صدر ٹرمپ کے مضحکہ خیز ٹویٹس سے دنیا بھر میں وقتاََ
فوقتاََ سب محظوظ ہوتے رہتے ہیں ۔خصوصاََ جب شمالی کوریا سے انہوں نے
کیمیائی لفظی جنگ کا آغاز کیا تو پوری دنیا سمجھ بیٹھی کہ امریکا نے جیسے
ہی ایٹم بم کا بٹن دبایا تو شمالی کوریا نے امریکا پر اپنا ایٹمی بلاسٹک
میزائل داغ دینا ہے ۔ عالمی برداری میں انتہائی تشویش ناک لہر دوڑ چکی تھی
اور ماحول ایسا بن گیا تھا کہ تیسری جنگ عظیم کا آغاز پاکستان ۔بھارت کے
بجائے امریکا اور شمالی کوریا سے شروع ہوگا۔لیکن لفظی گولہ باری کرنے والے
بقول بالاآخر منصور بھائی حسب توقع’’ چھوڑو‘‘ ثابت ہوئے۔ ہم نے تو منصور
بھائی سے کہا بھی کہ اچھا ہوا کہ دنیا ایک بڑی کیمیائی عالمی جنگ سے بچ گئی
لیکن وہ مُصر تھے کہ بڑی بڑی بڑی باتیں کرنے والے لوگ’’ چھوڑو‘‘ ہوتے ہیں۔
اس بات سے مجھے اتفاق نہیں تھا لیکن صہیب بھائی نے بھی منصور بھائی کی
تائید کردی ۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا تو ان سانولے چہرے پر لالی دیکھ کر
پہلے یہ سمجھا کہ صہیب بھائی غصے میں لال پیلے ہوکر کہ گلوں میں رنگ بھرے
والے باد نو بہار بنے بیٹھے ہیں ۔ لیکن منصور بھائی نے انکشاف کیاکہ گھر کی
صفائی ٹھیک سے نہ کرنے پر بھابھی نے طبعیت صاف کی ہے یہ سرخی اسی کی نشانی
ہے ۔اب پریشان ہونے کی باری میری تھی کیونکہ گھر میں کچھ برتن صاف نہیں
ہوسکے تھے اور یہ ’’داغ‘‘ میرے لئے کبھی اچھے ثابت نہیں ہوئے تھے،کیونکہ
اتفاقاََگھر میں فلم’’ عورت راج‘‘ دیکھ چکا تھا ۔
خیر یہ تو گھر کا معاملہ ہے ۔ ہم مارکھائیں یا وہ ہمیں ماریں ۔ گھر کی بات
گھر ہی میں رہ جاتی ہے لیکن صدر ٹرمپ کو ان کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو (سابق
سی آئی اے ڈائریکٹر ) اور موجود ہ سی آئی اے کی خاتون ڈائریکٹر جینا ہیسپل
نے کیوں نہیں بتایا کہ پاکستان سے ’’ پنگا ‘‘لینا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
اس سے پہلے بھی کئی مواقع پر امریکا پاکستان پر تبراکرچکاہے اور پاکستان تو
ایسا ملک ہے کہ چاہے ہم آپس میں جتنا بھی ایک دوسرے سے لڑتے رہیں ، گلے
محلوں کا(حقہ) پانی یا سیوریج لائنوں کو بوریاں ڈال کر بندکردیں لیکن جب
وطن عزیز پر بُرا وقت ( خدانخواستہ) آتا تو گھر جمائی بھی دلیر بن جاتا ہے۔
خیر یہ تو برسبیل تذکرہ تھا، جس سے سب واقف ہیں لیکن نئے پاکستان میں جس
نئی فصل کی آبیاری ہورہی ہے اس کے کھیت کے دہقان، کھیتوں کو جلاکر برنال
بھی ساتھ دیتے ہیں۔ویسے بھی جب پاکستانی قوم کے معمار کسی کے پیچھے پڑجاتے
ہیں تو کمبل سے جان چھڑانا بہت مشکل ہوجاتا ہے ۔ یہاں تو ٹرمپ نے نئے
پاکستان کو ٹوئٹ مارنے کی ’’جرات‘‘ کی۔
وزیر اعظم تو 100دن کے لائحہ عمل کے ابتدائی نکات پر تاریخی تقریر کی
تیاریوں میں مصروف تھے ، ملائیشیا بھی جانا تھا ، آئی ایم ایف والے بھی
پہلی اننگ کھیل کرچلے گئے تھے ۔ عمران خان جب سے وزیر اعظم بنے ہیں
زرمبادلہ کی کمی اور فنڈ کم ملنے پر تپے بیٹھے تھے کہ صدر ٹرمپ نے وہ کردیا
جو انہیں نہیں کرنا چاہیے تھا( سفارتی اقدار کا خیال نہ رکھنا ان کا
پسندیدہ عمل جو ہے) ۔ بس تو بھارت کو جس طرح ایٹمی دھماکے کے جواب میں
پاکستان نے در پے ایٹمی دھماکے کرکے جواب دیا تھا کہ اب بھارت میں ووٹ بھی
پاکستان کے نام پر لینا پڑتا ہے ۔ یہاں صدر ٹرمپ نے ٹویٹ مارا اور فوراََ
وزیر اعظم نے 20ارب ڈالر اور124ارب ڈالر کا آڈٹ کرکے کیس آگے دے دیا کہ
ٹرمپ پر ریفرنس دائر کرو ۔ ٹرمپ حیران وپریشان ہوگئے کہ پاکستان میں ایسا
تو کبھی نہیں ہوتا تھا یہ ہوا کیا ہے ۔ٹرمپ نے سب سے پہلے تحقیق کروائی کہ
کہیں عمران خان کا اکاؤنٹ روس نے ہیک تو نہیں کیا ۔ ابھی شش و پنج میں تھے
کہ اپوزیشن جماعتوں نے یکجہتی کا مظاہرہ کرکے ڈھولک بجا دی ۔
