ڈاکٹر کلن مشرا نے ایڈوکیٹ للن بجرنگی سے پوچھا بھائی تم
نے اپنےپردھان سیوک کا نیا شوشہ سنا ؟
للن بولا بھائی آج کل چناو کا موسم ہے اس لیے ان کو ہرروز ایک نیا جملہ
بولنا پڑتا ہے۔ آپ کس بیان کا ذکر کررہے ہیں؟
وہی جو انہوں نے چھتیس گڈھ والا کہ’’کچھ رہنما تو جھوٹ کی مشنہ کی طرح ہںر
جب بھی منھ کھولتے ہںک دھڑ ا۔ دھڑ ، اے کے :۴۷ کی طرح جھوٹ نکلنا شروع ہو
جاتا ہے۔
للن چونک کر بولا کہیں خود اپنے بارے میں تو انہوں نے یہ اعتراف نہیں کرلیا
۔
نہیں بھائی وہ اتنے بڑے بیوقوف تھوڑی نا ہیں ۔ انہوں نے یہ بات حزب اختلاف
کے رہنماوں کے بابت کہی ہے۔
ایڈوکیٹ للن بجرنگی نے ہنس کر کہا ڈاکٹر صاحب آپ بھی بہت بھولے ہیں ۔
کیوں اس میں میرا بھولا پن کہاں سے آگیا ؟
اور نہیں تو کیا ۔ آج کے زمانے میں بھی اگر کوئی ان کے انتخابی جملوں پر
یقین کرنے لگے تو اس کو بھولا ہی نہیں بے وقوف بھی سمجھا جاتا ہے۔
کیسی باتیں کرتے ہو للن وہ دیش کے پردھان منتری ہیں ؟
اس سے کیا فرق پڑتا ہے آپ بھی تو پیشے کے اعتبار سائنسداں ہونے کے باوجود
تفریح کے لیےسیاسی کہانیاں لکھتے ہی ہیں؟
ارے بھائی للن بجرنگی، جب ہمارے پردھان سیوک سیاسیات میں ایم اے کرنے کے
بعد سائنس فکشن کہہ سکتے ہیں تو میں ۰۰۰؟
للن بات کاٹ کربولا آپ جیسا پڑھا لکھا آدمی بھی ان کی ڈگری کو اصلی
مانتاہے؟ تعجب ہے!
کیوں ؟ وہ ڈگری تو خود وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے صحافیوں کے سامنے پیش کی
تھی۔
بھائی کس نے پیش کی یہ تو آپ نے دیکھا لیکن اس میں کیا تھا یہ نہیں دیکھ
پائے ۔
جی یہ تو تم جیسے وکیلوں کا کام ہے کہ اس کی جرح کر کے دودھ کا دودھ اور
پانی کا پانی کریں ۔
جرح کیا کرتے ؟ ڈگری پر نام ایسےکمپیوٹر فونٹ سے لکھا تھا جو اس وقت ایجاد
ہی نہیں ہوا تھاجبکہ اس دورمیں نام ہاتھ سے لکھا جاتا تھا ۔
ڈاکٹر کلن نے کہا ارے بھائی عوام کی خدمت کے لیے جس نے بیوی کو تیاگ دیا اس
سے اصلی ڈگری بھی کھوگئی ہوگی ۔پھر بعد میں جب نقل لینے کے لیے یونیورسٹی
سے دوبارہ رجوع کیا تو انتظامیہ نے کمپیوٹر سے نام لکھ کر دے دیا ۔ اس میں
کون سی بڑی بات ہے؟
تب تو نئی تاریخ اور نئے وائس چانسلر کے دستخط ہونے چاہیے تھے ۔ کیا جیٹلی
سورگ سے پرانے وائس چانسلر کے دستخط لے آئے ؟
یار مجھ جیسا ڈاکٹر تم وکیلوں سے بحث میں نہیں جیت سکتا خیر یہ بتاو کہ تم
نے میرے مادرعلمی آئی آئی ٹی میں مودی جی کی بیان کردہ کہانی سنی یا نہیں
؟
میں نے سنا تھاآئی آئی ٹی کے اندرعمرانیات کے شعبہ میں فلسفہ پڑھایا جاتا
