گیارھویں عالمی اردو کانفرنس۔پہلے دن کی کہانی

آرٹس کونسل آف پاکستان گزشتہ دس برسوں سے سالانہ اردو کانفرنس کا انعقاد کرتی چلی آرہی تھی اس بار کانفرنس کی گیارویں کا اہتمام کیا گیا۔ ایک ماہ قبل ہی کانفرنس کے انعقاد کا چرچہ شروع ہوگیا تھا۔ جدید ٹیکنالوجی نے اب مشہوری اور اطلاعات کے آسان، بلا معاوضہ اور تمام تر پابندیوں سے ماورا تشہیر کو عام کردینے کی روایت ڈال دی ہے۔ چنانچہ فیس بک، ٹیوٹر اور دیگر ویب سائٹس پر ایک ماہ قبل فہرست میں تیارہونا شروع ہوگئی کہ کون کون اس کانفرنس میں شرکت کرنے جارہا ہے۔ بات مختصر کرتے ہوئے اصل بات پر آجاتے ہیں۔ ہمیں بھی کئی سالوں سے ادبی پروگراموں میں شریک ہونے کا چسکا لگ چکا ہے، خاص طور پر سرکار ملازمت سے ریٹائرہونے کے بعد رجحان اس جانب زیادہ ہوگیا، پیشہ ورانہ موضوعات کے ساتھ ساتھ ادبی اور صحافتی موضوعات پر لکھنے میں زیادہ دلچسپی ہوگئی۔کالم نگاری زیادہ حاوی آگئی، چنانچہ ادبی موضوعات خاص طور پر علمی و ادبی شخصیات سے کالم نگاری کا سفر شروع ہوئے ایک دہائی ہوچکی۔ ادب اور ادبی شخصیات کے حوالے سے پہلے ’’یادوں کی مالا‘‘، پھر ’’جھولی میں ہیرے اور موتی‘‘ ، اس سال کالموں کامجموعہ ’’رشحات قلم ‘‘جس میں صرف وہ کالم شامل ہیں جو روزنامہ ’جناح‘ میں شائع ہوئے شامل ہیں اشاعت پذیر ہوچکیں ہیں۔

22نومبر2018 کانفرنس کا پہلا دن تھا۔ ہم نے شرکت کا ارادہ کیا ہوا تھا بلکہ فیس بک پر شائع ہونے والی فہرست میں اپنی حاضری بھی لگوادی تھی، ہم چاہتے تو تھے کہ وقت مقررہ سے پہلے پہنچے لیکن پھر بھی عمرکی مجبوری کہیے سستی یا کاہلی دیر ہوہی گئی ،جو وقت افتتاحی اجلاس کے شروع ہونے کا دیا گیا تھا ہم اس وقت اپنے گھر سے نکلے، آرٹس کونسل ہمارے گھر سے کوئی بیس بائیس کلو میٹر تو ہوگی، پھر آجکل ٹریفک کا رش، ایک وجہ حکومت نے ناجایز قابضین سے سڑک ، فٹ پاتھ خالی کرانے بلکہ انہیں منہدم کرنے کی جو مہم شروع کی ہوئی ہے وہ رات گئے تک جاری رہتی ہے۔ وہ کام اپنی جگہ اس عمل کو دیکھنے والے ٹریفک میں خلل کی وجہ بھی بنے ہوئے ہیں ، بلاوجہ اپنے کام چھوڑ کر مشینوں کو عمارتیں گراتے تک رہے ہیں، گاڑی سوار اس جگہ اپنی گاڑی روک کر یا آہستہ کرکے اس نظارے کے مزے لے رہے ہیں۔ اس وجہ سے ٹریفک اور جام ہوجاتا ہے۔ ہمارا گھر یونیورسٹی روڈ کے دائیں جانب صفورہ چورنگی پر ہے ، سٹرک تو سیدھی ہے لیکن گاڑی دوڑاتے دوڑاتے انسان تھک جائے سڑک ختم نہیں ہوتی، قائد اعظم کے مزار سے ہم نے سوچا کہ صدر امپریس مارکیٹ میں صفائی ہوچکی ہے اب وہاں رش نہیں ملے گا ، یہ راستہ کچھ شارٹ بھی ہے چنانچہ ہم نے صدر سے جانے کا راستہ اختیار کیااور پھر بچھتائے، اب کچھ نہیں ہوسکتا تھا، رینگتے رینگتے صدر سے گزر کر آرٹس کونسل پہنچے، ہم جہاں گاڑی پارک کرتے ہیں وہاں مشکل سے پارکنگ ملی، معلوم ہوا کہ اس جانب سے گیٹ بند ہے ، صرف جنگ اخبار کے سامنے سے جو سٹرک آرٹس کونسل کے سامنے سے گزرتی ہے وہ ہی گیٹ کھلا رکھا گیا ہے،ہم بند گیٹ پر کھڑے سوچ ہی رہے تھے کہ اب ہمیں کافی پیدل چل کر دوسرے گیٹ تک جانا ہوگا اتنے میں ایک گاڑی آکر رکھی ، گیٹ بند ہی رہا ، ڈرائیور نے اتر کراندر آواز لگائی ، دروازہ کھولو حسینہ معین گاڑی میں بیٹھیں ہیں انہیں لے کر آیا ہوں۔دربان نے جو یہ آواز سنی دوڑا ہوا آیا اورآتا بھی کیوں نہیں، آخر معروف قلم کار جو ٹہریں ، پھر ہر کوئی ان کے نام سے واقف ، ہم ٹہرے گم نام ، کچھ تھوڑابہت لکھ پڑھ بھی لیا 40سے زیادہ کتابیں چھپ گئیں 600سے زیادہ مضامین کالم چھپ گئے تو کیا ہوا ۔ خیر صاحب ہم موقع غنیمت جانا حسینہ معین کی گاڑی کی آڑ لینا پسند کیا اور ہو لیے آرٹس کونسل کے اندر۔ دربان نے بھی ہماری انٹری کو نظر انداز کیا، خوش ہوئے کہ چلو پہلا مرحلہ تو طے ہوا۔ اب جب پہنچے آڈیٹوریم کے دروازہ پر وہاں کا منظر مختلف پایا۔ لوہے کی جالیوں والا دروازہ بند ، اندر سیکیوریٹی کے افراد موجود احباب اس سے زیادہ کھڑے ہوئے، اسی طرح باہر کی جانب بے شمار لوگ کھڑے ہوئے۔ ایک اسکرین لگی ہوئی تھی ، جب اعلان سنا تو معلوم ہوا کہ اندر آڈیٹوریم میں علم و ادب کے پروانے اتنی بڑی تعداد میں جمع ہوچکے ہیں کہ کرسیاں کیا راہ داریوں، اندر کے تمام راستوں پر لوگ ہی لوگ موجود ہیں ۔ جو احباب باہر ہیں وہ باہر رہتے ہوئے اسکرین پر افتتاحی اجلاس کی کاروائی سن اور دیکھ سکتے ہیں۔

