زندگی

زندگی۔۔۔ کیا ہے آخر یہ زندگی؟ لوگ اس کے ہونےپر ناخوش نہ ہونے پر بھی ناخوش کیوں نظر آتے ہیں؟ کیا زندگی ایک نعمت نہیں؟ جو کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہے۔اس زندگی میں وہ تمام کام کرنے کے لیے جو اُس نے ہمیں بتائے اور سکھائے ہیں؟ مگر افسوس ہم اُس دنیا میں آنے کے بعد اس کی رنگ برنگی چیزوں میں ایسے گم ہو چکےہیں کہ ہم اس دنیا میں کیوں لائے گئےہیں۔ وہ تو بلکل ہی بھول بیٹھے ہیں۔

اگر ہم اُن کی بات کرتے جو اس زندگی سے نہ ناخوش ہیں تو اُن کی گنتی کرنا مشکل ہوجائے گا کیونکہ آج کل لوگوں کی خواہشات بہت زیادہ ہوگئی ہیں۔ جس کی چالیس ہزار تنخواہ ہو یا دو الاکھ کوئی بھی اپنی زندگی نہیں گزار رہا سب کو ہی کوئی نہ کوئی شکایت ہے کہ اُس کی زندگی میں یہ کمی ہے تو وہ کمی ہے۔ ایک مکمل زندگی کسی کی بھی نہیں اور وہ ساری عمر اس زندگی کو اچھے سے اچھا اور آلی شان بنانےمیں گزار دیتا ہے۔

اس سارے مسلے میں وہ خود کو بھی بھول جاتا ہے کہ آخر اُس کو اس دنیا میں پیسے کمانے کے لیے ہئ اُتارا گیاہے؟ بس صرف یہ ہی اس کی زندگی کا پہلا اور آخری مقصد تھا؟ ہمیں اس سوچ کو بدلنا ہوگا۔ آج اس معا شرے میں بچوں کو اُن کے بچپن سے ہی یہ سکھایا جاتا ہے کہ اچھا پڑھو تا کہ اچھی نوکری ملے اور پیسے آتے رہیں جس سے تم زندگی سکون سے گزارو۔ پر اگر لاکھ پیسہ ہونے کے بعد بھی دل کا سکون نہ آئے تو کیا کرے؟ کیا پیسے سے ہر چیز خریدی جا سکتی ہیے؟ کیا پیسے سے سکون، چین، عزت، نیند اور دل کا قرار خریدا جا سکتا ہے؟ نہیں۔۔۔ یہ پیسے سے آنے والی چیزیں نہیں ہیں۔ تو یہ سب ہمیں کیسے ملے گا؟ بہت سارے لوگوں کا ایک ہی سوال ہمیں سکون نہیں ملتا۔۔۔ کیوں نہیں ملتا کبھی یہ بھی تو سوچے بس اتنا کہ دینا کافی نہیں ہوتا نہ ہی پوری طرح سے دنیاوی زندگی سے دور ہونا صحیح ہے دونوں زندگی یعنی دین اور دنیا ان دونوں کو ساتھ لے کے چلنا ہی اصل زندگی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق زندگی گزارنا اور دنیاوی تعلیم وتربیت بھی حاصل کرنا دونوں کو اپنی اپنی جگہ اہمیت دینا ایک مکمل اور پوری زندگی گزارنے کے مترادف ہے۔ اس طرح سے انسان کی سب سے بڑی شکایت کہ سب کچھ تو ہے مگر سکون نہیں ہے یہ دور ہو جائے گی اورزندگیوں میں خوشحالی آئےگی۔ تو ایک بار غور کرتے آخر کیاہےیہ زندگی؟ وہ جو ہم نے اس کو بنا دیا ہے یا وہ جو ہمیں اس کو بنانا چاہیے۔ دنیا اور آخرت دونوں کوسنوارناچا ہیے۔

تو آئیں آج سوچئے کہ آخر کیا ہےیہ زندگی؟

 

Kanwal Ziauddin
About the Author: Kanwal Ziauddin Read More Articles by Kanwal Ziauddin: 3 Articles with 1915 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.