ڈرامہ

 تحریر:صدف نایاب
’’طلاق طلاق میں تمھیں طلاق دیتا ہوں‘‘۔ یہ سننا تھا کہ زوہا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔اس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ ہاتھ میں ریموٹ پکڑے زوہا روئے جا رہی تھی۔ اتنے میں اس کی کام والی آئی اور زوہا کہ بکھرے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوے کہنے لگی۔’’نہ رو باجی عورت کا تو یہ ہی مقدر ہے۔ یہ تو صرف ایک ڈرامہ ہی ہے۔اس پر کیوں اپنے آپ کو ہلکان کر رہی ہو‘‘؟

’’ڈرامہ! یہ محض ڈرامہ نہیں ہے، یہ مجھ سمیت ہر عورت کی زندگی کی کہانی ہے۔ دیکھا نہیں تم نے عرفان کس لہجے میں مجھ سے بات کرتا ہے۔ اپنے گھر والوں کے سامنے میری بے عزتی کرتا ہے، مجھے بات بات پر ڈانٹتا ہے۔اپنی بھابھیوں کے برے رویے کو نظر انداز کرتا ہے۔صرف اس لیے کہ وہ کزن ہیں۔تم دیکھنا نوشی عرفان بھی میرے ساتھ ایسا ہی کرے گا‘‘۔ ’’نہ،نہ باجی ایسا کچھ نہیں ہو گا‘‘، نوشی نے اس پر ترس کھاتے ہوئے کہا۔ایک دن زوہا یونہی بیٹھی ڈرامہ دیکھ رہی تھی کہ بے اختیار ہنسنے لگی۔ ’’نوشی نوشی ! ادھر آؤ جلدی ۔یہ دیکھو کتنے مزے کا سین چل رہا ہے۔ ہیرو ہیرؤین کیسے ایک ساتھ بیٹھے محبت بھری باتیں کر رہے ہیں۔ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے۔ہائے کاش عرفان بھی کبھی ایسے ہی پیار سے مجھ سے بات کرے‘‘۔

نوشی بہت چھوٹی عمر سے ہی زوہا کے گھر کام کرتی تھی۔ اس لیے وہ گھر والوں جیسی ہی تھی۔ زوہا کی بات سن کر اور اس کے ساتھ ہمدردی جتانے لگی۔زوہا بھی اپنے سارے دکھڑے اسے ہی سنانے لگی تھی۔ سوشل میڈیااور ٹی وی کا حد سے بڑھا ہوا استعمال زوہا کو حقیقی دنیا سے بہت دور لے گیا تھا۔ جس کے باعث آج یہ نوبت آچکی تھی کہ اسے ہر وقت لگتا کہ عرفان اور اس کے سسرال والے انتہائی برے ہیں اور کسی بھی وقت عرفان مجھے گھر سے نکال دے گا۔ایک دن زوہا نے دیکھا کہ نوشی بڑی تیار ہوکر بیٹھی ڈرامہ دیکھ رہی ہے۔زوہا نے نوشی سے پوچھا ’’کیا بات ہے؟ بھئی آج تو بہت تیار بیٹھی ہو‘‘۔

’’زوہا زوہا!کہاں ہو؟ آو بازار چلتے ہیں۔ بہت دن سے کچھ خریدا نہیں تم نے‘‘، زوہا کے شوہر نے اسے کہا۔ ’’ کیا بات ہے آج کیسے میرا خیال آگیا‘‘؟، زوہا نے کڑوے سے لہجے میں جواب دیا۔ ابھی دونوں یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ ساس کی آواز آئی ’’ارے عرفان بیٹا! میرا نظر کا چشمہ ٹوٹ گیا ہے کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ شاید نمبر بھی بڑھ گیا ہے۔ تم مجھے لے جاؤ گے ڈاکٹر کے پاس‘‘؟’’ جی امی‘‘،عرفان نے جواب دیا۔ ’’زوہا میں آتا ہوں تو چلتے ہیں۔تم تیار رہنا ٹھیک‘‘۔