ہماری طرح کئی خواتین و حضرات یہاں تھے ، کچھ کھڑے تھے کچھ نے بک اسٹال والوں کی کرسیوں پر قبضہ کر لیا تھا ، ان میں سے ایک ہم بھی تھے۔پیچھے رہ جانے والے بعض احباب کو ہم جانتے تھے بعض ایسے چہرے بھی تھے جن سے سلام دعا بھی نہ تھی لیکن ہمیں معلوم تھا کہ وہ کون صاحب ہیں۔ متعدد ادیب شاعر گیٹ سے باہر اسکرین پر کم باہم گفتگو زیادہ کر رہے تھے۔ ہم جب یہاں پہنچے تو سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے بطور مہمان خصو صی اپنا خطاب شروع ہی کیا تھا۔ ہمیں اطمینان ہوگیا کہ اب افتتاحی سیشن ختم ہوگا تو گیٹ بھی کھلے گا بہت سے لوگ باہر آئیں گے تو دیگر کے ساتھ ہم بھی اندر چلے جائیں جگے اور ایسا ہی ہوا۔ اندر کا حال بعد میں بتائیں گے پہلے سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے جو باتیں کیں وہ سنین جو ہمیں یاد بھی رہ گئیں ۔ اس لیے کہ جس جگہ ہم کبھی بیٹھے اور کبھی کھڑے ہوئے رہے تھے وہاں سے اسکرین پر کچھ کہنے والے کی باتیں اوپر سے گزر رہی تھیں۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے گیارہویں عالمی اردو کانفرنس کے انعقاد پر آرٹس کونسل ، خاص طور پر احمد شاہ صاحب کو مبارک باد دی اور فرمایا کہ اردو ایک بین الا قوامی زبان ہے، اسے کسی خاص طبقے تک محدود کرنا بہت زیادتی ہے، اردو نے پاکستان کو جوڑ رکھا ہے جب کہ اس شہر کی رونقوں کی بحالی میں حکومت سندھ کے ساتھ ساتھ آرٹس کونسل نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کے بعد بھارت سے آئے ہوئے بہت ہی محترم ادیب و قلم کار جناب شمیم حنفی نے کلیدی کلمات بیان کیے۔ شمیم حنفی صاحب کو ہم اس سے پہلے بھی سن چکے ہیں، ان کاکہنا تھا کہ اردوایک زبان ہی نہیں طرز حیات ہے۔ زبانیں بھی انسان کی طرح سفر کرتی ہیں، یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ بیسویں صدی کے خاتمے تک اردو نے کون کون سی منزلیں طے کیں‘۔

پہلا سیشن اپنے اختتام کو پہنچا ۔ اس سیشن کی مجلس صدارت کے ارکان میں افتخار عارف، رضاعلی عابدی، اسد محمد خان، عارف نقوی، پروفیس سحر انصاری، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی، مستنصر حسین تارڑ، مسعود اشعر، امینہ سید، نور ظہر، طلعت حسین ، کمشنر کراچی، زاہدہ حنا اور اطہر وقار عظیم شامل تھے۔ آرٹس کونسل کے صدر محمد احمد شاہ صاحب نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا تھا۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر ہما میر نے انجام دئے، شکریہ اعزازی سیکریٹری پروفیسر اعجاز احمد فاروقی نے ادا کیا۔اس طرح گیارہویں عالمی کانفرنس کا افتتاحی اجلا س اپنے اختتام کو پہنچا۔ افتتاحی اجلاس میں حاضرین نے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کر کے معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض کو خراج عقیدت پیش کیا جن کاانتقال لاہور میں کل ہی ہوا تھا۔ اسی اجلاس میں آرٹس کونسل کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی نویں اور دسویں عالمی کانفرنسوں کی روداد پر مشتمل کتابوں کی رونمائی بھی ہوئی اور ساتھ ہی پہلی کانفرنس یا دسویں عالمی اردو کانفرنسوں کے مختصر احوال پر مشتمل دستاویزی فلم بھی ’’سروداد سفر‘‘ بھی دکھائی گئی۔

