اسٹیٹ بینک سے جب پاکستانی کرنسی نوٹ جاری ہوتا ہے تو
اپنے متناسب رنگوں اور ڈیزائن کی وجہ سے ہر کسی کے جی کو لبھاتا ہے۔ اجلے
اجلے نوٹ کی ھیئت کزائی کا آغاز اپنے پہلے مالک سے ہی ہوجاتا ہے جو اسے تہہ
کرکے اپنی جیب میں ڈالتا ہے۔ اگلی صبح دودھ دہی خریدنے دودھ کی دکان پر
جاتا ہے تو دکاندار گیلے ہاتھوں سے نوٹ کو پکڑ لیتا ہے یوں اس پر پہلا نشان
لگتا ہے۔ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ جاتے جاتے چند مہینوں میں ہی نوٹ تجریدی
آرٹ کا نمونہ بن جاتا ہے جس پر قصائی کے ہاتھوں کا خون، پان کی دکان کا
کتھا اور موٹر مکینک کی گریس لگ جاتی ہے۔ 10 روپے کے نوٹ کو گول کرکے
دانتوں کا خلال کرنے اور کانوں کی میل نکالنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔
مہندی کی رسم پر حنا کا رنگ بھی چڑھایا جا سکتا ہے۔ بہرحال اس کی قدر میں
کمی نہیں آتی۔ پھٹ جائے تو اس پر ٹیپ لگا دی جاتی ہے۔ آخر اپنے جسم پر جگہ
جگہ زخم اور ٹیپوں کے ساتھ نوٹ پہلے کترنوں میں تبدیل ہوتا ہے اور بعد میں
اسٹیٹ بینک کی کسی نہ کسی بھٹی کا ایندھن بن جاتا ہے۔ اس کی جگہ ایک نیا
نوٹ جاری ہوتا ہے جس کا مقدر بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہم لوگ ڈالر اور دیگر
غیر ملکی کرنسی نوٹوں کے ساتھ ایسا سلوک ہر گز نہیں کرتے۔امریکی ڈالر کو تو
تہہ کیے بغیر ہی پرس میں رکھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بھارتی روپے اور
بنگلادیشی ٹکا کی بھی پوری قدر کی جاتی ہے۔ اس وقت ڈھائی ہزار ارب سے زائد
مالیت کے 10 سے 5000 روپے کے کرنسی نوٹ گردش میں ہیں، جن میں سے 20 فی صد
ہی ایسے ہوں گے جن کی حالت کچھ بہتر ہو۔ تجارتی بینکوں سے بھی کھاتے دار کو
عموماً کٹے پھٹے نوٹ ہی ملتے ہیں۔ نوٹوں کی ظاہری حالت تو خراب ہے۔ قیام
پاکستان سے اب تک مختلف حکومتوں کی خراب معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ان کی
قدر میں بھی مسلسل کمی کا سلسلہ جاری ہے۔ پچاس سال پہلے 10 روپے میں ملنے
والا امریکی ڈالر اب سو روپے میں نہیں ملتا۔ اب تو بھارتی روپے کی قدر
پاکستانی روپے سے دگنی جبکہ چند سال پہلے بنگلادیشی ٹکا بھی پاکستانی روپے
سے تگڑا ہوگیا ہے۔ اگر روپے کی قدر مقامی اور بین الاقوامی سطح پر بڑھانی
ہے تو معاشی پالیسیوں کو بہتر کرنے کے علاوہ عوام میں روپے پیسے کو صاف
ستھرا رکھنے کے بارے میں آگہی پیدا کرنا ہوگی۔<br /> <br />
|