ہےلیکن یہ ادبکا شعبہ مودی جی نے کھلوا دیا کیا؟
بھائی مودی جی کے بس میں ہوتو وہ آئی آئی ٹی بند کروا دیں لیکن کیا ہے کہ
تقسیم اسناد کی تقریب میں ڈگریاں بانٹنے کے لیےانہیں جانا پڑا تو اپنے خطاب
میں دو کہانیاں بھی پھینک آئے۔
اچھا خیر کہانی سناو ڈاکٹر صاحب مجھے یقین ہے کہ وہ کہانی بھی گجراتی
ڈھوکلا اور پاپڑی جیسی لذیذ اور چٹپٹی ہوگی۔
جی ہاں اس کھٹی میٹھی کہانی کا نام ہے آم کے آم گٹلیو ں کے دام ۔
کیا یہ نام مودی جی نے رکھا ؟
جی نہیں یہ ہم جیسے قارئین اور سامعین کی جرأت رندانہ ہے ۔
لیکن مودی جی کو یہ کہانی کس نے سنائی ؟
وہ تو کہہ رہے تھے کہ اخبار میں پڑھا ہے۔
مودی جی اخبار بھی پڑھتے ہیں ؟ حیرت ہے اور اخبار کے اندر بھی کہانی پڑھتے
ہیں ! اس سے زیادہ تعجب کی بات اور کیا ہوسکتی ہے؟
ارے بھائی کہانی نہیں تو خبر سمجھ لو۔ کیا فرق پڑتا ہے ویسے بھی اخبار والے
انگریزی میں ہر خبر کو اسٹوری یعنی کہانی کہتے ہیں جیسے کور اسٹوری ۔
اچھا خیر کہانی یا خبر جو بھی ہے سناو گے بھی یونہی پردھان جی کی طرح ٹائم
پاس کرتے رہوگے؟
لو سنو،ایک گٹر کے کنارے کوئی لڑکا چائے بیچتا تھا ۔ اس نے گٹر پر ایک برتن
رکھا اور اس سے پائپ جوڑ کراس گیس سے چائے بنانے لگا۔
للن وکیل سوچ میں پڑ گیا اور پھر بڑے غورو تدبر کے بعد بولا مجھے تو یہ
تجریدی جدید کہانی لگتی ہے ۔
یہ کہانی کون سی نئی قسم ہے؟ ڈاکٹر کلن نے سوال کیا
ارے بھائی علامتی سوانح حیات کہہ لو اور کیا ؟ مودی جی نے بڑے لطیف انداز
میں اپنے بچپن کے پھول کھلا دیئے۔
یار عجیب آدمی ہو نالے کے گندے پانی میں سے تو بدبو آتی ہے اور پھولوں
میں خوشبو!یہ تم کیا کہہ رہے کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔
ارے ڈاکٹر صاحب آپ جیسا روایتی کہانی لکھنے والا بندہ کیا جانے کہ تجریدی
ادب کیا ہے اور اس پر مابعدجدیدیت کا تڑکا لگ جائے تو وہ کیا ہوجاتا ؟
ڈاکٹرکلن مشرا بگڑ کر بولے کیا ہوجاتا میں نہیں سمجھا ؟
یہ سمجھ لو کہ ڈھوکلا شیزوان یا بھجیا پیزا جیسی کوئی چیز بن جاتی ہے۔
لیکن تم جو علامات کا ذکر کررہے تھے وہ کیا ہیں ؟
ان تک رسائی کے لیے پہلے آپ کو اس بات کی تحقیق کرنی پڑے گی کہ وہ نالا
کہاں سے آرہا تھا اور کہاں جارہا تھا نیز بیچ میں چائے والا کون تھا؟
کلن بیزار ہوکر بولا دیکھو بھائی میرے پاس یہ سب پتہ لگانے کی فرصت نہیں ہے
اس لیے اگر تمہیں پتہ ہے تو بتادو ورنہ جانے دو ۔
بھائی ہم وکیل لوگوں کو ہمارے روی شنکر پرساد کی طرح سب پتہ ہوتا ہے ۔
دراصل وہ نالا آرایس ایس کے دفتر سے ہوتا ہوا جن سنگھ کے دفتر میں