افتتاحی اجلاس کے بعد احباب چائے پینے اور بعض جی بھر جانے کے باعث آڈیٹوریم سے باہر نکلے اور ہم جیسے جو اندر جانے کے انتظار میں تھے ، چائے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے آڈیٹوریم کا رخ کیا ۔ اس کے باوجود ہال میں لوگوں کا اس قدر ہجوم تھا کہ ہمیں بہ مشکل تمام بالکل پیچھے والی رو میں جگہ میسر آسکی۔ دوسراسیشن جون ایلیا کے حوالے سے تھا اور تیسرے سیشن میں انور مقصود نے آنا تھا دونوں ہی سیشن بہت دلچسپ تھے اس وجہ سے ہم اور ٹک گئے ورنہ باہر بیٹھے بیٹھے کئی بار خیال ہوا کہ چلو واپس چلیں ، اندر جگہ نہ ملی تو کمر اتنی دیر بے آرامی کی اجازت ہر گز نہیں دے گی لیکن دونوں پروگراموں اورسیٹ مل جانے کے باعث لالچ آگیا کہ جونؔ بھی اور انور مقصود بھی اپنی اپنی جگہ توپ چیز ہیں۔ جون ؔ پر بولنے والے بھاری بھر کم لوگ ہیں جب کہ انور مقصود کا سنجیدہ مزاح اپنی جگہ دلچسپ ہے۔ ان کے جملے آری سے بڑھ کر خنجر کا کام کرتے ہیں۔ جونؔ ایلیا اپنے مخصوص حلیے ، دراز و بکھری زلفیں ، مخصوس اندازِ گفتگو ، شعر پڑھنے کا اچھوتا اندازاور اشعار میں حد درجہ کھلے پن کے باعث عوام میں بہت مقبول رہے اور اب بھی ہیں۔ شاعرہ حبیبہ طلعت نے کی رائے درست ہے کہ ’ جونؔ کی شاعری کو عوام الناس میں زیادہ پذیرائی ملی گویا ان کی شاعری عام آدمی کے احساسات کی عکاس ہے‘۔ جونؔ پر گفتگوکا عنوان تھا ’’جون ایلیا۔ ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا‘‘۔ شریک گفتگو تھے ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی، شکیل عادل زادہ ، اقبال حیدر شاہد رسام ، عباس نقوی، جب کہ نظامت کے فرائض انیق احمد نے خوبصورتی سے ادا کیے۔ شرکاء نے جون ایلیا کی شاعری کے علاوہ ان کی زندگی پر تفصیلی اظہار خیال کیا، انیق احمد نے جونؔ کے بے شمار اشعار سنائے۔ چند اشعاراور ایک غزل ’ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا ‘ میں کیا کہ چند اشعار ؂
میری ہر بات بے اثر ہی رہی
نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا
مجھ کو تو کوئی ٹوکتابھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑگئے زبان میں کیا
وہ ملے تو یہ پوچھنا ہے مجھے
اب بھی ہوں میں تری امان میں کیا
یوں جو تکتا ہے آسمان میں کیا
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا

متفرق اشعار
آج مجھ کو بہت برا کہہ کر
آپ نے نام تو لیا میرا
اب تو ہر بات یاد رہتی ہے
غالباً میں کسی کو بھول گیا
بہت نزدیک آتی جارہی ہو
بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا
اک عجب آمد و شد ہے کہ نہ ماضی ہے نہ حال
جونؔ برپا کئی نسلوں کا سفر ہے مجھ میں
اس کی گلی سے اٹھ کے میں آن پڑا تھا اپنے گھر
ایک گلی کی بات تھی اور گلی گلی گئی
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
کیسے کہیں کہ تجھ کو بھی ہم سے ہے واسطہ کوئی
تو نے تو ہم سے آج تک کوئی گلہ نہیں کیا
کتنی دل کش ہو تم کتنا دلجو ہوں میں
کیا ستم ہے ہم لوگ مرجائیں گے
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں

پہلے دن کا تیسرے اور آخری سیشن میں انور مقصود کو جون ایلیا پر گفتگو کرنا تھی۔ ہم نے جو سیٹ سنبھالی تھی اُسی پر جمے رہے ۔ انور مقصود کو ہم نے ٹی وی کے علاوہ آرٹس کونسل میں ہی کئی بار سنا ہے۔ اچھا اور سنجیدہ مزاح لکھتے اور اچھا بولتے بھی ہیں۔ سامعین نے تالیاں بجا کر انور مقصود کا والہانہ استقبال کیا۔اسٹیج سے پردہ ہٹا تو وہ اپنے مخصوص انداز میں کھڑے تھے، راسٹرم ان کے سامنے تھے۔ انور مقصود کا موضوع سخن جونؔ ایلیا تھے لیکن انہوں نے پہلے فہمیدہ ریاض کو خراج تحسین پیش کیا۔ بولے ’’گیارویں اردو کانفرنس اور فہمیدہ ہمارے درمیان نہیں ۔ ان کی پہلی کتاب ’پتھر کی زبان ‘1976ء میں شائع ہوئی ، کتاب پر اعتراض یہ ہوا کہ یہ بہت کھلی ہوئی کتاب ہے، کتاب بہت اچھی تھی اپنا اپنا اسٹائل، اپنی طرز ہے، کتاب بہت اچھی تھی ۔ انور مقصود کی آواز مائیک کی وجہ سے سب کو نہیں پہنچی تو ایک شور سا اٹھا ، جس پر انور مقصود نے مائیک کو درست کرتے ہوئے کہا کہ یہ پہلے پی ٹی آئی کے لیے تھا اب سندھ گورنمنٹ کا ہے۔ اس مزاح کا سامعین نے لطف لیا۔ فہمیدہ کا ذکر جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فہمیدہ نے ساری زندگی خود کو تباہ کرنے کی کوشش میں لگادی آخرکار کامیاب ہوگئی۔ نور جہاں کے خلاف لوگوں نے بہت بولا اور فہمیدہ کے بارے میں بھی ۔ نورجہاں کو جانے کے لیے 27رمضان کی شب اور فہمیدہ کو12ربیع الا اول ، دونوں کو دعا ؤں کی بھی ضرورت نہیں ایسے دن کسے ملتے ہیں۔

