آج میرے اس تحریر کا موضوع بحث یہ ہے کہ دین اسلام کو جس
وقت اقوام عالم پر سیاسی غلبہ حاصل تھا ۔ اور مسلمان دنیا کی خشکی و تری کے
مالک و مختار تھے۔ اور دنیا کی تمام طاقتیں مسلمانوں کے آگے سر تسلیم خم ہو
چکے تھے۔ تو اس وقت بحثیت فاتح قوم مسلمانوں نے دیگر مذاہب کے ماننے والوں
کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا تھا ؟ کیا سلطنت قیصروکسری کو تہس نہس کر نے
کے بعد مسلمانوں کے لئے یہ کوئی مشکل تھا کہ اسی وقت رومیوں اور فارسیوں کی
گردنیں اتار دیتے ۔ اور ان کی عورتوں اور بچوں کو لونڈیاں اور غلام بنادیتے۔
جس کا مشاہدہ چشم فلک اس سے پہلے سرزمین حجاز میں کر چکا تھا۔ کہ کیسے
جماعت صحابہ نے یہودیوں اور مشرکین پر قیامت برپا کردی تھی۔اور اس کی وجہ
یہ تھی کہ حجاز مقدس تو مسلمانوں کے لئے چھاؤنی (cantonment area)کی حثیت
رکھتی تھی۔ اسی لئے اس کو شرک اور بے دینوں سے پاک کرنا عین خدا کی اسکیم
تھی۔ اور اس کے باہر کیا یہودیت،عیسائیت اور مجوسیت وغیرہ کے وجود ہی کو
روئے زمین سے مٹا دینا کیا مسلمانوں کے لئے کوئی مشکل تھا ؟ ہرگزنہیں۔ لیکن
یہ اسلام کی تعلیمات میں نہیں ہیں۔ قرآن کریم اس معاملے میں بہت واضح ہے۔
قرآن دنیا کی وہ پہلی کتاب ہے جس نے مذاہب کے درمیان "مفاہمت" کی بنیاد
رکھی ۔ اور اس انتہائی مشکل کو ایک ہی اعلان میں حل کیا {لااکراہ فی الدین}
دین میں کوئی زبردستی نہیں ہیں۔ {فمن شاء فلیؤمن ومن شاء فلیکفر} جو چاہے
ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے۔ اور قرآن حکیم وہ واحد کتاب ہے جس نے پورے
شدومد کے ساتھ برملا یہ اعلان کیا {لکل جعلنا منکم شرعتہ و منھاجا} کہ ہر
ایک کے لئے ایک شریعت (دستورالعمل) اور طریقہ (راہ عمل) مقرر کر دیا ہے۔
اگر اللہ چاہتا تو تم سب ایک امت بنا دیتا {ولوشآءاللہ لجعلکم امتہ واحدہ}
۔
اس موقع پر یہ بیان کرنا بے محل نہ ہوگا کہ کم ازکم اہل کتاب غیر مسلموں کے
مقدموں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے شخصی قانون ہی کے متعلق
فیصلہ فرماتے تھے۔ چنانچہ یہودیوں کے ان تین مقدموں کا اکثر مؤرخین نے ذکر
کیا جن میں توریت پر عمل کرایا گیا۔قرآن کریم میں اس مسئلے سے کافی بحث کی
گئی ہیں اور حکم دیا گیا ہے ۔ کہ یہودی توریت پر عمل کریں تو نصرانی انجیل
پر اور مسلمان قرآن پر۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ طرز عمل
بعد میں مستقل قانون بن گیا۔ کہ غیر مسلم رعایا کہ فیصلے ان کے شخصی قانون
ہی کے مطابق ہو۔ اور اسی غرض کے لئے خصوصی عدالتیں بنائی گئی ۔ چنانچہ
خلافت راشدہ میں اس چیز نے خاصی ترقی کرلی تھی۔ اور ان ملی عدالتوں کے
افسران بھی ہم ملت ہی مقرر ہوئےتھے۔ جس کا اعتراف مشہور پادری "کارالفسکی"
نے کچھ ان الفاظ میں کیا ہے (علاوہ یہودیوں کے جن پر بہت سخت مظالم ہورہے
تھے یعقوبی عیسائیوں نے بھی عربوں کو اپنے نجات دہندوں کی حثیت سے ہاتھوں
ہاتھ لیا مسلمانوں کی سب سے اہم جدت جس کا یعقوبی عیسائیوں نے دلی خوشی سے
استقبال کیا یہ تھی کہ ہر مذہب کے پیروؤں کو ایک خود مختار وحدت قرار دیا
جائے اور اسی مذہب کے روحانی سرداروں کو ایک بڑی تعداد میں دنیاوی اور
عدالتی اقتدارات عطاء کئے جائیں)
اور صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے
تمام مذاہب کے ماننے والوں کو آپس میں بھائی اور امت واحدہ قرار دیا۔[الناس
کلھم اخوہ] یعنی سب لوگ بھائی بھائی ہے۔ اور دوسری جگہ فرمایا [انھم امتہ
واحدہ] وہ سب ایک امت ہے ۔ اور اسی وجہ سے ہر مذہب کے عبادت خانوں،عبادت کے
طریقوں اور مذہبی پیشواؤں کی حفاظت کی گئی۔ چنانچہ حکم یہ تھا (کہ یہودیوں