جارہاتھا ۔ درمیان اس کا سابقہ ہمارے ننھے منے مستقبل کےپردھان سیوک سے
پڑگیا جس نے اس کے استعمال سے اپنی چائے کی دوکان چمکالی ۔
اچھا تو پھر وہ گیس کس بات کی علامت ہے؟
وہ دراصل سنگھ کا فسطائی نظریہ ہے جو نالے سے نکل کر پورے ملک میں پھیل گیا
ہے ۔
مگر یہ چمتکار ہوا کیسے ؟
بھائی یہ ذرائع ابلاغ کا کمال ہے۔ پہلے چائے والے نے اس گیس سے اپنی دھندا
چمکایا اب چینل والے اپنا چکلاچلا رہے ہیں۔ کیا تم نے نہیں سنا کہ بی جے پی
نے اشتہار بازی میں ملک کے سارے صنعتکاروں کو مات دے دی ہے۔
دیکھو بھائی میں وکیل آدمی ہوں بنا ثبوت کوئی بات نہیں مانتا۔
یہ خبر تو سارے اخبارات میں چھپ چکی ہے کہ ۱۰ نومبر سے شروع ہونے ہفتہ میں
بی جے پی نے ٹیلی ویژن پر مرتبہ اشتہار دیا جبکہ دوسرے نمبر کی نیٹ فلکس نے
صرف ۱۲۹۵۱ بار اشتہار دیا۔کانگریس تو پہلے دس میں بھی نہیں تھی۔
کیا اب بھی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ بدبو دار گیس خوشبودار بادِ نسیم کیسے
بن گئی؟ اس پر نہ صرف بغیر ایندھن کے چائے بنتی ہے بلکہ چینل بھی چلتا ہے۔
اچھا تواب دوسری کہانی کا مطلب بھی سمجھا دیجیے گرودیو للن بجرنگی مہاراج ۔
للن بولا آپ تو شرمندہ کرتے ہیں ڈاکٹر صاحب ۔ میں تو کالے کوٹ والاایک
معمولی وکیل ہوں ۔
تمہارا کوٹ تاریک مگر دماغ روشن ہے۔ مجھے یقین ہے مودی جی جانے سے قبل
تمہیں ادبی تنقید کے گیان پیٹھ اعزاز سے نواز کر جائیں گے ۔
کلن بولا آپ میرا مذاق اڑا رہے ہیں خیرپردھان جی کی دوسری کہانی سنائیے جو
انہوں نے کسی اخبار میں پڑھی تھی۔
وہ اخبار کی کہانی نہیں بلکہ ان کا اپنا مشاہدہ ہے۔
بہت خوب تب تواور بھی مزیدار ہو گا۔
مودی جی نےدیکھا کہ ان کے کنووئے(کارواں) کے آگے ایک شخص اسکوٹرپرچلا
جارہا ہے۔
یار پردھان سیوک کو بیوقوف بنانے کے لیے تمہیں ملے تھےکیا؟
کیوں ؟
وزیراعظم کے کارواں سے قبل پوری سڑک بند کردی جاتی ہے ۔ وہاں اسکوٹر تو دور
چڑیا بھی پر نہیں مارسکتی۔
ارے بھائی ہم اپنے پردھان سیوک پر کیسے شبہ کرسکتے ہیں ۔ انہوں نے دیکھا تو
دیکھا ۔ اب اس پر بحث کرنے سے کیا حاصل ؟
اچھا تو چشم تصور میں دیکھ لیا ہوگا خیر یہ بتاو کہ اور کیا دیکھا ؟
یہ دیکھا کہ اسکوٹر پر ٹریکٹر کے پہیے کا ٹیوب لے جایا جارہا ہے۔
کیا بات کرتے ہیں ڈاکٹر صاحب ٹریکٹر پر اسکوٹر کا پہیہ تو دور اسکوٹر بھی
جاسکتا ہے لیکن اسکوٹر پر ٹریکٹر کاپہیہ بات سمجھ میں نہیں آ ئی ۔
ممکن ہےکہانی کودلچسپ بنانے والا ٹوِ سٹ ہومثلاً انسان کو کتا کاٹ لے تو
معمولی بات ہے مگر کتے کو انسان کا کاٹ کھانا بریکنگ نیوز بن جاتا ہے۔