فہمیدہ ریاض کے بعد ان کی توپوں کا رخ آرٹس کونسل کے موجودہ صدر محمد احمد شاہ جو دہائی سے زیادہ عرصے سے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے بادشاہ سلامت چلے آرہے ہوا ،وہ کبھی صدر تو کبھی سیکریٹری اور کبھی گورنگ باڈی کے رکن ، عہدہ کچھ بھی رہا پر سکہ بادشاہ سلامت کا ہی چل رہا ہے، گیارہ سالوں سے۔ انور مقصودگویا ہوئے احمد شاہ ہر سال سخن وروں کی زندگی کا ایک سال کم کردیتے ہیں اور اپنی زندگی کا ایک سال بڑھا دیتے ہیں۔ جتنی محنت وہ کانفرنس کی کامیابی کے لیے کرتے ہیں اتنی محنت اگر وہ کالا باغ ڈیم کے لیے کرتے تو اب تک کب کا بن چکا ہوتا۔کہنے لگے کہ میرؔ ، غالبؔ ، فیض پرؔ لکھتے لکھتے جی بھر گیا سوچ رہا ہوں شاہ صاحب پر ایک کتاب لکھوں۔کتاب کانام کچھ اس طرح ہو رموزِ احمد شاہ، مرقع احمد شاہ، ذکرِ احمد شاہ، نوادرِ احمد شاہ، نظر احمد شاہ ، یاد گار احمد شاہ ، تلاش احمد شاہ۔اگر تلاشِ احمد شاہ رکھا گیا تو یہ کتاب مجھے اور ان کی بیگم کو مل کر لکھنا پڑے گی ،تالیاں۔

فہمیدہ ریاض اور احمدشاہ کے بعد وہ اپنے اصل موضوع یعنی جون ایلیا پر آئے۔ گویا ہوئے کہ ابھی جو پہلا سیشن ہوا مجھے بھی جون پر بولنا تھا شاہ صاحب نے کہا کہ آپ اکیلے ہی بولیں۔ انور مقصود نے دیگر باتوں کے علاوہ ’’ عالم بالا سے جون ؔ ایلیا کا آیا ان کے نام خط‘‘ اپنے مخصوص انداز میں سنا کر خوب داد وصول کی۔جون کے خط میں ان کی شاعری بھی ہے، دیگر شعر اء خاص طور پر میرؔ ، غالبؔ ،اقبالؔ ، فیضؔ ؔ ، فرازؔ ، بجیا، بھائی رئیسؔ اور مشفق خواجہ کا ذکر بھی ہے، عالم بالا میں منعقد ہونے والے مشاعرہے کا احوال بھی ہے جس میں میر تقی میر ؔ ، مرزا غالبؔ ، جونؔ نے اپنا کلام سنا یا۔ بقول انور مقصود ان کی جونؔ سے خط و کتابت ہوتی رہتی ہے و ہ جون کو اور جون انہیں خط لکھتے رہتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ جون ؔ ایلیا انور مقصودکو کیا لکھتے ہیں اور وہ کس حال میں ہیں۔

انور مقصود کاخط بنام جونؔ ایلیا
بھائی جونؔ !
میں محترم جونؔ ایلیا کو بھائی جون کہا کرتا تھا، وہ ناراض ہوجاتے ، صرف جون کہا، کرو یہ بھائی کہاں سے آگیا؟ ناراض ہوکر بولے یاری دوستی اور ہم سفری ہوجائے تو بھائی کہاں سے آگیا ؟ میں اپنے بھائیوں کو بھائی جان کہتا تھا ان سے یاری تھی نہ دوستی تھی، نہ وہ میرے یار تھے ان میں سے کوئی میرا ہم سفر ہوتا تو میں دوریاں بانٹ لیتا ، بھائی کے ساتھ بیٹھ کر لہکا اور چہکا نہیں جاتا۔ تمہارے گھر بیٹھا ہوں اگراپنے گھر میں ہوتا تو فورناً رکشا میں بیٹھ کر کہیں چلا جاتا ۔کچھ دیر خاموش رہے ۔ میں نے کہا ،ایک شرط پر کہ آپ مجھے انور صاحب کہہ کر بلائیں گے۔ جون ؔ رکشا منگواؤں ؟ وہ جب تم نے جونؔ کہہ دیا تو بس اب رکشہ پر لعنت بھیجوں ۔ بس پھر ایک دم کھڑے ہوگئے اپنی دونوں جیبوں سے دو گلا س نکالے اور میز پر زور سے رکھ دیے ، کہنے لگے گلاس میں لے آیا ہوں اب تم بوتل لے آو، تمہارے گھر کے گلاس بہت بھاری ہیں لڑکیوں کی طرح ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔جون کی چار کتابیں ہیں شاید،یعنی، لیکن ، گمان۔