اور عیسائیوں کے عبادت خانے نہ گرائے جائے ، یہ لوگ رات اور دن میں جب چاہے
ناقوس بجائیں، اور اپنی عید کے دن صلیب نکالنے سے نہ روکے جائیں ، اور نہ
کسی پادری کو اس کے موقف سے کسی راہب کو اس کی رہبانیت سے اور نہ کسی کاہن
کو اس کی کہانت سے ہٹایہ جائے۔ اور نہ کسی پر کسی قسم کی کوئی سختی یا تنگی
کی جائے)اور ان کے منہدم شدہ معبد حکومت کی جانب سے تعمیر کئے جاتے
تھے۔چنانچہ علامہ مقریزی تاریخ مصر میں لکھتے ہے (عبداللہ بن لہیعہ اور لیث
بن سعد کے مشورے سے کل عبادت خانے حکومت کی جانب سے بنا دیئے گئے ان دونوں
نے کہا کہ یہ تو شہر کی عمارتیں ہے اور دلیل پیش کی کہ یہ سب اسلامی حکومت
صحابہ وتابعین کے زمانے میں تعمیر کئے گئے) اور ان کے باقی اموال کے بارے
میں "درالمحتار"جو فقہ اسلامی کی ایک بڑی کتاب ہے اس میں لکھا ہے (کہ اگر
کوئی مسلمان غیر مسلموں کی شراب اور خنزیر تک کو ضائع کردے تو اس کی قیمت
ادا کرنی پڑی گی)اور اس کے ساتھ ساتھ ہر ایک کے پرسنل لاء اور کلچر کی
حفاظت کی ضمانت دی گئی۔ جس کی عبارت کچھ یوں ہے (یہ لوگ اپنی شہادت کے
احکام ، نکاح کے احکام، معاملات و وراثت کے قوانین اور دوسرے تمام ذاتی
معاملات میں آزاد ہونگے)
قارئین ان تصریحات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے اپنے دور اقتدار میں
دیگر مذاہب کو جس قدر آزادی دی تھی موجودہ دور کی ترقی یافتہ سیکولر اور
غیر سیکولر حکومتیں اس کا تصور بھی نہیں کر سکتی ۔ لیکن ان سب کے باوجود
صاحب فہم حضرات کے ذہن میں یہ سوال ضرور اٹھے گا کہ اگر دین اسلام (open
minded)اتنا وسیع النظر اور مساوانہ تھا تو پھریہجزیہ لینے کا کیا تصور تھا؟
تو اس مسئلے کو ان آسان الفاظ میں سمجھ لیجیئے۔ (کہ جس قوم پر غلبہ پانے کے
بعد جب ان کی جان و مال کی حفاظت مقصود ہوتی تب ان سے جزیہ کا مطالبہ کیا
جاتا تھا " ورنہ نہیں " یہ کوئی مذہبی ٹیکس نہیں تھا۔ یہ صرف ایک معاہدہ
ہوتا تھا کہ مسلمانوں پر آپ کی دفاع اس وقت تک لازم ہے جب تک آپ اپنی مرضی
سے جزیہ دینگے ) اور ان تمام تدبیروں پر عمل کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسرے
مذاہب والے خود مختار وحدت میں تبدیل ہو کر مسلمانوں کے دوست بن گئے۔ جس کا
اعتراف ایک نسطوری پادری نے ان الفاظ میں کیا تھا (یہ طائی "عرب" جنہیں خدا
نے اجکل حکومت عطاء فرمائی ہے وہ ہمارے بھی مالک بن گئے ہے لیکن وہ عیسائی
مذہب سے بلکل برسرپیکار نہیں ہے بلکہ اس کے بر خلاف وہ ہمارے دین کی حفاظت
کرتے ہے اور ہمارے گرجاؤں کلیساؤں کو جاگیریں عطاء کرتے ہیں)
قارئین۔اس پوری بحث اور اتنی دلائل کو پیش کرنے سے حاصل یہ ہے۔ کہ مسلمانوں
اللہ تعالی کے دین کوبلکل اسی مفہوم میں سمجھو جس مفہوم میں اللہ نے اس دین
کو اتارا ہیں۔ اور اپنی طرف سے اس میں تنگ نظری کا مظاہرہ نہ کریں۔ کیونکہ
اسلام ایک عالمگیر دین ہے۔اس میں انسانیت کے لئے امن اور بقاء ہیں۔اور
مسلمانوں آج اس دین کو ایسی شکل میں پیش نہ کریںکہ جس سےاورلوگدور بھاگے
اور کل بروز محشر پروردگار عالم کی عدالت میں یہ دعوی کرے کہ "مالک" تو نے
جس دین کو ہمارے لئے اتارا تھا ہم نے اس کا مسلمانوں کے اعمال پر قیاس کر
کے انکار کیا تھا۔
اور میری آخری گزارش امت مسلمہ کے حکمرانوں سے یہ ہیں کہ عزیزانمنآپ جائیں
اور دنیا کی اسٹیج پر کھڑے ہو کر بغیر پس و پیش کے برملا یہ بات کہے کہ جب
دنیا کا اقتدار مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھا۔ اس وقت مسلمانوں نے تم پر کتنے
احسانات کئے تھے۔ اور اس کے بدلے میں آج تم مسلمانوں پر کیا کیا مظالم
ڈھائے جارہے ہو۔ |