’’ نہیں رہنے دو، آپ کی امی کو گوارا نہیں کہ ہم دو پل اکھٹے کہیں بیٹھ جائیں۔ فورا آگئیں اپنا دکھڑا لے کر‘‘۔ ’’زوہا کیا ہو گیا ہے تمہیں، امی کو تو پتا بھی نہیں اور جب پہلے ہی میں نے تمھیں کہا تھا۔ اس وقت بھی تم نے سیدھے منہ بات نہیں کی تھی اور اب یہ بد تمیزی کر رہی ہو‘‘؟ ،عرفان حیرت اور غصہ کے ملے جلے تاثرات لیے بولا۔ ’’ہاں ہاں، میں ہی بد تمیز ہوں۔ کبھی اپنی امی کو نہ دیکھنا‘‘،اس کے بعد شکایتوں کا ایک پلندہ زوہا نے کھول کر رکھ دیا۔ پھر جو تماشہ لگا وہ ساری دنیا نے دیکھا جس کا نتیجہ یہ نکلا۔ عرفان نے ایک تھپڑ زوہا کو دے مارا۔
’’دیکھا نوشی میں نہ کہتی تھی۔ کہ عرفان بھی ویسا ہی کرے گا جو ڈرامہ میں ہوا‘‘۔بہت دن بیت گئے اس بات کو آج زوہا پھر سے نوشی کے سامنے اپنے دکھڑے لیے بیٹھی تھی۔’’ہاں باجی! صحیح کہا ‘‘، نوشی کی ہمدردی نے جلتی پہ تیل چھڑکنے کا کام کیا۔ دن ایسے ہی گزرتے رہے۔ ایک دن رات کے دو بجے زوہا کی آنکھ کھلی۔ کچن تک پانی لینے گئی تو کیا دیکھتی ہے کہ بیٹھک کی روشنی جل رہی ہے اور عرفان کے رونے کی آواز آرہی ہے۔ زوہا نے دروازے کی درز سے اندر جھانکا تو کیا دیکھتی ہے کہ عرفان نماز پڑھ کر دعا مانگ رہا ہے اور روتا جارہا ہے’’ یاﷲ مجھے معاف فرما دیجیے، میں آپ کی بندی پر رحم نہ کر سکا‘‘۔ زوہا یہ سن کر سکتہ میں آگئی۔ اس بات کا اس دل پر بہت اثر ہوا اور کچھ عرصہ بہت پیار محبت میں گزرا۔

ایک دن زوہا کی جیٹھانی کسی ضروری کام سے بازار چلیں گئیں۔ جس کے باعث گھر کی ہانڈی روٹی برتن سب اسے کرنا پڑے۔ اگرچہ نوشی بھی کام کاج کرنے والی تھی مگر کسی کام کی وجہ سے جلدی چھٹی لے کر چلی گئی۔ اوپر سے جب اس کی جیٹھانی آئیں تو وہ بہت تھک چکی تھیں اور پورا دن وہ مزید کچھ نہ کر سکیں۔ خیر وہ دن تو جیسے تیسے کر کے زوہا نے گزار لیا۔ مگر اس کے دل کی کڑھن، وہ نہ گئی۔

اگلے روز زوہا ڈرامہ دیکھنے میں مصروف تھی ،ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ایک پڑوسن ملنے کے لیے آگئیں۔ ساس کہیں گئیں ہوئیں تھیں۔ زوہا کی جیٹھانی نے کہا میں ہانڈی پکا رہی ہوں۔ تم چائے بن کر لے آؤ۔ یہ سننا تھا کہ زوہا کو شدید غصہ آیا’’ اب آپ نے دیکھ لیا کہ میں تھوڑی دیر کیا بیٹھ گئی تو فورا کام۔کے لیے اٹھانے لگ گئیں۔ جانتی ہوں میں سب کچھ آپ نے اس دن بھی یہ ہی کیا تھا خود تو بازاروں میں گھومتی رہیں اور میرے سر پر کام ڈال کر گھر آکر سو گئیں‘‘۔زوہا کیسی باتیں کر رہی ہو۔ گھر میں مہمان آئے ہیں۔ امی نہیں ہیں اس لیے میں ہانڈی پکا کر ان کے پاس بیٹھتی ہو ں تم چائے بنادو صرف اتنی سی بات ہے‘‘۔ آج پھر وہ ہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا تھا۔ اتنی سی بات کا وہ بتنگڑ بنا کہ پھر یہ ہی فیصلہ ہوا کہ اب زوہا اور عرفان الگ گھر میں رہیں گے۔