بھائی جونؔ آجکل خوب مشہور ہورہے ہیں یہاں بھی ہندوستان میں بھی، جس محفل میں جاتا ہوں فرمائش ہوتی ہے جونؔ ایلیا پر بات کریں۔ ان کی شاعری سنائیں، بہت سے ایسے ہوں گے جنہوں نے جون کو دیکھا بھی نہیں ہوگا ، صرف ان کے لیے میں بھائی جون ؔ کا حلیہ بتانا چاہتا ہوں۔بال وبال، سر آشفتہ، آنکھیں منتظر،دماغ سیرِ جمال،صحت خواب و خیال،قدآور،ہاتھ قلم ،صورت آشنا ،غصہ لبریز ،دل پیمانہ، دور سے دیکھو تومسئلہ ، مردوں کی محفل میں پر سکون اور عورتوں کی محفل میں پھدکتا افلاطون لگتے تھے۔جون ؔ کا مطلب ہے جو شخص کوئی بھی ، ایلیا حضرت علی ؑ کا لقب۔

انور مقصود جون ایلیا سے اپنے خط و کتابت کے احوال کی جانب بڑھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میری بھائی جون سے خط و کتابت آج بھی ہے میں انہیں یہاں کے حالات لکھتا رہتا ہوں وہ مجھے وہاں کے حالات لکھتے رہتے ہیں۔

جون ایلیا کا جوابی خط بنام انور مقصود
حیرت کی بات ہے ۷۱ برسوں سے پاکستان کے حالات امیدوں سے بے نیاز گزر رہے ہیں۔ایسا لگتا ہے مرنا بیداری بن گیا لیکن تمہیں بیدار رہنے کی ضرورت نہیں لکھتے رہو اور دوسروں کو خوش کرتے رہو۔ یہاں دو دن پہلے پاکستان کے سارے شاعروں اور ادیبوں نے نماز شکرانہ ادا کی کہ صرف اس لیے کہ می ٹو کا وجود ان کے بعد آیا ۔ امامت علامہ اقبال نے کی، پہلی صف میں فیضؔ ، قاسمی، یوسفی، فرازؔ ، صوفی تبسم،منیر ؔ نیازی،بھائی رئیسؔ ، مصطفی زیدی ان کے علاوہ ہزاروں تھے میں بیٹھا رہا ، دور سے دیکھتا رہا ، سوچا قضا پڑھ لوں گا۔ جانی! یہ می ٹو مرگ نہ گہانی سے بھی بری بلا ہے، یہ جو غالب ؔ نے کہا تھا میں غالبؔ نہیں پھر بھی یوں لگا تمہارا خط نہیں تم آگئے ۔ حال پوچھا ہے، سنتے رہیو، غالبؔ کے مصائب کی داستان اس وقت شروع ہوئی تھیجب وہ ۱۲برس کے تھے۔جس طرح شاعری میں شاعر کو اپنی پہلی شاعری کی کتاب چھپوانے میں جلدی ہوتی ہے اسی طرح غالب کو اپنی شادی کی جلدی تھی ۔۱۳ کے ہوئے تو شادی کر لی۔، مضمحل ہوگئے ، عناصر سے اعتدال رخصت ہوگئے، اردو ادب میں اچھی شاعری’ نکاح ‘کے بعد شروع ہوئی ۔میرے مصائب کی داستان یہاں آنے کے بعد شروع ہوئی۔

جانی! مجھ سے مردہ شاعری نہیں سنی جاتی ، سارے شاعر یہاں بری شاعری کر رہے ہیں اور مشاعروں میں زمین پر مدرسوں میں پڑھنے والے بچوں کی طرح جھوم جھوم کر پڑھتے ہیں، میں نے کئی مرتبہ کہا بھائی جھومنا بند کردو، نہیں مانتے، اقبالؔ کے لیے تو ٹھیک ہے ان کی شاعری جھوم کر پڑھنے والی تھی مگر فیضؔ اور فرازؔ کو جھومنا نہیں چاہیے۔یہاں بجلی نہیں ہے صرف ایمان کی روشنی ہے اور اس کے بلب لگے ہوئے ہیں اس کے باوجود میرے منطقی شعور کو دن میں دس بارہ جھٹکے لگتے ہیں، جن سے میرے چودہ طبق بجھ جاتے ہیں۔یوسفی آگئے ہیں، اپنے گوشے میں ٹہرنے کے بجائے کسی شاعرہ کے گھرٹہرے ہوئے ہیں، اس شاعرہ نے مجھے بتا یا کہ یوسفی صاحب بھول جاتے ہیں کہ وہ یہاں آگئے ہیں ہر اتوار کو مجھ سے کہتے ہیں آج ہاکس بے چلیں گے، بھنڈیاں پکا لو۔

یوسفی کے آنے کی خوشی میں یہاں ایک شام شعرِ یاراں منائی گئی۔ میزبان مشفق خواجہ تھے مہمان خصوصی غالبؔ تھے، یوسفی صاحب اسٹیج پر آب گم بیٹھے رہے ، مسکرابھی نہیں رہے تھے کیونکہ حوریں ان کو دیکھ کر مسکرارہی تھیں۔مشفق خواجہ نے یوسفی صاحب سے فرمائش کی کہ آپ خاکم بدہن میں سے کچھ سنا دیں تو کہنے لگے کہ آپ ضیاء محی الدین کا کام مجھے کیوں سونپ رہے ہیں؟ پھرمشفق خواجہ صاحب نے کہا آخر کتاب شامِ شعر یاراں کی کیا ضرورت تھی؟ کہنے لگے مجھے اولاد کی ضرورت تھی اور اولاد کو شامِ شعرِ یاراں کی اور اس شام میں شرکت بھی شام شعرِ یاراں ہے ۔ غالبؔ مسکرائے یوسفی کی فرمائش پر خواجہ صاحب نے غالبؔ سے کہا آپ اپنی پسند کے چند اپنے شعر سنادیں، غالبؔ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے یوسفی کونسی خوشبو لگا کر آئے ہیں، ماحول حور پیراہن سے بھر گیا، کہنے لگے بادشاہ کی فرمائش کئی مرتبہ منع کی مگر مشفق کی فرمائش کو پوری کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں جس کی وجہ یہ ہے میرے آٹھ دس اشعار کا مطلب مجھے مشفق نے بتا یا ہے۔ دوستو! ایک عرصہ کے بعد مجھے معلوم ہوا تھا ۔ ’کھُلا،کہ فائدہ عرض ہنر میں خاک نہیں‘۔غالب ؔ کا یہ شعر کچھ اس طرح ہے ؂
ہمارے شعر ہیں اب صرف دل لگی کے اسدؔ
کھُلا،کہ فائدہ عرض ہنر میں خاک نہیں

