حاجی یونس انصاری بڑے بھائییوں جیسے ہیں اور درحقیقت محبت
بھی بھائیوں جیسی ہی دیتے ہیں ، صبح فون آیا بولے آج پریس کانفرنس کر رہا
ہوں، آپ گھر کے فرد کے طور پر شریک ہوں ، میں نے استفسار کیا حاجی صاحب کس
ایشو پر نیوز کانفرنس کر رہے ہیں ، کہنے لگے شہر کے مسائل پر بات کریں گے،
حاجی صاحب کی اپنائیت میں ڈاکٹر عمر نصیر نے پریس کانفرنس کی اطلاع میڈیا
کے نمائندوں تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیا، بچوں کو سکول سے گھر تک چھوڑنے
کے بعد میں گھر کے قریب ہی واقع حاجی صاحب ی رہائش پر پہنچا تو خلاف توقع
ڈرائینگ روم میں صحافیوں کی بروقت آمد ہو چکی تھی ، حافظ شاہد منیر نے جلدی
نیوز کانفرنس شروع کرادی ، بولے صحافی زیادہ دیر تک کھانے کا انتظار نہیں
کر سکتے جس پر قہقہے پھوٹ پڑے ، آقاﷺ کے غلاموں میں شمار ہونے والے اس
خالصتاََ دینی روایات کے حامل گھرانے کے ایم پی اے حاجی صاحب کے چھوٹے
بھائی چوہدری اشرف علی انصاری نے تلاوت قرآن پاک سے آغاز کیا اور حاجی یونس
انصاری کو دعوت خطاب دی ، حاجی یونس فطری طور پر بڑی سادہ طبیعت کے مالک
ہیں لیکن اس سادگی ، عجزو انکساری کے باوجودجو بات کہنا چاہتے ہوں کہہ
ڈالتے ہیں ، ہچکچاتے نہیں ، ملکی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے
کہاکہ موجودہ حالات میں علمائے کرام کا کردار سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے
کیونکہ وہ منبر پر بیٹھ کر عوام الناس سے مخاطب ہوتے ہیں ، انہیں چاہئے کہ
فرقہ واریت اور باہمی اختلافات کو ہوا دینے کی بجائے اﷲ اور اسکے رسول ﷺ کا
پیغام لوگوں تک پہنچانے میں اپنی توانائیاں صرف کریں ، شہر کے حوالے سے
گفتگو میں انہوں نے برملا اعتراف کیا کہ مجموعی طور پر پچھلے 40برس میں صحت
، تعلیم ، سیوریج اور صاف پانی جیسے بنیادی اہمیت کے شعبوں کے ساتھ انصاف
نہیں کیا گیا اور ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں ، گوکہ انہوں نے انجینئر خرم
دستگیر خان اور اپنے بھائی چوہدری اشرف علی انصاری کا دفاع بھی کیا اور
کہاکہ ان راہنماؤں نے میگا پراجیکٹس لا کر شہرکی محرومیوں کو دور کر نے کی
کوشش کی تاہم ابھی بہت کام ہونا باقی ہے ، انہوں نے بیرسٹر عثمان ابراہیم
کا رکردگی کو غیر تسلی بخش بھی قرار دیا ، اس دوران انہوں نے مسلم لیگ ن کو
خیر باد کہنے کا فیصلہ بھی سنا دیا جو میڈیا کے نمائندوں کے لئے حیرت کا
باعث تھا، حاجی یونس انصاری سینئر راہنماغلام دستگیر خان کے قریبی رفقاء
میں شمار ہوتے ہیں ن لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد کا طویل عرصہ انہی
کے زیر سایہ گزارا ہے ، یقینی طور پر انکے دلبرداشتہ ہو کر لئے گئے اس
فیصلے کی یقینا کچھ ٹھوس وجوہات ہوں گی جن کا ابھی انہوں نے نیوز کانفرنس
میں ذکر نہیں کیا ،تاہم مسلم لیگ ن کو جتنا راقم جانتا ہے وہاں عام طوز پر
گلہ کیا جاتا ہے کہ کارکن کو عزت نہیں ملتی جس کا وہ اصل حقدار ہوتا ہے ،
یہی وجہ ہے کہ پارٹی کے ساری زندگی ساتھ گزارنے والے راہنما بھی نجی محفلوں
میں قیادت کی جانب سے نظرانداز کئے جانے کا ماتم کرتے نظر آتے ہیں ،شہر میں
پارٹی کے کئی چیئرمین ناراض ہو کر پارٹی چھوڑ کر جا چکے ہیں، چیئرمین صابر
محمود علی بٹ کو کارپوریشن کے اجلاس میں ایک عوامی مسئلہ اٹھانے پر بھتے کے
کیس میں ملوث کر کے اسکے خلاف ایف آئی آر کٹو ادی گئی،بعد میں حلقہ بندی
ہوئی تو آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا والا حساب ہوا نتیجہ یہ کہ وہ
دلبرداشتہ ہو کر پارٹی چھوڑ گئے، عمیراشرف سانسی ، کلیم اﷲ خان ،وسیم ملک ،
حمزہ بٹ ، صدیق بٹ سب دور ہو گئے اورانکے حصے کی عزت انہیں نہ ملی اسلئے
کوئی نئی پارٹی میں چلاگیا ،کسی نے صرف الیکشن میں پی ٹی آئی کی سپورٹ کر
کے بدلہ چکا دیا ، یوسی 1میں ن لیگی کارکن عابد جدران ، رانا خالق نے بھی ن
لیگ کو دکھی دل کے ساتھ چھوڑا ہے اسی طرح این اے 82 کے کئی راہنما الیکشن
سے قبل پارٹی کو چھوڑ گئے ، بہت سے خاموش ہو گئے ، ان سینئر راہنماؤں کے
لئے لمحہ ء فکریہ ہونا چاہئے جن کی اولادوں نے اس شہر میں آئندہ کئی نسلوں
تک سیاست کرنی ہے ، حاجی یونس انصاری کی شکل میں مسلم لیگ ن نے ایسے جنگجو
سالار سے ہاتھ دھویا ہے جس کا شاید ابھی قیادت کودرست اندازہ نہیں ہوسکے
گا،وہ ایک انتہائی نڈر، مخلص اور جان نچھاور کرنے والے سیاسی راہنما تھے جو
اس وقت بھی گاڑیوں کا ایک بڑا قافلہ لے کر نلے تھے جب مسلم لیگ ن کا نام
لینا بھی گناہ بن چکاتھا ، انسان دولت اور طاقت ملنے کے بعد بے نقاب ہو جا
تا ہے ، ن لیگ کے راہنماؤں کاتکبر آسمانوں کو چھونے لگا تو زوال شروع ہو
گیا تھا ، چیمبر الیکشن میں بھی نئی صف بندی دیکھنے میں آئی ہے ، ن لیگ کے
بڑے مقامی سیاستدانوں کو اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنا ہو گی ،ویسے بھی مسلم
لیگ ن کے پاس تکبر کرنے کو اب باقی کیا بچا ہے ؟؟؟؟؟؟؟ |