یہ تو کہانی کی ابتدا ہے اس کا درمیانہ اور اختتام کیا ہے ؟
بھائی درمیان میں مودی جی اس سے پوچھتے ہیں یہ کیا لے جارہو اور اختتام میں
وہ جواب دیتا ہے یہ میرے گھر کے کوڑا کرکٹ اور مویشیوں کے گوبر کی گیس ہے
جو میں اس ٹیوب میں بھر کے کھیت لے جارہا ہوں ۔ بس کہانی ختم۔
للن بولا یہ تو نہایت سہل اورابہام سے پاک بیانیہ افسانچہ ہے اس میں کیا
بات ہے جو آپ کی سمجھ میں نہیں آئی؟
پہلے تو ایک تھی مگر اب تین باتیں ہوگئی ہیں۔ اول تو اس میں کہانی کیا ہے
اور دوسرے افسانچہ کسے کہتے ہیں ؟
کلن ہنس کر بولا آپ کے دونوں سوالات کا مشترک جواب یہ ہے افسانچہ دراصل
افسانے کا وہ معصوم بچہ ہے جو اکثر کہانی سے ناواقف ہوتاہے۔
ہاں تو تیسرا اور اصلی سوال یہ ہے کہ گیس کی ضرورت تو گھر میں کھانا وغیرہ
بنانے کے لیے ہوتی ہے ۔ وہ بے وقوف کسان اسے ٹیوب میں بھر کر کھیت کے اندر
کیوں لے جارہا ہے؟ میرا مطلب ہے کھیت میں اس کا کیا کام ؟
پردھان جی نے یہی سوال اس اسکوٹر والے سے پوچھا ۔
خود پوچھا ؟ کمال ہے ۔
جی ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے خود یہ سوال پوچھ لیا ۔
تب تو وہ شخص بے ہوش ہوگیا ہوگا ؟
جی نہیں اس نے بتایا کہ وہ گوبر گیس سے اپنا پمپ چلاتا ہے۔ میری سمجھ میں
نہیں آتا کہ گیس سے پمپ کیسے چل سکتا ہے؟
للن بولا ڈاکٹر صاحب اس ڈیجیٹل دور میں کھیت کے اندر گوبر گیس کے بڑے فائدے
میں نے پڑھےہیں۔ جس طرح اس کے گھر میں گوبر گیس کا پلانٹ ہے ممکن ہےاس نے
کھیت میں گیس سے بجلی بنانے والا کارخانہ لگا رکھا ہویعنی اس بجلی گھر میں
ایندھن کے طور پر گوبر گیس استعمال ہوتی ہو؟
لیکن کسان تو شام میں گھر آجاتا ہے۔ دن میں وہ اس بجلی کا کیا کرے ؟
بہت سے کام ہیں ۔ جیسے ایک تو اس نے پردھان سیوک کو بتا دیا کہ اپنا پمپ
چلا کر بجلی کا بل بچاتاہے۔ ہوسکتا ہے ٹریکٹر کی بیٹری بھی چارج کرتاہو۔
ٹریکٹر کی بیٹری ؟ یہ تو کبھی نہیں سنا ۔
ارے بھائی جب بیٹری والا آٹورکشا ہو سکتا ہے تو ٹریکٹر کیوں نہیں ہوسکتا؟
ہونے کو تو کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن کیا ایسا ہے؟
جی ہاں جیسا آپ نے کہا کچھ بھی ہوسکتا تو ممکن وہ اپنی جھونپڑی کا ایر
کنڈیشن بھی اسی چلاتا ہو۔
جھونپڑی میں ائیر کنڈیشن ؟ کیا تمہارا دماغ خراب ؟
آج کل بنک سے قرض لے کر آپ اے سی کے علاوہ ٹیلیویژن بھی قسطوں پر لے سکتے
ہیں اور اس پر بڑے مزے سے مودی جی کے درشن کرسکتے ہیں
ارے بھائی کسانوں سے پردھان جی من کی بات ریڈیو پر کرتے ہیں۔ کیا سمجھے ؟