اب خاک میں سے اپنے چند اشعار نکالوں، خواجہ صاحب نے کس امتحان میں ڈال دیا ۔۔۔ خواجہ صاحب بولے مرزا امتحان نہیں، میرؔ اٹھ کر جانے لگے میں نے دبوچ لیا، آپ کو بھی بلائیں گے بڑے شاعر اسٹیج پر بعد میں جاتے ہیں۔جانی ! اب تم مرزا کے شعر سنو ؂
اُنہیں منظور اپنے زخمیوں کا دیکھ آنا تھا
اُٹھے تھے سیرِ گُل کو، دیکھنا شوخی بہانے کی

میرؔ نے آہستہ سے واہ کہا تو میں نے میرؔ سے کہا کہ آپ نے واہ کہا ، تو کہنے لگے میری کمر میں درد ہے میں آہ کہنا چاہ رہا تھا مگر منہ سے واہ نکل گیا۔
وعدہ آنے کا وفا کیجئے یہ کیا انداز ہے
تم نے کیوں سونپی ہے میرے گھر کی دربانی مجھے

میر ؔ کچھ کہنا چارہے تھے میں نے دیکھا تو چپ ہوگئے۔ پھر میں نے پوچھا بہت درد ہورہا ہے ؟
کہاں تک روؤں اُس کے خیمے کے پیچھے، قیامت ہے
مری قسمت میں یارب کیا نہ تھی دیوار پتھر کی

میرؔ نے اپنی پیشانی پر تین چار مرتبہ اپنا ہاتھ ماراکہا جانی! یہ بھی تعریف کا ایک طریقہ ہے۔
میں نے چاہا تھا کہ اندوہ وفا سے چھوٹوں
وہ ستم گر میرے مرنے پر بھی راضی نہ ہوا
میرؔ نے کچھ نہیں کہا بس مجھ سے لپٹ گئے ؂
ساقی بہا ر موسم گل ہے سرور بخش
پیماں سے ہم گزرگئے پیمانہ چاہیے

جانی! میرے گال پر نوچ رہا ،میری تعریف نہیں کرسکتا،میں نے کہا خاموشی سے سننا بھی تعاریف ہے۔غالبؔ نے آخری شعر سنا یا
سیاہی جیسے گر جائے دمِ تحریر کاغذ پر
میری قسمت میں یوں تصویر ہے شب ہجراں کی

ہر طرف سے واہ سبحان اللہ کی آوازیں آ رہی تھیں ، خواجہ صاحب نے کہا
ورق تمام ہوا، مدح باقی ہے

میرؔ کو اسٹیج پر بلا یا ، اسٹیج پر غالبؔ سمیت سب کھڑے ہوگئے میں میرؔ کوگو د میں اٹھا کر لے گیا اور میز پر بیٹھا دیا۔ اس واقع سے میرؔ کے وزن کا اندازہ ہوا ۔ خواجہ صاحب نے کہا کہ جونؔ تم میرؔ صاحب کاکندہ پکڑ لو اور یہی کھڑے رہوکیونکہ ہوا چلنا شروع ہوگئی ہے۔ تین چار منٹ میر ؔ خاموش رہے’’ انہیں اپنا کوئی شعر بھی یاد نہیں تھا سوداؔ کھڑے ہوئے اور زور سے بولے ‘‘اگر تم کو اپنے شعر یاد نہیں ہیں تو میرے سنادو، میرؔ نے مجھ سے پوچھا یہ کون ہے؟ میں نے کہا ہندوستان کا ایک فلمی پلے بیک سنگر ہے محمد رفیع۔ جانی!میں نے سوداؔ نہیں کہا ورنہ محفل میدان جنگ بن جاتی۔ میر ؔ نے کہا مجھ میں اور غالبؔ میں بہت فرق ہے ، غالبؔ کے سر پر ہاتھ رکھنے والے بہت تھے مجھے اپنے سر پر خود ہاتھ رکھناپڑا۔
اپنا ہی ہاتھ سر پہ رہا اپنے یاں سدا
مشفق کوئی نہیں ہے کوئی مہر باں نہیں

خواجہ صاحب بولے میرؔ جی میں مشفق تھا،ہوں اور رہونگا۔
پھر میں میرؔ صاحب کو شعریاد کرواتا گیا اور وہ پڑھتے گئے ؂
کم فرصتی گل جو کہیں کوئی نہ مانے
ایسے گئے ایام بہاراں کہ نہ جانے
میر فقیر ہوئے تو ایک دن کہتے ہیں بیٹے سے
عمر بچی ہے تھوڑی سی کیونکر کاٹیں باباہم
دن رات میری آنکھوں سے آنسوں چلے گئے
برسات اب کے شہر میں برس رہی