خیر ایک دن آیا جب زوہا اپنے گھر میں تھی۔عرفان کام والی ماسی ہر کام کے لیے نہیں رکھ سکتا تھا۔گویا نوشی کا ساتھ بھی چھوٹ گیا۔جسے وہ اپنے دل کا حال کہہ کر اپنا امن ہلکا کیا کرتی تھی۔ لہذا ایک چھوٹی بچی کے ساتھ زوہا کو سب کام خود کرنا پڑتا۔آج زوہا کو بہت بخار تھا۔ عرفان کے لیے کھانا بھی بنانا تھا۔ وہ آفس سے دوپہر میں آتا اور گھر ہی میں کھانا کھاتا۔ ساتھ ہی بچی کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں تھی۔ جس کے باعث وہ مسلسل روئے جا رہی تھی۔

زوہا بیٹی کو سلا کر نماز پڑھنے کھڑی ہوئی تو بے اختیار آنسوؤں کی لڑی جارہی ہو گئی۔ نماز سے فارغ ہوکر زوہا نے ہانڈی پکانی شروع کی کہ اس کی انگلی کٹ گئی۔ جلدی سے پٹی لپیٹ کر زوہا نے گھڑی کی طرف دیکھا اور کھانا بنانا شروع کیا۔ کھانا بناتے دوران اسے ایک ایک کر کے وہ سب آسانیاں یاد آ لگیں جو اسے اپنی ساس کے گھر میں میسر تھیں۔ جیسے جیسے دن گزرتے گئے۔ اسے وہ سب باتیں جو اس کی بدگمانی بغض و عناد پر مبنی تھیں ایک ایک کر کے یاد آتی جاتیں اور بالآخر ایک دن ایسا آیا،’’مجھے معاف کر دیں عرفان ‘‘، زوہا نے روتے ہوئے کہا’’کیا ہوا زوہا،کیا ہوا‘‘؟’’ میں نے اپنی زندگی کو ڈرامہ سمجھ لیا تھا اور حقیقت سے منہ موڑ لیا تھا۔

آج سمجھ آئی کہ رب نے مجھے کن کن نعمتوں سے نوازا ہوا تھا۔ جن کا میں نے کبھی شکر ادا نہیں کیا‘‘، اتنا کہہ کر زوہا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ کچھ برا نہیں ہو گیا ہماری زندگی میں۔ آج بھی سب تم سے ویسے ہی محبت کرتے ہیں جیسے پہلے کرتے تھے اور میں تو صرف تمہارے سکون کی خاطر ہی الگ ہوا تھااور اس میں تمھارا بھی قصور نہیں آج کل کے میڈیا،انٹر نیٹ اور فضول کے بننے والے ڈراموں نے ہم سب کو بہکا دیا ہے۔ ہم اپنی زندگی کو کوئی فلم ڈرامہ ہی سمجھتے ہیں۔ برائی کو دکھانا بھی برائی کو پھیلانے کے مترادف ہے۔یہ بات جب تک ہم نہیں سمجھیں گے۔ بھلائی نہیں پھیلے گی‘‘۔زوہا کے دل کا بوجھ اب کچھ ہلکا ہو چکا تھا۔’’ تو پھر چلیں فریال بھابھی اور امی سے ملنے‘‘،زوہا نے کہا۔جس پر عرفان بھی مسکرا دیا۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1142475 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.