شکریہ

رات رات بھر دنیا کے سب سے بڑے انسان ، وجہِ تخلیق انسانیت، مومنین پر خالق کے احسانِ عظیم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے عبادت میں گزار دیتے۔ ایک رات ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول آپ کے تو اگلے پچھلے گناہ آپ کے رب نے بخش دیے ہیں۔ آپ پھر بھی اتنی مشقت کرتے ہیں؟ اس پر ممدوح ملائکہؐ گویا ہوئے: افلا اکون عبداً شکُورا، یعنی کیا میں (اپنے رب کا) شکرگزار بندہ نہ بنوں(متفق علیہ)۔حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ کی روایت میں ہے کہ حضورؐ نماز میں مصروف رہتے یہاں تک کہ پاؤں سوج جاتے (بخاری)۔ گویا جس قدر انعامات ربانی زیادہ ہوں اسی طور شکر گزاری کا جذبہ بھی بڑھنا چاہیے۔

شکر بنیادی طور پر نعمتوں کی قدر کرنے کو کہتے ہیں۔ نعمتوں پر شکر کرنا نعمتوں میں اضافے کاسبب بنتا ہے ۔ خود اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ لَئِن شَکَرتُم لَا زَیِدَنکُم وَ لَئِن کَفَرتُم اِنَ عَذَابِی لَشَدید، اگر تم شکرکرو گے تو میں تمہیں مزید دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔ (سورۃ ابراہیم،آیت 7)۔ ایک اور مقام پر اللہ فرماتا ہے مَا یَفعَل اللہُ بِعَذَابِکُم اِن شَکَرتُم وَ اٰ مَنتُم، اور اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اگر تم شکر کرواور ایمان لاؤ (سورۃ النساء ، آیت 147)۔اللہ تعالی کا شکر ادا کرنے کے تین درجات ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ کی نعمتوں کے نعمت ہونے کا احساس دل میں پیدا ہو۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ اس احساس کے پیدا ہونے پر انسان اپنی زبان سے بھی اللہ کا شکر ادا کرے۔ اور تیسرا درجہ یہ ہے کہ زبان کے علاوہ اپنے عمل سے بھی شکر ادا کرے۔
شکر گزار انسان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ وہ جہاں بھی ہے اور چاہے کم وسائل رکھتا ہے وہ بہتری اور ترقی کی طرف جا سکتا ہے۔شکرگزار انسان حالات کا رونا رونے اور شکوہ شکایت کے رویے کی بجائے مثبت سوچ رکھتا ہے۔اسے اپنے پاس ڈھیروں نعمتیں دکھائی دیتی ہیں اور یہی چیزاسے اعتماد دیتی ہے۔ وہ خود کو حقیر اور بے قیمت نہیں سمجھتا۔ شکرگزاری مثبت ارتعاش رکھتی ہے۔ شکرگزار شخص اپنی طرف مثبت خیالات، چیزوں اور لوگوں کو متوجہ کر لیتا ہے۔ وہ اپنے مثبت رویے سے ایک مقناطیسی قوت حاصل کر لیتا ہے اور اپنی خوشیوں، صحت، خوشحالی اور کامیابیوں میں اضافہ کرنے لگتا ہے۔ کچھ مزید حاصل کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ جو نعمتیں آپ کے پاس پہلے سے موجود ہیں ان کی قدر کی جائے۔ شکوے کرتے رہنے کی عادت انسان کو بہترین ماحول میں بھی خوش نہیں رہنے دیتی بلکہ شکایات کرنے والا ہر چیز میں نقص نکالتا اور ناشکری کرتا دکھائی دیتا ہے۔

شکرگزار اپنے ذہن میں ایک ایسی کائنات کا تصور رکھتا ہے جو اس کی کامیابی اورترقی میں مدد دینے کے لیے ہروقت تیار ہے۔ معروف کتاب الکیمسٹ کے لکھاری پائیلوکوئیلو اسے اس طرح بیان کرتا ہے کہ جب کوئی شخص کسی چیز کو حاصل کرنے کی کوشش شروع کر دیتا ہے تو تمام کائنات اس کی معاون بن جاتی ہے۔ شکرگزار شخص کو کائنات میں فراوانی نظر آتی ہے ۔ اسے خود بھی اپنی ترقی کا یقین ہوتا ہے اور وہ دوسروں سے بھی حسد نہیں کرتا بلکہ ان کی ترقی سے خوش ہوتا ہے۔ اصل شکرگزاری اپنے عمل سے شکرگزار بننا ہے۔ حقیقی شکرگزار انکساری کا رویہ اپنا لیتا ہے ۔ وہ دوسروں کا ہاتھ پکڑتا ہے اور انہیں بھی کامیابی میں مدد دیتا ہے۔ بہترین سوچ یہ ہے کہ جو لوگ آپ کی ترقی اور کامیابی میں معاون بنتے ہیں، آپ کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں، ان کی قدر کی جائے، ان کا شکریہ ادا کیا جائے۔

کامیاب اور مطمئن لوگ شکرگزاری کی دولت سے مالامال ہوتے ہیں ۔ یہ رویہ ان کی زندگی میں سب سے نمایاں ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ کامیابی ملنے پر ان لوگوں سے لاتعلق ہوجاتے ہیں جو ان کی ترقی میں مددگار رہے ہوتے ہیں۔ یہ رویہ ان کی ترقی کا عمل روک دیتا ہے۔ مسلسل ترقی کا راز شکرگزاری میں ہے۔ انسان کے پاس ان گنت نعمتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بغیر مانگے عطا کی ہیں ۔ ان نعمتوں پر شکر گزار ہونا چاہیے ۔

شکرگزاری کی بہترین حالت ان نعمتوں کو لوگوں کے فائدے کے لیے استعمال کرنا ہے۔ کیونکہ حدیث نبویؐ کے مطابق خیر الناس من ینفع الناس، تم میں سے بہترین وہ ہے جو لوگوں کے لیے نفع بخش ہے(الطبرانی)۔ شکران نعمت نعمتوں میں اضافے کا جبکہ کفران نعمت نعمتوں میں کمی کا باعث بنتا ہے۔ہمارے ہاں بہت کم شاگرد تعلیم دینے والے اساتذہ کا ، بہت کم بچے پالنے پوسنے والے والدین کا شکریہ ادا کرتے ہیں یہی شکریے کا فقدان ہمیں دیگر رشتوں میں بھی نظر آتا ہے۔ جہاں تک شکر یہ ادا کرنے کا تعلق ہے تو ہم حسب معمول اور حسب توفیق انتہائی کنجوسی سے کام لیتے ہیں۔ ترقی یافتہ اقوام کو اگر دیکھا جائے تو وہ انتہائی فراخ دلی سے اور چھوٹی سے چھوٹی بات پر ایک دوسرے کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

ہم انسانوں کا شکر ادا کرنا تو دور کی بات اللہ تعالیٰ جس نے ہمیں ہر قسم کی ان گنت نعمتوں سے نوازا ہے اس کا بھی شکر ادا نہیں کرتے۔ اگر ہم انسانوں کا شکر ادا نہیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ کا کیسے ادا کریں گے۔ حدیث مبارکہ ہے من لم یشکرالناس لم یشکراللہ، جو انسانوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکرگزار بھی نہیں بنتا(بخاری، ابو داؤد)۔ ضرورت اس چیز کی ہے کہ اللہ کا شکر ادا کیا جائے کیونکہ اس نے ہمیں ان گنت نعمتوں سے نوازا ہے اور ہر اس شخص کا شکریہ ادا کیا جائے جو ہمارے لیے کسی بھی اعتبار سے بھلائی کا سبب بنے، کوئی نعمت بانٹے یا کوئی خیر کی خبر دے۔

نشیب و فراز زندگی میں آتے رہتے ہیں ۔ شکرگزاری افسردگی اور مایوسی کی کیفیت سے نکلنے میں مدد دیتی ہے۔ معروف لکھاری ہیلن کیلر کہتی ہیں " میں اکثر سوچتی ہوں کہ اگر ہر انسان چند دن کے لیے بصارت اورسماعت سے محروم ہو جائے تو یہ اس کے لیے بہت بڑی نعمت ہوگی۔ اندھا پن اسے احساس دلائے گا کہ وہ اپنی دیکھنے کی صلاحیت کے لیے شکرگزار بنے اور بہرا پن اسے سکھائے گا کہ آوازیں سن سکنے کا تجربہ کتنا پر مسرت ہے"

شکر گزاری ایک ایسا جادو ہے جو عام کھانے کو خاص اور صحت بخشبنا دیتا ہے ، جومکان کو گھر بنا دیتا ہے، جو اجنبیوں کو دوست بنا دیتا ہے۔ تحقیقات سے ثابت ہے کہ اگر آپ ظاہری شکرگزاری اپنا لیں تو اس سے بھی جسم میں خوشی اور اطمینان سے تعلق رکھنے والے کیمیکلز سیروٹونن اور ڈوپامائن کی مقدار میں اضافہ ہو جاتا ہے اور اس بات کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے کہ یہ اداکاری آپ کو حقیقی شکرگزاری تک لے جائے۔ اسی طرح یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ اپنے پاس موجود نعمتوں کی خود کو یاددہانی کرواتے رہتے ہیں وہ زیادہ خوش رہتے ہیں۔ شکر گزاری جب ہماری ذات کا حصہ بن جاتی ہے تو ہم ایک شاندار اور خوشگوار زندگی گزارنے لگتے ہیں ۔ یہ عادت ہمارے لیے نعمت کی قدر کا ذریعہ بنتی ہے۔

Malik Khan Sial
About the Author: Malik Khan Sial Read More Articles by Malik Khan Sial: 48 Articles with 38370 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.