غالب ؔ اپنی کرسی چھوڑ کر آئے اور میرؔ کے ساتھ بیٹھ گئے۔
وضوع کا پانی مانگ کر خجل نہ کر اے میرؔ
وہ مفلسی ہے کہ تیمم کو گھر میں خاک نہیں

ہوگا کسی دیوار کے سائے میں پڑا میرؔ
کیا کام محبت سے اس آرام طلب کو

غالبؔ نے کہا ایک شعر میرؔ صاحب کا میں سنانا چاہتا ہوں ؂
دیکھ لیتا ہے وہ پہلے چار سو اچھی طرح
چپکے سے پھر پوچھتا ہے تومیرؔ اچھی ہے

میں میرؔ کو اٹھاکر لے گیا اور ان کی کرسی پر بیٹھا دیا۔ غالبؔ نے کہا میں نے پہلے کہہ دیا تھا میرؔ صاحب کی شاعری گلشن کشمیر ہے۔ سوداؔ پھر بولے نہیں مقبوضہ کشمیر اوررونے پیٹنے کے علاوہ اس گلشن میں اور ہے کیا۔ دردؔ اور مصحفیؔ نے سوداؔ کو خاموش رہنے کو کہا ۔ جانی! پھر کمال ہوگیا ۔ خواجہ صاحب نے مجھے اسٹیج پر بلایا ،انہوں نے کہا مرزا پوچھ رہے ہیں تم کون ہو اور کیا کرتے ہو۔ میں نے مرزا سے کہا وہ کرتے تھے جو آپ کرتے تھے آپ کو چوتھی بیگم نے پریشان کیا ہم کو پہلی نے پریشان کیا۔امروہہ کے ہیں ، شاعری کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔

مرزا نے فرمائش کی کہ کچھ سناؤ ، میں نے کہا کہ’’ آپ کے بعد ؟’’ مرزا کہنے لگے ‘‘تم پیدا بھی تو ہم دونوں کے بعد ہوئے ہو۔

جانی ! میں نے مولا علی سے مددمانگی ، ایلیا کا واسطہ دیا اور کہا عزت رکھ لیں۔ خواجہ صاحب نے کہا پہلے اپنے بارے میں بتا تو دو ۔ میں نے بتا یا کہ امروہہ کے ہیں ، شاعری کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ نام جون ایلیا ہے۔ ادب گھر سے ملا اور بے ادبی زمانے سے 1935میں زمین پر آیا اور 2002میں آسماں پر ،ولادت امروہہ یوپی ، وفات کراچی بہت پی۔ کئی وقت مجھ پر ایسے آئے سوچا کہیں نکل لوں، تنہا بہت زندگی گزاری ، ملی اور قوم پرستانہ شاعری کبھی نہیں کی، فارسی اور عربی میری بغل میں اور اردو میری جیب میں تھی۔ کاش میرے چاہنے والے میری شاعری کے بجائے میری نثر پر دیہان دیتے، شاعری تو ہر کوئی سمجھ لیتا ہے لیکن نثر سمجھ نے کے لیے پڑھالکھا ہونا ضروری ہے، جو ملک میں چھوڑ آیا ہوں وہاں بہادر بہت ہیں مگر بہادروں کے لئے پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں، میں نے مرزا کی فرمائش پر چند اشعار سناتاہوں ۔ 18 برس کی عمر میں غزل لکھی تھی اس کا ایک شعر ؂
ہم کو مٹانہ دیں یہ زمانے کی مشکلیں
لیکن مشکلیں تو ہزاروں کے ساتھ ہیں
اسی زمانے کی ایک اور غزل ؂
مرااِک مشورہ ہے اِلتجا نئیں
تُو میرے پاس سے اس وقت جا نئین
بچھڑ کر جان تیرے آستاں سے
لگا یا جی بہت جی لگا نئین
محبت کچھ نہ تھی جُزبد حواسی
کہ بندہِ قبا، ہم سے کُھلا نئیں
اب زرا بعد کی شاعری ؂
خاموشی سے ادا ہو رسم دوری
کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم

جانی!نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کھڑے ہوکر تالیاں اور سیٹیاں بجانے لگے ، مرزا گھبرا گئے ، خواجہ صاحب سے پوچھنے لگے کیا قیامت آگئی؟ جون ؔ بہت مقبول ہوگئے ہیں ان کے لیے زمین پر بھی اسی قسم کا مظاہرہ ہوتا ہے۔مرے ہوئے نوجوان چیخنے لگے التجا نہیں التجا نہیں ایک نہیں چار شعر، اچانک بھائی تقی اٹھ کر آئے اور میرے کان میں کہنے لگے تمہارے سارے بھائی یہاں بیٹھے ہیں ان کا بھی تعارف کرادو ، خواجہ صاحب نے مجھ سے پوچھا تقی صاحب کیا کہہ رہے تھے؟ میں نے کہا وہی جو لمبے بالوں والی لڑکیوں نے دھمال شروع کردیا ۔اس کے بعد جانی! میں اسٹیج سے کود کر بھاگ گیا۔ یہ سانحہ صرف تم کو بتا یا ہے بس اپنے تک رکھیو ۔دوسرے دن میں اپنی مقبولیت کی مافی مانگے میرؔ کے گھر گیا وہ لیٹے ہوئے ٹیلی ویژن دیکھ رہے تھے،یہاں ٹیلی ویژن بھی بغیر بجلی کے چلتا ہے، عمران کالا کوٹ،سفید شلوار، سفید قمیض ، لال مفلر ڈالے تقریر کر رہے تھے ۔ مجھ سے کہنے لگے خوش شکل ہے اس سے پہلے ہمارے وزیر اعظم کے لیے کسی اور خواہش کا اظہار کریں میں نے ٹیلی ویژن بند کر دیا ۔ کہنے لگے عمران ہے کیسا ہے، میں نے کہا
نیازی ہے مگر نیاز مند نہیں۔۔۔
عقل مند ہے مگر عقل مند نہیں۔۔۔
فکر ہے مگر فکر مند نہیں ۔۔۔
دولت ہے مگر دولت مند نہیں۔۔۔

