بُکل دا چور

مَیں سوچ رہا تھا کہ مُنشی جی بوڑھے ہوتے جا رہے ہیں۔۔۔! اُن کی مدد کے لیئے کوئی بندہ رکھ لوں۔۔۔! اگلے روز ہی پھیکا ملنے آگیا۔۔۔! بڑے جوش میں تھا۔۔۔! آتے ہی کہنے لگا۔۔۔! صاحب جی ایک ضروری بات کرنی ہے آپ سے۔۔۔! بتا پھیکے خیر تو ہے نا۔۔۔! پھیکا مُجھ سے صلاح لینے آتا تھا۔۔۔! پر وہ کیا جانے اس کی باتیں میری کتنی اصلاح کرتیں تھیں۔۔۔! بڑے کٹھن اور دشوار ہوتے ہیں حیاتی کے راستے۔۔۔! پھیکے نے بُکّل کے چور کو پکڑ لیا تھا۔۔۔! اُس کے ہاتھ میں چراغ آگیا تھا۔۔۔! جیسے بُکّل میں سورج باندھ رکھا ہو۔۔۔! میں بھی اُس کی روشنی میں سر نہواڑے چپکے چپکے پھیکے کے پیچھے چلا جا رہا تھا۔۔۔! میں نے پھیکے کو جپھا مار رکھا تھا میں جانتا تھا وہ مُجھے گرنے نہیں دے گا۔۔۔!

صاحب جی کدھر گم ہو گئے۔۔۔؟ پھیکے کی آواز پر میں نے آنکھوں میں آئی نمی کو چھپا کر پوچھا بتا یار تُو کیا بتانے والا تھا۔۔۔؟ صاحب جی جن کے کار میں کم کرتا ہوں نا۔۔۔! اپنے آفاق صاحب۔۔۔! انہیں اور چھوٹی دُلہن صاحبہ کو کہیں جانا پڑ گیا۔۔۔! جب آفاق صاحب کار نہیں ہوتے تو میں اپنے کواٹر کی بجاۓ ان کے کار میں ای سوتا ہوں۔۔۔! اللہ آپ کا بھلا کرے صاحب جی آدھی رات کو کھٹکا ہوا اکھ کھلی تو دیکھا چور۔۔۔! مُنہ پر کپڑا باندھا ہوا تھا جی اُس نے۔۔۔! پر شُکر ہے اُس کے پاس پستول وَستول نہیں تھا۔۔۔!

اوہو پھر کیا کِیا تُو نے۔۔۔؟ صاحب جی کرنا کیا تھا۔۔۔؟ چُپ کر کے پیچھے سے جا کر پکڑ لیا جی میں نے اور “چور چور” کی کھپ ڈال دی۔۔۔! سارے ملازم دوڑے آۓ۔۔۔! سب نے مِل کر قابو کر لیا جی اُس کو۔۔۔! بیس بائیس سال کا جوان ، اللہ جھوٹ نہ بُلوائے چور لگتا ہی نہیں تھا جی۔۔۔! میں نے اُس کو بِٹھا لیا۔۔۔! اور اسلم سے کھانا لانے کو کہا۔۔۔! اُسے روٹی کھلائی چائے پلائی۔۔۔! واہ پھیکے قربان جاؤں تیری اس ادا کے۔۔۔! تُونے پولیس کو بلانے کی بجاۓ چور کو روٹی کھلائی۔۔۔! ہاں صاحب جی چور تھا تو کیا ہو ۔۔۔؟ مہمان بھی تو تھا نا۔۔۔! مہمان چل کر گھر آگیا تھا کھلاۓ پلاۓ بغیر کیسے بھیج دیتا۔۔۔؟ بڑا روتا تھا جی معافیاں مانگتا تھا۔۔۔! پہلی واری چوری کرنے آیا تھا۔۔۔! اگر مَیں اُسے پولیس کے حوالے کر دیتا تو اس کا جھاکا لتھ جاتا۔۔۔! پھر وہ پکا چور بن جاتا۔۔۔! یہ جوان تو ہمارے وطن کے رکھوالے ہیں صاحب جی۔۔۔! اور میں وطن کے رکھوالے کو چور کیسے بننے دیتا۔۔۔؟ وہ تو جی کار کے اندر ہی سَنَ (نقب) لگانے لگ جاتا۔۔۔!

نہ صاحب جی نہ کب تک ایسا ہوتا رہے گا۔۔۔؟ کار کے اندر کے چور پکڑیں گے تو باہر والوں سے نبڑ سکیں گے نا۔۔۔! کار کے بھیدی ہی سَنّ (نقب) لگانے والے ہوتے ہیں۔۔۔! صاحب جی جڑیں کھوکھلی کر دیتے ہیں۔۔۔! بندہ جینے جوگا ای نہیں رہتا۔۔۔! اپنوں کے دیئے دُکھ بندے کو مار دیتے ہیں۔۔۔! یہ تو جی پیروں میں بندھے گھنگروؤں کی طرح مقدر کے بُوہے پر بیٹھے ایسے وجتے رہتے ہیں ہیں جیسے وین ڈالتے ہوں۔۔۔! پگ گھنگرو باندھ کر مِیرا کب تک ناچے گی صاحب جی۔۔۔؟ مِیرا مر جاۓ گی صاحب جی۔۔۔! اب اور نہیں صاحب جی بس اب۔۔۔!

