داغی۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعہ کا خطبہ زور و شور سے جاری تھا اور مولانا صاحب اسلام میں بیٹی کے مقام پر خطاب کر رہے تھے اور حدیثِ مبارکہ کا حوالہ دے رہے تھے-

جب کسی کے ہاں بیٹی کی ولادت ہوتی ہے ، تو خداوند تعالیٰ اس کے ہاں فرشتے بھیجتے ہیں جو ان گھر والوں پر سلامتی بھیجتے ہیں۔ اور اس وجود ناتواں کو اپنے پروں کے سائے میں لیتے ہوئے کہتے ہیں یہ کمزور جان اک کمزور جان سے پیدا ہوئی ہے، جو اس کی پرورش کرے گا تا قیامت خدا کی مدد اس کے شاملِ حال رہے گی۔

زمانہ جاہلیت کے لوگ بیٹی پیدا ہوتے ہی اس کو قتل یا زندہ درگور کردیا کرتے تھے ، ہمارے نبیؐ نے فرمایا مسلمانوں بیٹیوں کی پیدائش پر خوش ہوا کرو کافروں کی طرح غمزدہ نہیں کیونکہ جس نے دو بیٹیوں کی پرورش میں کوئی کوتاہی نہ برتی اس پر جنت واجب ہے میں اور وہ شخص ایک ہی دروازہ سے جنت میں داخل ہوں گے۔

منصور ویسے تو کوئی بہت زیادہ مذہبی شخص نہیں تھا لیکن کبھی کبھار جمعہ کی نماز پڑھنے آجاتا تھا، آج مولانا صاحب کی باتیں سن کر وہ پتہ نہیں کن خیالوں میں گم ہو گیا تھا کہ اسے یہ احساس بھی نہیں ہوا کہ نماز ختم ہو چکی ہے لوگ گھروں کو جا چکے ہیں لیکن وہ ابھی بھی مصلے پر بیٹھا اپنے خیالات میں گم ہے۔ اس کا دوست شاہد اسے خیالات کے بھنور سے نکالتے ہوئے کہتا ہے یار کہاں گم ہو گئے، منصور اس سے معذرت کرتے ہوئے جلدی جلدی اٹھتا ہے اور اس کے ساتھ واپس جانے کے لئے نکلتا ہے۔ وہ دونوں ایک موبائل کمپنی میں کام کرتے ہیں اور بچپن کے دوست ہیں، اکثر اکٹھے جمعہ کی نماز پڑھنے آتے ہیں اور پھر واپسی پر کسی ہوٹل سے اکٹھے کھانا کھاکر آفس واپس جاتے ہیں۔ آج بھی ان کا پروگرام کچھ ایسا ہی تھا، لیکن منصور اس سے معزرت کر لیتا ہے اور پھر اپنے خیالات میں گم ہوجاتا ہے۔ شاہد منصور کو ابھی بھی اپنے خیالات میں غلطاں دیکھ کر ، وہ اسے پوچھتا ہے یار خیر تو ہے بار بار کہاں گم ہوجاتے ہو۔

منصور پہلے تو اسے ٹالنے کی بہت کوشش کرتا ہے مگر اس کا اصرار دیکھ کر اک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے شروع کرتا ہے، میری شادی کو چھ ماہ گزر چکے ہیں اور میری بیوی ایک بہت خوبصورت، پڑھی لکھی اور سلجھی ہوئی لڑکی ہے اس کا نام شازینہ ہے۔ میں شادی کے بعد بہت خوش تھا کہ مجھے شازینہ جیسی بیوی ملی، لیکن پتہ نہیں میں جب بھی اسکی آنکھوں میں دیکھتا مجھے ایک عجیب سا خالی پن نظر آتا۔ شروع شروع میں تو میں اسے اس کی جھجھک سمجھ کر نظر انداز کرتا گیا مگر یہ سب ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا، آخر ایک دن میں نے تنگ آکر اس سے لڑنا شروع کردیا اور اسے کہا کیا تم کسی اور کو پسند کرتی تھی اچانک میری یہ بات سن کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور کمرے سے چلی گئی۔ اس کا یہ انداز دیکھ کر میرا شک یقین میں بدلنے لگا، میرا سلوک اس سے ہر دن بہت برا ہوتا چلا گیا اور میں اسے طلاق دینے کے بارے سوچنے لگا۔