ہر بڑے سیاستدان کے لیے اچھا بے ایمان ہونا ضروری ہے مگر عمران چونکہ ایماندار ہے اسی لیے مشکل میں ہے۔میر ؔ کی کلیات جو میں ترتیب دے رہاہوں تقریباً مکمل ہوچکی ہے میرؔ صاحب چاہ رہے ہیں تم اس کتاب کا نام بتاؤ۔ میں نے کہا قبلہ آپ انور مقصود کے گھر ایک مرتبہ چلے جائیں۔ میں ہزار بار جا چکا ہوں وہ ایسا نام بتائے گا جس کے کئی مطلب نکل آئیں گے ، کہنے لگے وہ مجھے تم سے زیادہ جانتا ہے میری عزت کرتا ہے اور مجھے شاعروں کا خدا مانتا ہے۔ پھر میں نے ہمت کر کے جو نام تم نے پچھلے خط میں لکھا تھا وہ بتادیا، میں نے کہا کہ انور مقصود چاہتا ہے آپ کی کلیات کا نام ’’خواتین و حضرات‘ ‘ہو نا چاہیے اچک کر بیٹھ گئے ، میں نے پکڑ لیا وگر نہ پلنگ سے گرجاتے۔ کلیات کا نام خواتین و حضرات؟؟؟ میں نے بتایا انور نے لکھا تھا دو ہزار اشعار خواتین کے بارے میں دو ہزار مردوں کے بارے میں کہنے لگے اب نام سمجھ میں آیا ، رکھ دو۔ٹیلی ویژن لگایا عمران کی تقریر ختم نہیں ہوی تھی زور سے اپنا ایک مصرعہ پڑھا’’اللہ رے کیا نمک ہے آدم کے حسن میں بھی ‘‘، میر ؔ کا یہ شعر کچھ اس طرح ہے ؂
اللہ رے کیا نمک ہے آدم کے حسن میں بھی
اچھی لگی نہ ہم کو خوب صورتی پری کی

میں خدا حافظ کر کہہ کر چلا آیا ۔ اپنے کواٹر پہنچا نیند قریب آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔ جانی! یہاں نہ سونے کی گولی ملتی ہے نا جاگنے کی۔ سوچنے لگا یہاں کیوں آگیا ، ساقی فاروقی کی طرح دوسری طرف جانا پسند کر لیتا تو آگ کی وجہ سے کم از کم چائے تو گرم مل جاتی۔ کچھ دن پہلے مغرب کے بعد فیض ؔ صاحب سے ملاقات ہوئی کہنے لگے پاکستان میں تبدیلی آگئی ، میں نے کہا مجھے معلوم ہے اب لاہور میں جشن چراغا کی جگہ فیض میلہ ہوتا ہے، کہنے لگے ادبی تبدیلی کی نہیں ہم سیاسی تبدیلی کی بات کر رہے ہیں۔نئے پاکستان کی، میں نے پوچھا کیا مطلب ؟نیا پاکستان ؟، کیا مہاجر ہندوستان چلے گئے ہیں؟ پنجابی جالندر چلے گئے،؟پٹھان افغانستان چلے گئے ؟ بلوچی ایران چلے گئے؟ خالی فوج رہ گئی پاکستان میں وہ تو شروع سے تھی۔۔۔ پھر نیا پاکستان کہاں سے آگیا؟؟؟ نیا پاکستان صرف اسی طرح بن سکتا ہے کہ تم اپنے وزیر اعظم کو کہو کہ پرانے پاکستان کو ملک ریاض کو بیچ دے اور نئے ناظم آباد کے پیچھے نئے پاکستان کی بنیاد رکھے، نئے پاکستان کو کراچی سے شروع ہونا چاہیے کیونکہ پرانا پاکستان بھی کراچی سے شروع ہوا تھا۔ ناراض ہوگئے اور چلے گئے ۔ جانی! یہ خود فوج میں کرنل رہ چکے ہیں۔

جون ؔ نے لکھا ۔بجیا جنت کی نہر کے کنارے بیٹھیں کیاریوں میں پھول لگا رہی تھیں ، دس پندرہ حوریں ان کے ساتھ تھیں۔ مجھے دیکھ کر کھڑی ہوگئیں اور دونوں ہاتھ پھیلا کرکہا ادھر آؤ بیٹے کیسے ہو، کدھر ہو ، کہاں ہو، بھئی تم اپنی صحت کا خیال رکھو۔ میں نے بجیا کو بتا یا نہیں کہ ہم مر گئے ہیں جانی! اب بتاؤ ہم اور بجیا کیا کریں ، آسمانوں پر گرپڑیں یا ہم زمین کی طرف اڑان بھریں۔
تمہارا جونؔ !

آڈیٹوریم لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ تل دھر نے کی جگہ نہیں تھی۔ انور مقصود کو خوب داد ملی۔ کانفرنس کا پہلا دن اور پہلے دن کے تینوں سیشن کامیاب رہے۔


 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1289052 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More