یہ بھی تو اسی معاشرے کا حصہ ہیں

رضاکار ہمارے معاشرے کے لئے قیمتی تحفہ ہیں

انسانیت کی بے لوث اور بے غرض خدمت کرنے والے لوگ معاشرے کا بیش بہا قیمتی تحفہ ہوتے ہیں۔ان رضا کاروں کے کی وجہ سے ہی دوسرے لوگوں میں انسانوں کی مدد کرنے اور بھلائی کرنے کا ایک تصور پیدا ہوتا ہے۔ ایک مخلص رضاکار بغیر کسی لالچ کے انسانوں کی مدد کرتا ہے اور کبھی بھی کسی انسان سے اس کے بدلے کی توقع نہیں رکھتا بلکہ ایک رضاکار کو تو دوسروں کی مدد کرکے جو روحانی خوشی اور دلی سکون حاصل ہو تا ہے بس وہ ہی اس کے لئے اصل ثمر ہوتا ہے۔

لیکن معاشرے میں دیکھا گیا ہے کہ بہت سے لوگ طاقت یا حیشیت رکھنے کے باوجود بھی لوگوں کی مدد نہیں کرتے جبکہ ایک انسان اگر کسی کی ضرورت پوری کرنے کی طاقت رکھتا ہو تو اسے ضرور چاہیے کہ وہ اگلے انسان کی اپنی طاقت سے بھی بڑھ کر مدد کرے ۔اسلام میں بھی دوسروں کے کام آنے بارے بڑا زور دیا گیا ہے۔"اور اللہ کی بندگی کرواور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہرائو اور بھلائی کرو ماں باپ سے،اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی،اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے بے شک اللہ کو خوش نہیں آتا کوئی اترانے والا بڑائی مارنے والا۔”(سورہ النساء ۔آیت 36)۔ایک برطانوی تحقیق کے مطابق رضا کار عموماً لمبی زندگی پاتے ہیں اور آخر ایسا ہو بھی کیوں نہ کیونکہ وہ لوگوں کے لئے ہی تو زندہ رہتے ہیں۔ کیونکہ دوسروں کے کام آنے اور ان کی مدد کرنے کا حوصلہ یا احساس ہر ایک انسان میں نہیں ہوتا۔بس یہ وہ بہت ہی خوش قسمت لوگ ہوتے ہیں جو اس نعمت یا رحمت سے مالا مال ہیں

رضاکاروں کا کوئی معاوضہ نہیں ہوتا وہ اس لئے نہیں کہ ان کا کام بڑا معمولی سا ہوتا ہے بلکہ ان کا عمل اس قدر بڑا ہوتا ہے کہ اس کی کوئی قیمت نہیں ہوتی اور رضاکاروں کے دل میں معاشرے کے تمام افراد کے لئے یکساں محبت اور ہمدردی ہوتی ہے نہ کہ وہ معتصبی کا شکار ہوتے ہیں بلکہ انسانوں میں تفریق کرنے والا شخص رضا کار ہو ہی نہیں سکتا اور زندگی اس چیز کا نام نہیں کہ انسان مشکل وقت کے گزرنے کا اوراچھے وقت کے آنے کا انتظار کرے بلکہ ہر حال میں خود خوش رہنے اور دوسروں کو خوش رکھنے کا فن سیکھے اور بے شک رضا کار اس فن کے ماہر ہوتے ہیں۔ دنیا میں بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب ان کے پاس خوب پیسہ آئے گا تو وہ ضرور دوسروں کی مدد کریں گے لیکن لازمی بھی نہیں کہ مدد صرف مالی ہی ہو انسان اخلاقی طور پر بھی دوسروں کی مدد کر سکتا ہے۔ ہر انسان اپنے طور پر کسی نہ کسی طرح دوسرے کی مدد کر سکتا ہے۔

ہر سال ہزاروں رضا کاروں کو متحرک کرنے کے علاوہ دنیا میں رضاکاریت کو برقرار رکھنے کے لئے اقوام متحدہ کا رضا کارانہ پروگرام حکومت کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔ کسی انسان کی رضا کارانہ مصروفیت ہو سکتا ہے کہ بے حس لوگوں کے لئے ذیادہ توجہ یا اہمیت کا باعث نہ بنے لیکن ان کا عمل اچھے کاموں میں ہی شمار ہو رہا ہوتا ہے اور بے شک ان کا ہر عمل دوسروں کو ایک مثبت پیغام ہی دے رہا ہوتا ہے۔ہر انسان کو اپنے طور پر رضا کار ہونا چاہیے اسے اپنی ذات کے علاوہ جہاں تک ممکن ہوسکے دوسرے انسانوں کی فلاح کے لئے بھی سوچے۔آج دنیا میں بہت سی رضا کارانہ تنظیمیں ہیں جو واقعی انسانوں کی خدمت و مدد کر رہی ہیں۔اور یہ دن ان کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا دن ہے۔اور اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانیت کی خدمت کرنے والا شخص دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتا ہے۔

Ghazal Arif
About the Author: Ghazal Arif Read More Articles by Ghazal Arif: 2 Articles with 1330 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.