شہر کے تمام گلی محلوں اور بازاروں میں گچھوں کی صورت میں
لٹکتی بجلی کی بے ہنگم تارے گزشتہ سالوں کے دوران کئی انسانی جانوں کے ضیاع
کا سبب بن چکی ہیں۔ تاہم شہر میں لٹکتی اس موت کو سمیٹنے اور شہریوں کی جان
و مال کو محفوظ بنانے کے لئے حکومتی سطح پر کبھی کوئی ٹھوس اقدامات نہیں
کیے گئے ہیں یوں تو تجاوزات، بے ہنگم، تعمیرات بجلی کے پولز پر لٹکتی ٹی وی
اور انٹرنیٹ کے تار پورے ملک ہی کے لئے وبال جان بنے ہوئے ہیں۔ لیکن کراچی
جیسے شہر میں ان تجاوزات نے نہ صرف یہ کہ شہر کا پورا حسن گہنا دیا ہے،
بلکہ کئی مقامات پر تو ان سے انسانی جانوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
شہر کے تنگ گنجان آباد رہائشی اور تجارتی علاقوں میں تجاوزات کا یہ عالم ہے
کہ انسانی جانوں کی پروا کیے بغیر ٹرانسفارمرز، بجلی کے کھمبوں اور ہائی
ٹینشن تاروں کے نیچے بھی دکانیں اور گھر وغیرہ تعمیر کرلئے گئے ہیں۔ جب کہ
بعض مقامات پر تو بجلی کے کھمبے کچھ اس طرح گھروں اور دکانوں کے بیچ آگئے
ہیں کہ ضرورت پڑنے پر مرمتی کام تک سر انجام نہیں دیا جاسکتا بلکہ اس طرح
کے علاقوں میں ریسکیو اور فائر بریگیڈ کی گاڑیاں تک کا جانا ممکن نہیں۔
لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ تجاوزات کی روک تھام کے ساتھ ساتھ قبضہ مافیا
کے خلاف کارروائیوں میں بھی متعلقہ اداروں اور تاجر تنظیموں کو ملکر ایسی
حکمت عملی طے کرنی چاہیے جس سے غیر قانونی پتھاروں، فٹ پاتھوں، شاہراہوں،
پارکس، بجلی، گیس اور پانی کی لائنز بچھانے یا ان کی مرمت میں رکاوٹ پیدا
نہ ہو اور دیگر کمیونیکیشنز کی تاروں کو بجلی کے کھمبوں کے غیر قانونی
استعمال سے روکا جائے کیونکہ یہ صورت حال کس قدر نازک اور فوری توجہ کی
متقاضی ہے اس کا اندازہ آپ کو شہر کے قدیم علاقوں کا محض سرسری جائزہ لینے
پر ہی معاملے کی نزاکت کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا ایک سروے کے مطابق کراچی
2030 میں دنیا کا تیسرا بڑا شہر بن جائے گا لہٰذا اگر مستقبل کے مسائل
نمٹنے کے لیے ابھی سے کوئی ٹھوس حکمت عملی تیار نہیں کی گئی تو شہریوں کو
ان گنت مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ |