پھول شاخ سے وہ ٹوٹا کہ چمن ویران ہوگیا!

بسم اﷲ الرحمان الرحیم

ابھی مادرِ علمی مدرسہ عربیہ رائے ونڈ تبلیغی مرکز کے امیر محترم حضرت حاجی عبد الوہاب صاحب رحمہ اﷲ کی مفارقت کا زخم مندمل نہیں ہونے پایا تھا کہ رائے ونڈ مرکز کے امام و خطیب مبلغ اسلام، داعی الیٰ اﷲ استاذِ محترم حضرت مولانا محمد جمیل صاحب رحمہ اﷲ کا سایہ بھی ہم سے اٹھ گیا۔انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ آپؒبہ یک وقت مناظر اسلام، وکیل احناف، خطیب بے بدل، ماہر فن اسماء الرجال اور استاذِ حدیث ہونے کے ساتھ ساتھ تقویٰ و طہارت، خشیت و ﷲیت ، تواضع وانکساری اور علم و عمل کا حسین مجسم پیکر تھے۔

مولانا محمد جمیل صاحب رحمہ اﷲ غیر منقسم ہندوستان کے مشہور شہر خان پور کے قریب ’’سہجہ‘‘ نامی چک نمبر 66 میں 1946ء کو پیدا ہوئے۔آپؒ کا تعلق اگرچہ ایک زمیں دار گھرانے سے تھا، لیکن گھر کے نیک اور پاکیزہ ماحول کے سبب دین سیکھنے کا جذبہ آپؒ میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔جب آپؒ سن شعور کو پہنچے تو آپؒ کے والد ماجد نے ابتدائی دینی تعلیم دلوانے کے لئے آپؒ جامعہ مخزن العلوم خان پور میں داخل کرادیا، جہاں رہ کر آپؒ نے سب سے پہلے قرآنِ مجید کی بنیادی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد مکمل قرآنِ مجید حفظ کیا۔ قرآنِ مجید حفظ کرلینے کے کچھ ہی عرصہ بعد والد ماجد کا سایہ آپؒ کے سر سے اٹھ گیا، جس کے سبب گھر کی تمام ترذمہ داری آپؒ کے کندھوں پر آپڑی۔ گھریلو اخراجات کا واحد ذریعہ چوں کہ زمیں دارہ اورزراعت ہی تھا اس لئے آپؒ زیادہ تر وقت کھیتی باڑی کو دیتے اور اس سے گھریلو اخراجات پورے فرماتے۔

اندریں حالات ایک مرتبہ ایک دوست ملاقات کے لئے آئے، علیک سلیک ہوئی، دوست نے پوچھا سناؤ کیسی گزر رہی ہے؟ فرمانے لگے والد کی جدائی کا غم تازہ ہے اور گھریلو اخراجات کی ذمہ داریاں سر پر آپڑی ہیں‘‘ دوست نے کہا چلیے شہر میں آج تبلیغی جماعت کا ایک پروگرام ہے وہاں شرکت کے لئے چلتے ہیں !‘‘ آپؒ نے فرمایا بہت اچھا! اور آپؒ اپنے مہمان دوست کے ہم راہ تبلیغی جماعت کے پروگرام میں شرکت کے ارادے سے شہر کے مرکز کی طرف چل دیئے، جہاں ایک تبلیغی بزرگ بیان فرمارہے تھے، بیان کے بعد تشکیل ہوئی جس میں آپؒ نے 40 دن اﷲ تعالیٰ کے راستے میں لگانے کا ارادہ کیا اور دعاء کے بعد گھر واپس تشریف لے آئے۔

چند دن گزرنے کے بعد بزرگوں نے شہر سے مختلف ساتھیوں کو آس پاس کے مختلف دیہاتوں میں بھیجا تاکہ جن بھائیوں نے اﷲ تعالیٰ کے راستے میں چلے، چار ماہ وغیرہ لگانے کے ارادے کر رکھے ہیں انہیں وصول کیا جائے اور انہیں اﷲ تعالیٰ کے راستے میں نکالا جائے، اسی طرح کی چند ساتھیوں پر مشتمل ایک مختصر سی جماعت آپؒ کے گاؤں بھی بھیجی تاکہ آپؒ کو وصول کرکے اﷲ تعالیٰ کے راستے میں نکالاجائے، تو جماعت جب وہاں پہنچی تو انہوں نے دیکھا کہ آپ کھیتی باڑی میں مصروف ہیں اورزمین جوت رہے ہیں ، لیکن قدرت کو آپؒ سے مادّی دنیا کی زمین کے بجائے انسانی دلوں کی زمین کی زراعت کا کام لینا مقصود تھا اس لئے آپؒ کھیتی باڑی چھوڑ چھاڑ کر اﷲ کے راستے میں نکل پڑے، پہلے آپؒ نے سہ روزہ لگایا، پھر ایک چلے کا ارادہ کیا اور اس کے بعد چار ماہ کا ارادہ کرکیا اور چار ماہ لگاکر گھر واپس تشریف لائے، جہاں گھر کے ذمہ دار حضرات تایاؤں، چچاؤں اور بھائیوں کے مشورے سے آپؒ کا عقد نکاح طے پایا۔

تبلیغ میں وقت لگانے کے دوران آپؒ کے دل میں حصولِ علم کا شوق پیدا ہوگیا تھا اس لئے گھر پہنچتے ہی عقد نکاح کے بعد آپؒ نے دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے جامعہ مخزن العلوم خان پور کا رخ کیااور وہاں درسِ نظامی کی تعلیم کا باقاعدہ آغاز کردیا، جہاں آپؒ کا روزانہ کا معمول صبح تہجد کے وقت مدرسے جاکر نمازِ فجر پڑھنے کا تھا۔لیکن ابھی آپؒ ابتدائی درجات ہی میں تھے آپؒ کو ایک اور صدمہ اٹھانا پڑا کہ آپؒ کی رفیقۂ حیات کا انتقال ہوگیا، اس کے بعد آپؒ کا دوسرا عقد نکاح اسی تعلیمی زمانے میں ہوگیا۔اس دوران آپؒ نے جامعہ مخزن العلوم خان پور سے چھوڑ کرجامعہ رشیدیہ ساہیوال کا رخ کیا، جہاں آپؒ نے مختلف علوم و فنون کی تکمیل کی اور پھر آخر میں دوبارہ بلکہ سہ بارہ جامعہ مخزن العلوم خان ہی سے دورۂ حدیث مکمل کرکے 1978ء میں سند فراغت حاصل کی۔

آپؒ نے جن اساطین علم و فضل کے سامنے زانوئے تلمذ طے کئے ان میں سب سے زیادہ معروف ٗ مشہور حافظ الحدیث حضرت مولانا عبد اﷲ درخواستی صاحبؒ ہیں جن سے آپؒ نے بخاری ثانی پڑھی، دوسرے استاذ حضرت مولانا شفیق الرحمان درخواستی صاحبؒ ہیں جن سے آپؒ نے بخاری اوّل پڑھی، تیسرے استاذ حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحبؒ ہیں جن سے آپؒ نے مؤطین پڑھیں اور چوتھے استاذ حضرت مولانا عمر حیات صاحبؒ ہیں جن سے آپؒ نے فن مناظرہ پڑھا۔

درسِ نظامی سے فراغت کے بعد آپؒ اپنے گاؤں ’’سہجہ‘‘ نامی چک نمبر 66 میں تشریف لے گئے جہاں آپؒ اپنے عزیز و اقارب پر دین کی محنت فرماتے رہے اور انہیں دعوت و تبلیغ کے کام کے ساتھ جوڑتے رہے اور اس کے ساتھ ساتھ خان پور مرکز میں امامت و خطابت کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے، اور پھر اس کے بعد رائے ونڈ مرکز میں ایک مہینہ کی ترتیب پر اقامت پذیر ہوگئے ۔

رائے ونڈ مرکز کے امام و خطیب حافظ محمد سلیمان صاحب رحمہ اﷲ کا جب انتقال ہوگیا تو پہلے تو عارضی طور پر امامت کے لئے آپؒ کا تقرر کیا گیا، لیکن جب مولانا سعید احمد خان صاحب رحمہ اﷲ نے آپؒ کی قرأت سے محظوظ ہوئے تو ان کے ایماء پر آپؒ کو مستقل طور پر رائے ونڈ مرکز کی امامت و خطابت کی ذمہ داری سونپ دی گئی، جسے آپؒ 1994ء سے لے کر 2007ء کے بعد تک نبھاتے رہے، لیکن اس کے بعدضعف و نقاہت اور بیماری و پیرانہ سالی کے سبب آپؒ صرف فجر کی نماز ہی پڑھاتے رہے۔

1999ء میں جب مدرسہ عربیہ رائے ونڈ مرکز میں دورۂ حدیث کا باقاعدہ آغاز ہوا تو حدیث کی دو معتبر اور اہم کتابیں مؤطا امام مالکؒ اور مؤطا امام محمدؒ آپؒ کے حصے میں آئیں، جنہیں آپؒ آخر دم تک بحسن و خوبی پڑھاتے رہے۔ آپؒ کا اصلاحی تعلق پہلے حضرت شیخ الہند کے خلیفۂ مجاز مفتی رفیع الدین صاحبؒسے تھا، لیکن جب وہ انتقال کرگئے تو آپؒ نے مولانا عبد القادر رائے پوریؒ سے اپنا اصلاحی تعلق قائم کرلیا اور انہیں کے ہاتھ پر بیعت ہوئے۔ آپؒ نے اندرون و بیرون دنیا بھر کے مختلف ممالک جنوبی افریقہ، کینیا، کویت اور ابوظہبی وغیرہ سمیت اندرون ملک مختلف اضلاع اور علاقوں میں دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں مختلف تبلیغی دورے فرمائے۔ آپؒ کا بیان قرآنی آیات ،ا حادیث نبویہ اور حیات صحابہ کے درخشاں حالات و واقعات سے لبریز ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی سادہ، عام فہم اور روح پرور ہوتاتھا۔ اﷲ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ وہ استاذِ محترمؒ کی کامل مغفرت فرمائے، انہیں کروٹ کروٹ سکھ چین نصیب فرمائے اور جنت الفردوس میں ان کو اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اﷲ علیہ وسلم۔
 

Muhammad Waqas Rafi
About the Author: Muhammad Waqas Rafi Read More Articles by Muhammad Waqas Rafi: 188 Articles with 253876 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.