ساز دے کے تاروں کو چھیڑ تو دیا تم نے
ساز دل کے تاروں کی بات بھی سنی ہوتی
رہی سہی کسر چیف آف آرمی اسٹاف نے ایسی پوری کی کہ امریکی صدر پر ان کے
اپنے ادارے برس پڑے کہ’’ اُٹھی نا سگاں لعنت اے گوڈیاں نوں‘‘۔ امریکی صدر
کے بیان کے برخلاف پاکستان کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے پنٹاگون کے
ڈائریکٹر پریس آپریشنز کرنل راب میننگ کا فوراََبیان سامنے آگیا کہ خطے میں
پاکستان اور امریکا کے مشترکہ مفادات ہیں، پاکستان امریکا فوجی تعلقات میں
کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی۔ پینٹاگون کے ڈائریکٹرآپریشنزپریس کرنل راب
میننگ نے نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں امریکا کا
اہم اتحادی ہے۔ دوسری جانب غیر مصدقہ ذرائع کے مطابق ہاٹ لائن پر رابطہ
کرکے کہا کہ ’’ نیازی صاحب ،ٹرمپ کو سنجیدہ نہ لیا کریں ، یہ ہماری حکو مت
کے‘‘ فواد چودھری ‘‘ہیں ، چوہان ہی سمجھ کر نظر انداز کردیا کریں ‘‘۔
خٹک صاحب نے تو فوراََ تیاریاں شروع کردی تھی ۔ انہوں نے سب سے پہلے فوراََ
سوشلستان ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا اور انہیں ہنگامی حالات کے لئے نئی
ڈاکٹرائن دی ۔ صدر ٹرمپ کو جلد معلوم ہونے والا تھا کہ ان کے تعلقات’’
اسٹورمی ڈینیلز‘‘ کے علاوہ کس کس سے تھے ۔ نت نئی تصاویر کہانیوں سے عالمی
میڈیا سجنے والا تھا۔ دوسرا محاذ بھی تیار تھا ۔ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بیٹی
اور وائٹ ہاؤس میں ان کی مشیر ایوانکا ٹرمپ کا ای میل اسکینڈل ہے ،(
ایونانکا نے گذشتہ سال اپنے ذاتی ای میل اکاؤنٹ سے وائٹ ہاؤس کے سرکاری
معاملات سے متعلق سینکڑوں ای میلز بھیجی تھیں)۔صدر ٹرمپ اور سی آئی اے
حیران و پریشان ہوجاتے جب ایونانکا کی سینکڑوں ای میلز میں سے کچھ ای میلز
کا پنڈورا بکس پاکستان میں کھلتا۔ بہرکیف صدر ٹرمپ کو سمجھنا چاہیے کہ وہ
امریکا کے صدر ہیں جہاں لوگ گدھوں اور ہاتھی( ڈیمو کرٹیک اور ری پبلکن ) کو
ووٹ ان کی بے وقوفی یا موٹی عقل پر نہیں بلکہ کارکردگی پر دیتے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں سوشل میڈیا ونگ کو ’’ فدائی ‘‘ دستہ بھی کہا
جاتا ہے جو فرنٹ لائن پر آکر اپنے مخالفین کی بینڈ بجا دیتا ہے ۔ ان کی حشر
سامانیوں سے خود ان سیاسی جماعتیں پریشان ہیں اور سوشل میڈیا پر پابندیاں
عاید کرنے کے لئے سوچ بچار میں مصروف ہیں۔
تاہم میں ذاتی طور صدر ٹرمپ کو مفت مشورہ دونگا کہ وہ پاکستان پر سوشل
میڈیا کا ڈرون اٹیک آئندہ بالکل نہ کریں ۔ یہ مفت مشورہ ہے جس طرح ہم فضائی
و زمینی راستے استعمال کرنے کے کوئی چارجز امریکا سے نہیں لیتے اسی طرح
اپنی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قیمتی مشورہ کا بھی کوئی ’’لفافہ‘‘ نہیں
لے رہا ۔ صدر ٹرمپ اور ان کے مشیروں وزیروں کو پہلے امریکا میں شدت پسندی
کے خاتمہ کرنے کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے ۔ جہاں ہر سال تقریباََ 30ہزار
افراد امریکن شدت پسندی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ امریکا میں نہ تو افغان
طالبان ہیں اور نہ ہی حقانی نیٹ ورک ۔ لہذا امریکا اپنے ملک میں بڑھتی ہوئی
شدت پسندی کی وجوہ پاکستانی مدرسوں میں تلاش کرنے کے بجائے اپنے تعلیمی
اداروں اور اپنی عوام میں تلاش کریں جہاں امریکیوں نے اپنی ’’القاعدہ
‘‘بنائی ہوئی ہے ، کبھی اسکول کے بچوں ہلاک کردیتے ہیں توکبھی نائٹ کلبوں
میں فائرنگ تو کبھی راہ گیروں پر گاڑیاں چڑھا دیتے ہیں۔ امریکا غور کرے کہ
ان گنت اسامہ تو ان کے گھر میں ہیں۔ ذرا تلاش کریں کہ ’امریکن اسامے‘ کون
سے سیف ہاؤس میں روپوش ہیں؟ یا پھر بھیجیں شکیل آفریدی کو !!۔
وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں
|