لمحے بھر کو ایسا لگا جیسے پھیکے کے اندر کوئی اور روح ہے۔۔۔! سَنّ لگانے والوں کے منہ پر کیسا طمانچہ مارا تھا پھیکے نے۔۔۔! پھر تُونے جانے دیا اُس کو۔۔۔؟ وہ ہَتھ جوڑ کر معافیاں مانگتا تھا صاحب جی۔۔۔! مَیں کیا کرتا۔۔۔؟ اور پھر اس نے کچھ چرایا بھی تو نہیں تھا۔۔۔! صاحب جی آپ ہی تو بتاتے ہیں۔۔۔! کہ اللہ وی بندے کو برائی کی سزا اس وقت تک نہیں دیتا جب تک کہ وہ برائی کر نہ لے۔۔۔! جب اللہ نے مُجھے اُس کو چوری سے روکنے کا وسیلہ بنا دیا تو میں کون ہوتا تھا سزا دینے والا۔۔۔؟ آج مُجھے اپنے اور پھیکے کے بِیچ کا فرق سمجھ میں آیا۔۔۔! وہ عمل کرتا تھا اور میں صرف باتیں۔۔۔!

پر صاحب جی میں نے اُسے کہا ایک شرط پر معاف کروں گا کہ تو آئیندہ چوری نہیں کرے گا۔۔۔! کہنے لگا ایم اے پاس ہوں ماں نے بڑی محنت سے لکھایا پڑھایا ہے۔۔۔! نوکری نئیں ملتی۔۔۔! کیا کروں کہاں جاؤں۔۔۔؟ صاحب جی میں نے اسے سمجھایا۔۔۔! جھلیا تعلیم کہیں نہیں جاتی۔۔۔! اسے وَنڈ دے۔۔۔! خرچ کر دے گا تو دُگنی ہو جاۓ گی۔۔۔! تعلیم نے تجھے یہ عقل مت دی ہے کہ تُو چوریاں کرے۔۔۔؟ کم عقلا محنت مزدوری کے اپنا اور اپنی ماں کا پیٹ پال۔۔۔! صاحب جی مَیں نے دو دن کا تھوڑا بہت راشن لیا اور اُسے خود اس کے کار چھوڑنے چلا گیا۔۔۔! اس کی ماں کو ساری بات بتائی وہ تو جی رو رو کر انّی ہو رہی تھی۔۔۔! میرا عبدالکریم چور نہیں ہو سکتا۔۔۔! صاحب جی مُجھے لگا عبدالکریم کی ماں نہیں دَھرتی ماں رو رہی ہے میرا عبدالکریم چور نہیں ہو سکتا۔۔۔!

صاحب جی میرے سے ماں کا رونا نہیں دیکھا گیا۔۔۔! میں وعدہ کر آیا ہوں کہ تیرے پُتّر کی نوکری کا انتظام کروں گا۔۔۔! پھیکے ، تُو کیسے انتظام کرے گا۔۔۔؟ صاحب جی اللہ ایسے وعدے ضائع نہیں کرتا۔۔۔! خُود ای کوئی راستہ نکال دے گا۔۔۔! اب باری میری تھی مگر میرا نفس ڈگمگا گیا۔۔۔! پر پھیکے ، ایسے بندے کی کیا گارنٹی۔۔۔؟ صاحب جی جب اس کی ماں رو رو کے انّی ہو رہی تھی نا۔۔۔! اُس کا اِک اِک اتھرُو اس کے پُتّر کے دِل کو روشن کر رہا تھا۔۔۔! مُنڈے کے چہرے پر چن ورگا چاننْ تھا صاحب جی۔۔۔! ندامت کا نُور بڑا سوہنْا ہوتا ہے۔۔۔! پھر اللہ بھی تو اُدھر ای موجود تھا نا وہ خُود ای نبڑ لے گا صاحب جی۔۔۔! پھیکے کی اس بات نے میرے لیئے کوئی راستہ نہ چھوڑا۔۔۔! فیصلہ ہو چُکا تھا۔۔۔! اچھا۔۔۔! یار ، عبدالکریم کو میرے پاس بھیج دینا مُجھے مُنشی جی کی مدد کے لیئے ایک پڑھے لِکھے بندے کی ضرورت ہے۔۔۔! اپنی ماں کو بھی ساتھ ہی لے آۓ پچھلے ویہڑے میں کمرہ خالی پڑا ہے اس میں رہ لیں دونوں ماں بیٹا۔۔۔!

آنے والے دِنوں نے ثابت کر دیا کہ پھیکے کا فیصلہ غلط نہیں تھا۔۔۔! شام کو ٹیوب ویل کے پاس عبدالکریم بیٹھا محلے کے بچوں کو پڑھا رہا تھا۔۔۔! جب پھیکے نے کہا تھا “اللہ اُدھر ای موجود تھا صاحب جی” تو میرا پورا وجود کانپ اُٹھا تھا۔۔۔! وہ تو ہماری شہ رَگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔۔۔! اللہ ہی تو مجھے بتانے آیا تھا کہ مُنشی جی کے ساتھ ایک بندہ رکھنا ہے۔۔۔! جب سے پھیکے نے بُکّل کا چور پکڑا تھا۔۔۔! اُسے چور پکڑنے کا ہنر آگیا تھا۔۔۔!

Mubashra Naz
About the Author: Mubashra Naz Read More Articles by Mubashra Naz: 4 Articles with 6334 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.