نیا امتحان

19 نومبر کو چیف آف آرمی سٹاف نے بیان دیا تھا کہ ملک میں مذہبی، مسلکی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کی کوششوں کے خلاف ایک نئے بیانئے کی ضرورت ہے۔

اس سال 16 جنوری کو ایوان صدر میں ایک اجلاس ہوا تھا جس میں ملک کے تمام مسالک ، وفاق ہائے مدارس کے نمائندے ، علماء کرام اور مشائخ عظام شریک ہوئے تھے۔ انھوں نے ایک اجتماعی بیان یا فتویٰ بھی جاری کیا تھامگر بوجہ اس کے متوقع نتائج سے قوم بہرہ مند نہ ہوسکی۔ اس کے بعد 19 نومبر کو چیف آف آرمی سٹاف نے بیان دیا تھا کہ ملک میں مذہبی، مسلکی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کی کوششوں کے خلاف ایک نئے بیانئے کی ضرورت ہے۔

ہم اس وقت جس تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں، اس تقسیم کے بعد حکومت پاکستان کی حالت بے دست و پا ہونے جیسی ہے۔ معاشرہ عدم تحفظ کا شکار ہے۔ اور دینی طبقہ وسوسوں کا شکار ہے۔ بے اعتمادی لوگوں کو مایوسی کی طرف لے جا رہی ہے۔مگرپاکستان میں ایک ایسا ادارہ بھی موجود ہے جس نے ہمیشہ تلخ اور جذباتی رویوں کو علمی حکمت وفراست سے تلخیوں کو اعتدال پر لانے میں اپنا کردار مثبت طور پر ادا کیا ہے۔مثال کے طور پر ایک وقت تھا جب مغربی تعلیم سے متاثرہ لوگوں نے پاکستان میں شور بلند کرنا شروع کیا کہ کم عمر بچیوں کی شادی بنیادی انسانی آزادی کے خلاف ہے۔جبکہ مذہبی طبقے کا خیال تھا کہ یہ اسلامی روایات کا حصہ ہے یوں معاشرہ دو بیانیوں مین بٹنے لگا تو یہ ادارہ سامنے آیا۔ اس نے بتایا اسلامی معاشروں میں شادی دو مراحل پر مشتمل ہوتی ہے ایک مرحلے کا نام نکاح اور دوسرے مرحلے کا نام رخصتی ہے ۔

دو سال قبل عدالت کے سامنے یہ مسٗلہ درپیش تھا کہ ڈی این اے ٹسٹ کو بطور عدالتی ثبوت مانا جائے یا نہیں۔ اس پر بھی اس ادارے نے اپنی علمی رائے پیش کی جس کو فریقین نے تسلیم کیا ۔پاکستان میں ایک مقدمے میں ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے تولیدگی کے عمل پر بھی اس ادارے کی سفارشات کو خوشدلی سے قبول کیا گیا۔ اس ادارےکا نام اسلامی نظریاتی کونسل ہے۔

