر 2015ء سے اکتوبر 2018ء تک این سی ایچ آر کی جانب سے خواتین سے متعلقہ 274 کیسز نمٹاچکا ہے تشدد کا شکار خواتین کوتحفظ اور قانونی معاونت نیز نفسیاتی، سماجی معاونت فراہم کرنے کیلئے اسلام آباد میں خواتین کیلئے فیملی پروٹیکشن اینڈ ری ہیبلیٹیشن سنٹر بھی کام کر رہا ہے٭-

Muhammad Mazhar Rasheed
About the Author: Muhammad Mazhar Rasheed Read More Articles by Muhammad Mazhar Rasheed: 129 Articles with 133647 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.