تسخیر جنات ٢

تسخیر جنات کے اعمال او ر چلوں پر مبنی میرے مضامین پر مبنی یہ دوسرا مضمون ہے جو سابقہ مضمون کا تسلسل ہے

میں نے گذشتہ کالم میں حضرت میاں محمد شیر صاحب سے خواجہ حسن نظامی صاحب کی ملاقات کا ذکر کیا تھا۔ نظامی صاحب لکھتے ہیں کہ ان کی موجودگی میں کچھ لوگ نینی تال کے پہاڑ سے ایک عورت کو لائے۔ اس عورت کی آنکھیں لا ل تھیں اور وہ بہک رہی تھی۔ساتھ والوں نے کہا اس عورت پر آسیب ہے۔شاہ صاحب (حضرت میاں محمد شیرصاحب) نے فرمایا تیل منگواو۔ تھوڑی دیر میں تیل آگیا۔ شاہ صاہ نے کہا تیل کا ایک ایک قطرہ اس کے دونوں کانوں میں ڈالو۔ تیل ڈالتے ہی عورت بھلی چنگی ہو گئی۔ اس کی آنکھوں کی لالی جاتی رہی اور اس کے حواس بھی بحال ہو گئے۔شاہ صاحب نے مجھ (خواجہ حسن نظامی صاحب ) سے فرمایا لوگ کہیں گے یہ ہماری کرامت سے اچھی ہو گئی حالانکہ اس میں ہماری کوئی کرامت نہیں ہے ۔ تم نے دیکھا ہم نے تیل کو ہاتھ لگایا نہ کچھ دم کر کے پھونکا۔دراصل اس کے سر مین خشکی تھی ۔تیل ڈالنے سے سر کی خشکی جاتی رہی اور عورت ٹھیک ہو گئی۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا میاں جب ہم تمھاری عمر کے تھے تو ہمیں بھی ہمزاد اور جنات کی تسخیر کا شوق ہوا۔ ہمیں ایک شخص نے جنات اور ہمزاد کو اپنے تابع کرنے کا عمل بتایا ۔ میں نے مسجد میں جا کر اس کو پڑہنا شروع کیا ۔ ایک غیبی چیز نے ہمیں مسجد کے بوریے میں لپیٹ کر مسجد کے ایک کونے میں کھڑا کر دیا۔ہم بمشکل بوریے سے نکلے ، بوریے کو بچھایا اور دوبارہ عمل پڑہنا شروع کر دیا۔ پھر کسی نے ہمیں بوریے میں لیٹ کر کونے میں کھڑ ا کردیا۔تین دفعہ ایسا ہی ہوا۔چوتھی بار ایک آدمی ہمارے سامنے آیا اور کہا تم یہاں کیوں بیٹھے ہو اور کیا پڑھ رہے ہو۔ ہم نے کہا جنات اور ہم زاد کی تسخیر کا عمل پڑھ رہا ہوں۔اس آدمی نے کہا او دیوانے تو خدا کا مسخر ہو جا اس کا فرمانبردار بن جا ساری مخلوق تیرے تابع ہو جاے گی۔ ہم جنات بھی اسی کی مخلوق ہیں ہم بھی تیرے تابعدار ہو جائیں گے۔اس دن سے تو میاں ہم نے جنات اور ہمزاد کی تسخیر کے عمل چھوڑ دیا اور خدا کے دروازے پر بیٹھ گئےْ