پاکستان بنا تو ملک کو اُس کے اساسی نظریے یعنی اسلام پر اُستوارکرنے کی ضرورت پیش آئی،کیونکہ پاکستان کی پہلی دستورسازاسمبلی میں یہ بحث شروع ہوگئی تھی کہ پاکستان کا دستوراِسلامی ہوگا،یاسیکولر ؟جس پر تحریک پاکستان کے وہ رہنمامتفکرہوئے ،جنہوں نے اسلام کے نام پر اِس نوزائیدہ ملک کی بنیادرکھی تھی۔اُن ہی کے ایماء پر لیاقت علی خان قراردادِ مقاصدکی تیاری پرقائل ہوئے اورماہرین نے دستورسازی کے راہنما اصول کے طورپر قراردادِمقاصدکا مسودہ تیارکیا۔جس میں پاکستان کو اسلامی ریاست قراردیتے ہوئے،اسلامی احکام اورقوانین کی معاشرہ میں ترویج اورعمل داری کا عہدکیاگیاتھا۔ قراردادِ مقاصدکو 7مارچ 1949کو دستور ساز اسمبلی میں پیش کیاگیا۔جسے کافی بحث وتمحیص کے بعد 12اپریل 1949کو اسمبلی نے منظورکرلیا۔ قرارداد مقاصد دستورِ پاکستان میں بالاتر حیثیت کی حامل رہی اور اس میں ضمانت دی گئی تھی کہ ملک کے دستور و قانون کی کوئی شق قرآن و سنت سے متصادم نہیں ہوگی۔اس کے باوجود ملکی آئین وقوانین کو اسلامی صورت میں منتقل کرنے کا مستقل کوئی آئینی ادارہ موجود نہیں تھا ۔اس خلاکو پُرکرنے کے لیے 1962ء میں آئین کے ارٹیکل 204 کے تحت تشکیل دیے گئے اس ادارے کا نام اسلامی مشاورتی کونسل رکھا گیاتھا۔ 1973ءکے آئین میں اس کا نام تبدیل کر کے اسلامی نظریاتی کونسل رکھ دیا گیا۔ قانون پر عمل درآمدکی غرض سے آئین کی دفعہ نمبر 228، 229 اور 230 میں اسلامی نظریاتی کونسل کے نام سے 20 اراکین پر مشتمل ایک آئینی ادارہ تشکیل دیا گیا جس کا مقصد صدر، گورنر یا اسمبلی کی طرف سے بھیجے جانے والے معاملے کا قرآن و حدیث کی روشنی میںجائزہ لے کر 15 دنوں کے اندراپنی سفارشات پیش کرنا ہوتا ہے۔ دستور کی شق نمبر 228 میں یہ کہا گیا کہ اس کے اراکین میں تمام فقہی مکاتب ِفکر کی مساوی نمائندگی ہوگی۔ ممبران کی تعداد کم از کم 8 اور زیادہ سے زیادہ 20 ہوگی جن کا انتخاب صدر پاکستان کریں گے۔ ممبران میں ایسے افراد شامل ہونگے جو اسلامی اصول و فلسفہ کی تعلیم اور معلومات رکھتے ہوں، وہ قرآن و سنت طیبہ ،معیشت اور قانونی و انتظامی امور اور پاکستان کے مسائل سے آگہی رکھتے ہوں۔ دو ممبران سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے جج کی اہلیت اور چار کے لئے کم از کم 15 سال اسلامی تعلیمات و تحقیق کا تجربہ رکھنا لازمی ہے۔ ایک خاتون ممبربھی لازمی ہوگی۔ ممبران کی مدت تین سال رکھی گئی ہے۔

موجودہ اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیل 2016 میں سابق صرر ممنون حسین نے کی ہے جس کے چیرمیں پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب ہیں۔ اس کونسل کا 213 واں اجلاس 27 نومبر کو اسلام اباد میں ہوا جس میں پہلی دفعہ وزارت کے سطح کی دو حکومتی شخصیات نے بھی شرکت کی۔

حکومت اس ادارے کو جو اپنے اپنے شعبے کے ماہرین پر مشتمل ہے کو فعال کر کے اس بند گلی کو کھول سکتی ہے جس میں خود حکومت مزہبی طبقات اور پورا معاشرہ خود کو محصور تصور کرتا ہے۔

کچھ عرصہ سے یہ ادراک حقیقت بنتا جا رہا ہے کہ افراد کی بجائے اصولون کی اور شخصیات کی بجائے اداروں کو متحرک کیا جائے۔ قانون کی حکمرانی کی سمت یہ ایک مثبت اور قابل عمل قدم ہوگا اور وقت کے ساتھ ساتھ عوام بھی شخصیات کی بجائے اداروں اور اصولوں کی پیروی شروع کر دے گی۔

البتہ یہ موجودہ حکومت کی فراست کا امتحان بھی ثابت ہو سکتا ہے ۔ عوام کی خواہش ہے کہ حکومت اس امتحان سے بھی سرخرو ہو نکلے تاکہ حکمران دلجمعی سے عوام کے اصل مسائل کی طرف توجہ دے سکیں
 

Dilpazir Ahmed
About the Author: Dilpazir Ahmed Read More Articles by Dilpazir Ahmed: 135 Articles with 149039 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.