اسی اثنا میں میرے سسرال سے چھوٹی سالی کی شادی کا پیغام آیا، میں بالکل جانا نہیں چاہتا تھا لیکن اماں کے اصرار پر مجھے جانا پڑا۔ دراصل میں یہ بھی دیکھنا چاہتا تھا کہ شازینہ کا یہ رویہ میرے ساتھ ہی ایسا ہے یا میکے اور اپنے رشتہ داروں کے ساتھ بھی، مجھے یہ دیکھ کر بہت حیرانی ہوئی کہ اس کے رویہ میں وہاں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ شادی کے ماحول میں سب خوب ہلہ گلہ کر رہے تھے اور وہ نہ جانے کن خیالات میں گم الگ تھلگ بیٹھی تھی، مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں نے وہاں بھی اس سے بہت جھگڑا کیا اور اسے خوب برا بھلا کہا وہ خاموشی سے میرے الزامات سنتی رہی اور روتی رہی میں غصے کی رو میں اتنا آگے بڑھ چکا تھا کہ میں نے اسے بد کردار تک کہ ڈالا، میرا یہ الزام سن کر وہ تڑپ کر اٹھی اور کہنے لگی مجھے کچھ بھی کہو پر داغی مت کہنا۔ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں سے شعلے لپک رہے تھے میں نے اس کا یہ روپ آج پہلی مرتبہ دیکھا تھا، میں اس کی ان نظروں کی تاب نہ لا سکا اور باہر کی جانب مڑا مجھے نہیں پتہ تھا کہ ہماری یہ گفتگو میرے سسر دروازے کے باہر کھڑے سن رہے تھے اور ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے انھوں نے مجھے نہیں روکا۔تھوڑی دیر بعد جب میں سب سے الگ بیٹھا اس بارے میں سوچ رہا تھا کہ اچانک مجھے اپنے کندھے پر کسی کا ہاتھ محسوس ہوا، میں نے پلٹ کر دیکھا تو کوئی اور نہیں بلکہ میرے سسر میرے سامنے کھڑے تھے رونے کے باعث انکی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں میں نے اٹھنے کی کوشش کی۔ لیکن انھوں نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور میرے سامنے بیٹھتے ہوئے کہنے لگے، بیٹا آج میں تمھارے سارے سوالوں کا جواب دوں گا کیونکہ میں تمھارا مجرم ہوں میری بیٹی نہیں وہ تو کسی سے بھی شادی ہی کرنا نہیں چاہتی تھی لیکن میرے بندھے ہاتھوں کے آگے مجبور ہو کر تم سے شادی کر لی۔

ہم لوگ مری کے قریب ایک چھوٹے سے قصبے میں رہتے تھے، میری کچھ جائیداد تھی جسے کرائے پر چڑھا کر ہماری بہت اچھی گزر بسر ہو رہی تھی ۔ شازینہ ایک بہت پیاری اور ہو نہار بچی تھی پڑھائی میں سب بہن بھائیوں سے آگے، کھیل کود میں نمبر ون اس وقت اس کی عمر کوئی دس برس کے قریب ہوگی۔ بچوں کو قرآن شریف پڑھانے کے لئے اک قاری صاحب تشریف لاتے تھے ، میرے تینوں بچے ان سے قران شریف پڑھتے تھے۔ ایک روز میں کسی کام کے سلسلے میں پنڈی گیا اور جاتے ہوئےاپنی بیوی اور دوسرے بچوں کو اپنے قریبی عزیزوں کے ہاں تعزیت کے لئے چھوڑ گیا، شازینہ سکول گئی ہوئی تھی اس کی ماں نے نوکرانی کو اپنے آنے تک گھر میں رہنے اور شازینہ کا خیال رکھنےکا کہا۔ شازینہ جب سکول سے آئی تو اس نے خوب شور مچایا لیکن نوکرانی نے بہلا پھسلا کر اسے رام کر لیا، کچھ دیر بعد نوکرانی بازار سے سودا سلف خریدنے چلی گئی اور شازینہ اپنے کارٹون دیکھنے لگی اس دوران مولوی صاحب تشریف لے آئے، شازینہ سپارہ لے کر ان سے سبق پڑھنے لگی مولوی صاحب نے اس سے باقی بچوں اور گھر والوں کا پوچھا اس نے بتا دیا اور دوبارہ سبق پڑھنے لگی۔ سب جاننے کے بعد مولوی نے موقع دیکھ کر میری بچی کا ریپ کر دیا وہ چیختی چلاتی رہی لیکن اس درندے پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ بچی کو روتا بلکتا چھوڑ کر بھاگ گیا۔ نوکرانی جب بازار سے لوٹی تو بچی کو اس برے حال میں دیکھ کر لرز اٹھی اور فوراً اسے ہسپتال لے کر گئی، شازینہ سات دن تک زندگی موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد آخر کار زندہ بچنے میں کامیاب ہو گئی لیکن اس کی روح مر چکی تھی ، اس کا بچپن چھن چکا تھا وہ ایک زندہ لاش سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔ اس پر آفتاد کہ رشتہ داروں اور اہلِ علاقہ نے میری بچی کو اچھوت بنا دیا ، کسی بچی کو اس سے ملنے کی اجازت نہیں حتیٰ کہ سکول میں اس کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا کہ یہ داغی ہے اور باقی بچیوں کو بھی خراب کرے-

ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے میں نے کسی بڑے شہر منتقل ہونے کا ارادہ کیا جہاں مجھے اور میری بچی کو کوئی نہ جانتا ہو، ہم کراچی آگئے کئی سالوں کی انتھک کوشش کے بعد ہم شازینہ کی زندگی کسی حد تک بحال کر پائے تھے کہ تمھاری ماں رشتہ لے کر آئیں شازینہ یہ شادی نہیں کرنا چاہتی تھی اور یہ سب کچھ تمھیں بتا دینا چاہتی تھی لیکن میرے بندھے ہاتھ دیکھ کر خاموش ہو جاتی تھی، یہ کہہ کر وہ رکے اور میرے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولے بیٹا میری بیٹی داغی نہیں ہے، میں داغی ہوں اس نے میری کوتاہی کی سزا بھگتی ہے اور وہ بلک بلک کر رونے لگے اسے مت چھوڑنا ابھی میں ان کو تسلی دینے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ شازینہ کی امی بھاگتی ہوئی آئیں کہ شازینہ نے اپنی نس کاٹ لی ہے۔ میں اسے لے کر جلدی جلدی ہسپتال پہنچا بہت خون بہ چکا تھا، وہ شاید زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھی لیکن زبان پر صرف ایک ہی بات تھی میں داغی نہیں ہوں، نہیں میں داغی نہیں۔

شازینہ کی حالت بہت بری ہوتی چلی گئی اور وہ کومہ میں چلی گئی، آج اسے اس حالت میں ایک ماہ گزر چکا ہے۔ یہ کہہ کر منصور رکا اس کے گال آنسوئوں سے تر ہو رہے تھے اور ہچکی بندھ چکی تھی شاہد میں اس کا مجرم ہوں، میرے سلوک نے اس بیچاری کے ناسور کو زندہ کر دیا اصل داغی تو میں ہوں جس نے بغیر سوچے سمجھے اس معصوم پر الزام لگایا اس کی کردار کشی کی، میں اپنے آپ کو کبھی معاف نہیں کر سکتا کبھی نہیں شاہد اسے حوصلہ دیتا ہے۔ شاہد اسے کہتا ہے میرے دوست داغی وہ معصوم نہیں ہم سب ہیں یہ معاشرہ ہے، وہ گندی ذہنیت ہے جو ہم سب کے سامنے پلتی بڑھتی ہے جس میں ہم عورت کو صرف ایک غلام، باندی، حقیر، کمزور تنام برائیوں کی جڑ یا پھر گوشت کی چلتی پھرتی ایک دکان سمجھتے ہیں جسے جب چاہیں استعمال کریں اور پھر جلنے کے لئے ڈمپ کر دیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یہی عورت ہمیں پیدا کرتی ہے، چلنا پھرنا سکھاتی ہے ہماری تربیت کرتی ہے، ہمیں. دنیا میں زندہ رہنے کے قابل بناتی ہے اور ہم اسے ہی کمزور کہ رہے ہوتے ہیں افسوس کمزور عورت نہیں ہم۔ہیں ہمارے رویے ہیں داغی عورت نہیں مرد ہے جو اس معصوم کو اپنے مزموم مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے اور پھر الزام بھی اسی پر دھر دیتا ہے۔

شاہد منصور کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھاتا ہے اور دونوں ہسپتال کی جانب روانہ ہوتے ہیں، ڈاکٹر شازینہ کے اردگرد موجود ہیں منصور یہ سب دیکھ کر گھبرا جاتا ہے۔ اتنے میں شازینہ آنکھیں کھول دیتی ہے، منصور اس کے پاءوں چھو کر اس سے معافی مانگتا ہے اور اسے کہتا ہے شازینہ میں نے تمھارے بابا کی گڑیا کو بہت رلایا ہے لیکن آج کے بعد آنسوئوں کی تمام دکانیں بند، یہ سن کر شازینہ یہ شعر پڑھتے ہوئے کھل اٹھتی ہے.

میرے حصے میں کتابیں نہ کھلونے آئے
خواہشِ نفس نے چھینا ہے بچپن میرا

Qasim Raza Naqvi
About the Author: Qasim Raza Naqvi Read More Articles by Qasim Raza Naqvi: 42 Articles with 54158 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.