لب منطق رہے کوئی نہ چشم لن ترانی ہو
زمیں پھر سے مرتب ہو فلک پر نظر ثانی ہو
ابھی تک ہم نے جو مانگا ترے شایاں نہیں مانگا
سکھا دے ہم کو کُن کہنا جو تیری مہربانی ہو
بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا تھا کہ 100 دن مکمل ہونے پر پاکستان تحریک
انصاف کے لائحہ عمل پر زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے کالم کہاں سے شروع
کروں، تاہم ممکنہ ناراضی سے بچنے کے لیے سوچا تھا کہ جہاں تعریف وہاں توصیف
بیاں کریں گے اور جہاں کوتاہی ہوئی ہوگی، مثبت اصلاح و تجویز دینے کی ناکام
کوشش کریں گے، لیکن بھلا ہو وزیراعظم صاحب کا کہ انہوں نے ہمیں درد سر سے
بچالیا، بلکہ اب تو 5 برس (گر انہیں مہلت ملی) تک انہیں کچھ کہہ بھی دیں تو
کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ نئی اصطلاح رائج ہوچکی ہے کہ ’’یوٹرن لینے والا
لیڈر نہیں بن سکتا۔‘‘
اب یوٹرن لیتے ہیں یا ناک کی سمت میں سیدھے جاتے ہیں، بہرحال ’’نئے پاکستان‘‘
کے موجد ہیں۔ ان کا ’’ساتھ‘‘ تو دینا ہوگا، ورنہ ہم اپنی کتابوں میں آنے
والی نسلوں کو کیا پڑھائیں گے کہ نیا پاکستان بنانے کے لیے کہاں کہاں ’’یوٹرن‘‘
لینے پڑے، کتنی ’’مشکلات‘‘ برداشت کرنی پڑیں۔ نئے پاکستان کے عوام نے
دھرنوں، احتجاجی مظاہروں اور سول نافرمانی کی تحریکوں میں ’’یوٹرن‘‘ کی ’’تاریخ‘‘
رقم کی۔ اگر ہم جیسے ’’لفافہ فروشوں‘‘ نے تاریخ مرتب نہیں کی تو آنے والی
نسل ہمیں کبھی ’’معاف‘‘ نہیں کرے گی۔ بہرحال 100دن لائحہ عمل پر اب جو کچھ
بھی کہا جائے گا، وہ 35 پنکچر والا بیان جیسا ہی ہوگا۔ مجھے بالکل اچھا
نہیں لگ رہا کہ ہمارے وزیراعظم 100دن سے پہلے قرض مانگنے بار بار بیرون ملک
جارہے ہیں۔ میں وزیراعظم کی پہلی تقریر سے بہت متاثر ہوا تھا۔ اب بھی متاثر
ہوں۔ (یوٹرن کبھی بھی لے سکتا ہوں)۔ وزیراعظم امداد لینے کے لیے سعودیہ دو
بار، چین، متحدہ امارات تک گئے۔ ایسا لگا کہ جیسے میاں صاحب چپکے سے کہہ
رہے ہوں۔۔۔
جناں کھادیاں گاجراں ٹڈ اونھاں دے پیڑ
کپتان صاحب آپ اپنی تقاریر میں چاہے جتنے یوٹرن لے لیں، لیکن حقیقت میں جب
آپ نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف سے قرض لینے کے بجائے خودکشی کرلیں گے، مجھے
بڑی فکر ہوگئی تھی کہ اپنی بات پر ’’ڈٹ‘‘ جانے والے ’’ضدی‘‘ کہلانے والے
کپتان، کہیں جذبات میں خلافت راشدہ سے متاثر نظام لانے سے قبل کہیں ایسا
ویسا نہ کرجائیں، تاہم شکر کہ انہیں متعدد زیرک ماہر سیاست دان مل چکے تھے۔
100 دنوں میں انہوں نے جتنا کیا وہ بھی ’’بہت‘‘ ہے، ان کا تاریخی کارنامہ
میرے نزدیک وزیراعظم ہاؤس کی بھینسوں کی نیلامی ہے، کیونکہ اب نہ بھینس
ہوگی اور نہ اس کے آگے کوئی بین بجائے گا۔ یہ درحقیقت اچھا اقدام تھا، لیکن
ان بھینسوں کی خوراک کیا تھی؟ ہنوز عوام اس سے بے خبر ہیں۔ گھوڑوں کو مربے
اور اصلی گھی سے بنی خوراکیں بادام، پستہ اور پتا نہیں کیا کیا کھلانے والی
تفصیلات سے تو عوام بخوبی واقف ہیں، لیکن بھینسوں کو بھی تو یقیناً مہنگی
ترین خوراکیں کھلائی جاتی ہوں گی۔ آخر وزیراعظم ہاؤس کی بھینسیں تھیں، کسی
ایرے غیرے کی نہیں۔
عیدالاضحیٰ پر قربانی کے لیے لائے جانے والے بیشتر مہنگے جانوروں کی قیمتوں
کی وجہ ان کو دی جانے والی خوراک ہوتی تھی۔ ویسے کوئی معاون خصوصی بھینسوں
کو کھلائی جانے والی خوراک کا تخمینہ بھی لگالے تو بڑا زبردست کام ہوجائے
گا۔ نیب کو یہ کیس ضرور بھیجئے گا۔ آخر عوام کا پیسہ تھا۔ اب یہ تو ہم کہہ
نہیں سکتے کہ گئی بھینس پانی میں۔
تیور بدل بدل کے پھراتے ہیں پُتلیاں
