تحریر: حافظ زاہد مقبول
اﷲ کی بات ،اﷲ اﷲ کرتے، اﷲ سے سب کچھ ہونے کا یقین ۔مخلوق سے کچھ نہ ہونے
کا یقین ۔امت کا درد توحید کا علمبردار مصلح امت کامیاب ہوکر اﷲ کے دربار
میں پہنچ گیا۔ حاجی عبدالوہاب صاحب رحمہ اﷲ کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے
پنڈال پہنچے، لاکھوں فرزندان توحید پنڈال کی طرف جنازہ میں شرکت کو سعادت
سمجھتے ہوئے جوق درجوق پہنچ رہے تھے۔راستے کی ساری مساجد بھری ہوئی تھیں۔
ہزاروں افراد پیدل جنازہ گاہ کی طرف جاتے نظر آرہے تھے ،یہ لوگ اس شخص کے
جنازے میں شریک ہیں؟جس نے ان کو اﷲ کی ذات سے ملایا۔ حضرت حاجی عبدالوہابؒ
ساری زندگی لوگوں کو اﷲ سے جوڑنے کی مبارک محنت کرتے کرتے سفر آخرت پر
روانہ ہوگئے ۔انہوں نے نہایت کامیاب زندگی گذاری کیونکہ اﷲ نے فرمایا ،’’اس
سے اچھی بات کس کی ہوسکتی ہے جو اﷲ کی طرف لوگوں کوبلاتا اور عمل صالح
اختیار کرتا ہو‘‘؟حضرت حاجی صاحب ؒعرب وعجم کے کروڑوں مسلمانوں کے دلوں کی
دھڑکن تھے اﷲ اﷲ کرتے رخصت ہوئے۔
حاجی صاحبؒ کا ٹریڈ مارک تھا،’’اﷲ سے سب کچھ ہوتا ہے۔ اﷲ کے حکم کے بغیر
کچھ نہیں ہوتا‘‘۔وحدانیت کے بول اﷲ مالک،اﷲ خالق،اﷲ رازق بولتے بولتے دربار
خدا میں بڑی شان و شوکت سے رخصت ہو گئے ہیں اﷲ اکبر۔جماعت کے حضرات وقت کی
ہمیشہ پابندی کرتے ہیں مگر منبر سے مسلسل یہ اعلان کیا جاتا رہا کہ اس وقت
بہت بڑا مجمع پیدل پنڈال کی طرف آرہا ہے ان کی شرکت کے لیے یہ تاخیر کی گئی
ہے۔ تمام حضرات ذکر ودعا میں مشغول رہیں نظم و ضبط کا خیال رکھیں۔ عشا سے
کچھ پہلے آ ہوں اورسسکیوں میں مولانا نذر الرحمن صاحب نے نماز جنازہ پڑھاء
جنازہ سے قبل حضرات علماکے بیانات ہوئے۔
مولانا فہیم صاحب نے قدرے تفصیلی مگر رقت انگیز خطاب فرمایا، جس میں انہوں
نے بطور خاص حضرت حاجی صاحب رحمہ اﷲ کی جدوجہد اور امت کے لیے ان کی کڑھن
اور بے چینی کوبیان کیا اس سلسلے میں کئی عجیب واقعات کا ذکر کرتے ہوئے
انہوں نے بتایا کہ حضرت حاجی صاحبؒ نے سخت علالت کے دوران ایک مرتبہ شدید
تکلیف کے باوجود آخر شب اٹھ کر اپنے خادم ساتھی سے فرمایا بھائی کوئی ایسی
ترکیب بتاؤ کہ یہ ساری امت جہنم سے بچ جائے۔ابھی چند دن پہلے ہی حضرت حاجی
صاحب ؒنے ایک بار پوچھا کہ کل صبح کس کا بیان ہے ؟ اگلے دو دن جن دو افراد
کے بیان کا بتایا گیا انہیں بلوایا اور فرمایا بھائی کل کے بیان میں صرف اﷲ
کو بیان کرو صرف اﷲ کا تذکرہ کرو۔
ایک اور موقع پر فرمایا بھائی ہر بیان کے آخر میں صرف اﷲ کی بات کیا کرو
مولانا فہیم نے بتایا کہ مرنے سے پہلے بھی اﷲ اﷲ کرتے رخصت ہوئے۔ مولانا
فہیم نے ایک اہم بات یہ بھی ذکر کی کہ مجھے ایک اہم پیغام حضرت حاجی صاحبؒ
نے تحریری صورت میں دے رکھا تھا اور فرمایا تھا کہ میرے مرنے کے بعد لوگوں
تک پہنچا دینا لہذا میں امانت سمجھ کر آج مجمع تک حضرت حاجی صاحب ؒکا یہ
پیغام پہنچا رہا ہوں وہ پیغام یہ ہے کہ ،’’مجھ سے تعلق اور محبت رکھنے والے
تمام احباب کو میری یہ وصیت ہے کہ اپنی تمام صلاحیتیں اور استعداد اس دین
کی سرسبزی وشادابی میں لگادو۔ اﷲ تعالی آپ سب کو اپنا تعلق اور اپنے حبیب ﷺکی
محبت نصیب فرمائے اور مرکز کے سارے لوگوں کے سارے امور روزانہ کے باہمی
مشورے سے طے کیے جائیں ان شا اﷲ خوب خیر وبرکت ہوگی‘‘۔
مولانا فہیم نے حاجی صاحب رحمہ اﷲ کی امت کے لیے کڑھن اور بے قراری بیان
کرتے ہوئے کہا کہ،’’ حاجی صاحب ؒعرصہ دراز سے ایک ہی سادہ قسم کی غذا کھاتے
مگر بے چینی کی وجہ سے اس کے ذائقے کو کبھی محسوس ہی نہیں کیا۔ جوانی کے
دور سے حضرت رائے پوری کے علاوہ مولانا حسین احمد مدنی حضرت سید عطااللّلہ
شاہ بخاری رحمھم اﷲ سے تعلق بعد میں حضرت مولانا الیاس حضرت جی مولانا یوسف
و مولانا انعام الحسن رحمھم اﷲ سے گہرا تعلق اوراستفادہ فرمایا۔ ساری زندگی
ہمیشہ آخر شب اٹھ کر تہجد کا ایسا پختہ معمول تھا کہ شدید بیماری میں بھی
خودبخود اٹھ جانے کی عادت تھی چنانچہ شدید علالت میں بھی تہجد کبھی نہ
چھوٹی۔ جوانی کے زمانہ سے روزانہ سورہ یس، سورہ کہف ،سورہ واقعہ ،سورہ ملک
اور مختلف سورتیں پڑھنے کا معمول تھا۔ سچ ہے کہ ایسی ہستیاں صدیوں میں پیدا
ہوتی ہیں۔حاجی صاحبؒ خود ساری زندگی تقوی وﷲیت اور خشیت خداوندی اور امت کی
فکر میں اپنے رب کے سامنے روتے دھوتے رہے مگر آج وہ خود تو کامیاب ہوکر خوش
خوش اپنے اﷲ سے جاملے، لاکھوں مسلمانوں کو سوگوار چھوڑ گئے جنازہ میں شریک
لاکھوں افراد اس شخص کے لیے رو رہے تھے جن کے لیے ساری زندگی حاجی صاحبؒ
روتے رہے ۔حاجی عبدالوہاب اکیسویں صدی میں قرن اول کی تاریخ کا ایک
اجلا،روشن، متنفس اور متحرک ورق تھے۔ ان کا خمیر آب و گل سیرۃالنبی سے
اٹھایا گیا تھا۔
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
|