ایسا نہیں ہے۔ پردھان جی کے من کی بات ریڈیو کے علاوہ موبائل پر بھی سنائی
دیتی ہے اس لیے وہ کسان موبائل بھی چارج کرتا ہو گا۔
اب بس کرو بھائی تم کہو گے کہ کسان یو ٹیوب بھی دیکھتا ہوگا ؟
کیوں نہیں ؟ کیا کسانوں کو یوٹیوب پر مودی جی کے لطیفے پڑھنے کا حق نہیں
ہے؟ویسے مودی جی نے سماجی رابطے کے ایک اور قصے کا بھی ذکر کیا تھا۔
اچھا وہ کیا تھا ؟
انہوں نے سوشیل میڈیا میں دیکھا کہ کسی افریقی ملک کے لوگ سارا پلاسٹک جمع
کرکے ندی کنارے لے جاتے ہیں۔ وہاںاس کو جلا کرریت میں ملا تے ہیں تا کہ
اینٹ بناکر بیچ سکیں۔ وہی آم کے آم گٹھلیوں کے دام ۔ آلودگی کا خاتمہ
اور اوپر سے کمائی۔
لیکن پلاسٹک جلانے سے جو فضائی آلودگی پھیلتی ہے اس کا کیا؟
ہو ا، ہوائی۔ مودی جی ان فضول باتوں پر توجہ نہیں دیتے۔
لیکن پگھلتے ہوئے پلاسٹک کو ریت میں ملانے سے ان کے ہاتھ نہیں جلتے ؟
اس سوال کا جواب تو پردھان جی ہی دے سکتے ہیں۔
یار مجھے تو یہ سب طلسمی دنیا باتیں لگتی ہیں ۔
مودی جی بھی تو طلسماتی آدمی ہیں اور اپنی بوتل میں امیت شاہ کا جن رکھتے
ہیں جنہیں وقتِ ضرورت باہر نکال لیا جاتا ہے۔
یار للن وہ تو ٹھیک ہے لیکن کسان اگر اپنا وقت ان کاموں میں صرف کردے تو ہل
کون جوتے گا ؟ فصل کون کاٹے گا؟؟
کلن بولا آپ نہیں سمجھے کسان اگر یہ سب کرنے لگے تو خودکشی کیسے کرے گا؟
وہ بھی تو ضروری ہے۔
کیابات کررہے ہو للن بجرنگی ۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا ۔
میرے دوست ڈاکٹرکلن سن لو۔ سیاستدانوں کے لیے کسانوں کا قرضدار ہونا اور
خودکشی کرنا دونوں لازمی ہیں ۔ اسی توے پر یہ لوگ بغیر کسی گیس کے اپنی
سیاسی روٹیاں سینکتے ہیں اور حلوہ پراٹھا کھاتے ہیں ۔
یار للن میرا تو ناقص مشورہ یہ ہے کہ تمہیں عدالت میں وکالت چھوڑ کر مودی
جی کا وکیل بن جانا چاہیے ۔
کیا بات کرتے ہیں ڈاکٹر صاحب؟ فی الحال کس کی مجال ہے جو مودی جی کے خلاف
شکایت درج کرانے جائے؟ اور کون تھانیدار ایسا بہادر ہے کہ ایف آئی
آرلکھنے کی جرأت کرے ؟؟ نیز کس جج میں ہمت ہے کہ وہ اس مقدمہ کی سماعت
کرے؟ اس لیے مودی جی کو کسی وکیل کی چنداں ضرورت نہیں ۔
میں تم سے صد فیصد اتفاق کرتا ہوں مگر انہیں ۲۰۱۹ کا انتخاب جیتنے کے لیے
ایسی اوٹ پٹانک کہانیوں کی ضرورت ہےجسے تم بنا اور سمجھا سکتے ہو۔
جی نہیں مذکورہ گیس نے ان کے دماغ کو اتنا زرخیز کردیا ہے کہ اس سے خود رو
جھاڑ جھنکاڑ کی طرح کہانیاں نشر ہوتی ہیں ۔ ہمارا کام تو انہیں سن کر سر
دھننا ہے ۔ بس ۔ للن اے کے ۴۷ کی طرح دھڑ ا دھڑ بولے جارہا تھا۔ |