میرے استاد محترم نے بھی تسخیر جنات کا کوئی چلہ نہیں کیا ہوا مگر ان کے شاگردوں اور مریدوں میں بڑی تعداد میں جنات شامل ہیں۔ایک بار جنات کی طویل عمری بارے بات ہو رہی تھی ۔ استاد جی نے بتایا ان کے ایک مرید جن کی عمر دو ہزار سال سے زیادہ ہے۔کسی مرید کے استفسار پر انھوں نے بتایا کہ رسالت ماب ﷺ کے دور میں وہ جن موجود تھا۔ نبی اکرم ﷺ کے بارے میں اس نے سنا بھی تھا مگر وہ مسلمان بعد میں ہوا اس لیے زیارت سے محروم رہا۔اب وہ جن نہ صرف مسلمان ہے بلکہ عبادت میں بہت رہاضت کرتا ہے ۔ اپنے قبیلے کا روحانی سربراہ اور استاد و پیر ہے۔صرف وہی نہیں اور بہت سارے جنات استاد جی کی خدمت میں حاضر رہتے ہیں اور منتظر رہتے ہیں کہ ان کی زبان سے کوئی حکم نکلے جسے پورا کر کے وہ اپنی عقیدت کو بجا لا سکیں۔نو وارد مرید اور شاگرد ایسی باتوں کو حیرت سے سنتے اور واقعات کو دیکھتے ہیں۔حالانکہ اس میں حیران ہونے کی بات نہیں ہے۔شاہ جی نے خواجہ حسن نظامی کو یہی ایک جملہ ہی تو سمجھایا تھاکہ خدا کے تابع ہو جاو ساری مخلوق تمھارے تابع ہو جائے گی۔یہ وہ حقیقت ہے جس کی شریعت تائید کرتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ علم پر ہر قسم کی اجارہ داری صرف اور صرف خداے بزرگ و برترین ہی کی ہے وہ جس کے کاسہ گدائی میں جتنا ڈال دے۔ کاسہ اپنے اپنے من کی مقدار کا ہوتا ہے۔ علم عقل کو حیران کرتا آیا ہے۔ اژدھے کا لکڑی کے ڈندے والا قصہ آپ نے بھی پڑھ رکھا ہے۔ پتھر سے چلتی پھرتی اونٹنی کے برامد ہونے کا قصہ بھی آپ نے سن رکھا ہے۔ڈوبتے سورج اور ٹکڑوں میں بٹے چاند کی داستان زیادہ پرانی نہیں ہے۔ یہ سوال بجا ہے کہ یہ پیغمبروں کے معجزے ہیں مگر رکے دریا کو خط لکھنے والا تو پیغمبر نہ تھا۔یہ حقیقت ہے کہ اتباع محمدی ﷺ انسان میں کراماتی صفات کا سبب بن جاتی ہے البتہ یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ طالب علم کی سولہ سال کی مسلسل محنت اس کو ماسٹر کی ڈگری کا حقدار بنا دیتی ہے۔کمال طالب علم کی ذات میں نہیں بلکہ سولہ سال کی مسلسل اور مہربان اتالیق کی زیر سرپرستی محنت اور جدوجہد میں ہے۔

میں ایک بار تبلیغی جماعت کے ہم سفر تھا۔ وہ لوگ چلہ لگانے نکلے ہوئے تھے۔ان میں ایک بزرگ ایسے بھی تھے جن کے بارے میں مشہور تھا کہ ان کی زبان سے جو کلمہ نکل جائے سچ ہو جاتا ہے۔ مگر وہ سوتے،کھاتے اور بولتے کم ہی تھے ۔ پڑہتے اور سنتے زیادہ تھے۔جنات کے بارے ان کا کہنا تھا کم عقل مخلوق ہے اور ان کی تسخیر سے کسی کو کیا مل سکتا ہے۔ البتہ انسان اپنے آپ ہی کواپنا تابع کر لے تو جنات کو قابو کرنے سے بڑی کامیابی ہے۔

استاد جی کو خوشبو کے استعمال کا شوق ہے البتہ دیکھا یہ گیا ہے کہ خوشبو پاکیزہ لوگوں ہی پر کھلتی ہے۔ خیالات، ارادوں، اعمال، معاملات میں پاکیزگی انسان میں خلق خدا کی خدمت کا جوہرکھولتی ہے ۔ جو انسان خدا کی مخلوق کی خدمت میں لگ جاتا ہے۔ خدا اس کو دوست بنا کر علم کے استعمال کا سلیقہ عطا کرتا ہے۔ علم کے استعمال کے سلیقے کا قصہ میں آپ کو اگلے کالم میں سناوں گا جو ایک عامل کے چلوں کی داستان ہے۔
 

Dilpazir Ahmed
About the Author: Dilpazir Ahmed Read More Articles by Dilpazir Ahmed: 135 Articles with 169429 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.