لے لے کے اُلٹی سانس گراتے ہیں بجلیاں
اب تو یہ عالم ہوتا جارہا ہے کہ عالمی سطح پر جو خبر پڑھنے کو ملتی ہے،
ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ بھی کوئی ’’یوٹرن‘‘ والا بیان ہوگا۔ نائن الیون کے
بعد پچاس لاکھ جانیں امریکی غضب کا شکار ہوئیں۔ کاش کہ وہ ’’یوٹرن‘‘ لے
لیتے تو آج مسلم دنیا میں امن ہوتا۔
یہ سب قصور ہمارے ’’عوام‘‘ کا ہے، جنہوں نے تحریک انصاف کو پہلے ہی ’’موقع‘‘
کیوں نہیں دیا۔ اگر انہیں پہلے ’’منتخب‘‘ کرالیتے تو یمن کی جنگ بھی نہ
ہوتی اور شام وعراق کا مسئلہ تو اٹھنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا۔ کاش عمران
خان مشرف حکومت سے الگ نہ ہوتے تو پاکستان افغانستان کی جنگ میں کبھی نہ
کودتا۔ مشرف کا ساتھ چھوڑ کر انہوں نے قوم سے معافی مانگی تھی، اب اس سوچ
میں غوطہ زن ہوں کہ وہ معافی ’’یوٹرن‘‘ تھی یا اصولی موقف۔
عوام اب بخوبی سمجھ گئے ہوں گے کہ پنجاب میں سب سے بڑے ڈاکو کے لقب دینے
والے کے ساتھ ’’یوٹرن‘‘ کے فلسفے کے تحت اتحاد کیوں کیا گیا تھا۔ عوام یہ
بھی سمجھ چکے ہوں گے کہ پنجاب میں اقلیتی جماعت کو کس طرح ’’اکثریتی جماعت‘‘
بناکر تخت لاہور حاصل کیا گیا۔ سینیٹ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کا دھڑن
تختہ کس فلاسفی کے تحت ہوا، اب تو آپ بھی سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ دراصل
’’یوٹرن ازم‘‘ تھا۔ کراچی میں سابق صوبائی وزیر داخلہ نے اپنی ہی جماعت کے
سابق وفاقی وزیر داخلہ کے بارے میں کہا کہ جب وہ سیب کھارہے ہوں اور ان سے
پوچھیں، کیا کھارہے ہیں تو وہ اتنی صفائی سے جھوٹ بولیں گے کہ میں تو کیلا
کھارہا ہوں۔ بلاوجہ ’’مفاہمت‘‘ کی سیاست کو بدنام اور غلطی تسلیم کیا گیا۔
اب سمجھ میں آیا کہ یہ مفاہمت کی نہیں بلکہ ’’یوٹرن‘‘ کی سیاست تھی، جس طرح
پاکستان کے قیام کے لیے دو قومی نظریے کو سرسید احمد خان اور علامہ اقبال
کے افکار سے جوڑا جاتا ہے کہ پاکستان کی بنیاد تو اُس وقت ہی پڑ چکی تھی جب
1857 کا غدر ہوا تھا۔ پاکستان میں بھی اب تک جتنی بار بھی آمریت و جمہوریت
آئی، دراصل یہ ’’یوٹرن‘‘ کا فلسفہ ہی تھا کہ عوام سے کیے وعدے کبھی ایفا
نہیں کیے گئے۔
خیر معاشرتی علوم میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوچکا ہے، اب راوی چاہے چین
لکھے یا جاپان، ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں، کیونکہ لیڈر بننے کی اس صفت
سے ہم بھی واقف نہ تھے، اس لیے ہمارے آئندہ کالموں میں کسی بھی قسم کی
تبدیل ہوتی رائے کو ادارے کی پالیسی نہیں بلکہ راقم کا ’’یوٹرن‘‘، فلسفے سے
متاثرہ عمل سمجھا جائے۔ ادارے کا پہلے بھی کالم نویسوں کی رائے سے اتفاق
نہیں ہوتا، اب بھی کوئی تعلق بھی نہیں ہوگا بلکہ بچوں کی پہنچ سے دور رکھنے
اور سمجھ نہ آنے کی صورت میں ’’یوٹرن‘‘ کے ماہر سے رجوع کرنے کا مشورہ
ہمارا ذاتی ہی ہوگا، کیونکہ تقلید کی بیماری میں مبتلا کئی سیاسی شخصیات
اپنے اپنے ’’یوٹرن‘‘ کوبھی فخر سے افشا کرنے لگے ہیں۔
پالیسیاں، حکمت عملی، سیاسی لائحہ عمل اور بدلتے ارادوں میں فرق ہوتا ہے۔
انقلابی حکمت عملی میں جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا۔ لہو گرم رکھنے کا ہے
اِک بہانہ قرار دیا جاتا ہے، لیکن میرے نادان دوست کاش اس بات کو سمجھ لیں
کہ:
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے، شاہیں کا جہاں اور
الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
مُلّا کی اذاں اور، مجاہد کی اذاں اور
|