سیاست میں لوگ جس سے محبت یا نفرت کرتے ہیں دل و جاں سے،
کم از کم ہمارے ہاں توایسا ہی ہے۔عوام،پرنٹ اور الیکڑانک میڈیاپرتبصرہ
اورتجزیہ نگاروں میں سے جو پیلپز پارٹی کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں وہ ہرحال
میں پیپلزپارٹی کی قیادت کے ہربیان اوراقدام کا دفاع کریں گے اورجولوگ
پاکستان تحریک انصاف کے پرستارہیں وہ ہرحال میں تحریک انصاف کے قائدین کی
ہاں میں ہاں اورہراقدام میں ان کی تحسین کا سامان کسی نہ کسی طریقہ سے نکال
لیں گے، اسی طرح جن کی ہمدردیاں میاں محمدنوازشریف اورمیاں محمد شہباز شریف
کے ساتھ ہیں،وہ ان کے بارے میں سب اچھا ہی رپورٹ کرتے ہیں۔ ان احباب میں سے
کچھ ایسے ہیں جنہیں ہم مدتوں سے پڑھتے آرہے ہیں،یہ اہل عقل ودانش جن
پالیسیوں یا اقدامات کے حق میں دلائل دیتے تھکتے نہیں تھے، اب انہی ایشوز
پرپاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی کوششوں کو سراسر غلط اورناجائز ثابت
کرنے میں مصروف ہیں اوران کی جانب سے اسی شدت سے اختلاف رائے کا اظہارکیا
جارہا ہے، جتنی عقیدت ومحبت سے جو گزشتہ دورحکومت کے اقدامات کی حمائیت
وتائید میں زمین و آسمان ایک کئے ہوئے تھے۔یہی صورت ِ حال دیگرسیاسی
جماعتوں سے عقیدت رکھنے والوں کی ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ یہی اہل علم و قلم
اس کیفیت کو رومانس کا نام بھی دیتے ہیں ،حالانکہ وہ خود اسی مرض لاعلاج
میں مبتلاہیں۔
ریاستی اداروں میں بیٹھے احباب بھی اس معاملے میں کسی سے کم نہیں،
کہاجاسکتاہے کہ حکومت بے شک تحریک انصاف کی ہے لیکن سرکاری مشینری یعنی
اداروں میں موجود اکثریت کی وابستگی کم ازکم موجودہ حکومت سے نہیں ۔سابقہ
ادوار میں لگائی گئی پنیری(سیاسی وسفارشی بنیادوں پر بھرتی کئے گئے لوگ) اب
قدآور درخت بن چکی ہے۔یہ لوگ حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کررہے۔ جن وجوہات کی
بنا پر حکومت کواپنے مطلوبہ ٹارگٹ کے حصول میں دشواریاں پیش آرہی ہیں،ان
میں سے بڑی وجہ مذکورہ سرکاری مشینری(بیورکریسی) بھی ہے۔ وزیراعظم عمران
جتنی فکرمعاملات کوسلجھانے کی کررہے ہیں،بیوروکریسی اس حوالے سے اس قدرفعال
نظرنہیں آرہی۔اس ساری صورت حال کو دیکھا جائے تووطن عزیز کے مفاد میں ہم
میں سے ہرکوئی اپنا حصہ ڈالے بغیر عام طورپرصرف حکومت کوہی موردِالزام
ٹہراتا نظرآتاہے،جبکہ خود کوبڑی خوبصورتی سے بری الذمہ قراردے کرحکومت وقت
کوتمام خرابی اورناکامی پربے جاتنقیدکرنے میں مصروف ہے۔
جائز،مثبت اورتعمیری تنقیدکاحق ریاست کی طرف سے ہرشہری کو حاصل ہے۔حکومت
کوبھی چاہیے کہ وہ مثبت اور تعمیری تنقیدجس سے اصلاح ممکن ہو،ایسی تنقید
کوخوش دلی سے برداشت کرے اوراسے اپنے لئے مددگاراورمعاون سمجھے ۔مگریہاں
تومعاملہ سرے سے بالکل ہی اُلٹ ہے۔ایک دھڑا ایسا ہے جو ہرحکومتی اقدام کی
مخالفت کرنا، کارثواب اوراپنا حق سمجھتا ہے، جب کہ دوسرادھڑا حکومت کے
کمزور،غلط فیصلوں اورعملی صلاحیتوں کے فقدان کے ذکر پرہی بھڑک
اُٹھتاہے۔100دن کیا ہوئے،حکومت اوراپوزیشن دونوں اطراف کے نعروں اوردعووں،
الزمات کی بوچھاڑ اورکارناموں کی داستانیں سن کرعوام حیران ہیں۔ اپوزیشن کا
توکام ہی مخالفت کرناہے،حکومت میں آنے سے پہلے کی تقریروں میں اسی سے ملتے
جلتے الفاظ تحریک انصاف کے راہنما بارباردہرایاکرتے تھے، کہ اپوزیشن کا
توکام ہی مخالفت کرناہے۔اب حکمران جماعت کو کیا ہوگیاہے،اپوزیشن کی ہربات
پرتلخی اوروہ بھی اس قدرجوآپ کی خدمات کوبھی متائثرکردے،اس قدرکڑواہٹ سے
پرہیزکرنا ہی بہترہے۔
شیخ سعدی رحمۃاﷲ علیہ کی ایک حکایت ہے۔ ـ"ایک ہنس مکھ اورخوش اخلاق آدمی
شہدکاکاروبارکرتا تھا،لوگ اُس کی خوش مزاجی اورمیٹھی باتوں پرایسے فریفتہ
تھے کہ اس کا شہدہاتھوں ہاتھ بک جاتاتھا۔یہاں تک کہ وہ زہربھی اُٹھا
لاتاتولوگ اُس کوشہدسمجھ کرکھاجاتے۔ایک بدمزاج آدمی اس کے کاروبارکی ترقی
سے جلتاتھا۔اس نے سوچا کہ اس کے شہدمیں کونساسرخاب کا پر لگا ہے ۔ چلو ہم
بھی یہی دھنداشروع کرتے ہیں۔ چناچہ اس نے بھی شہدکا کاروبارشروع کردیا۔لیکن
اس کی ترش روئی کودیکھ کرلوگ نزدیک بھی نہ بھٹکتے تھے۔سارادن گلی کوچوں میں
ہانک لگاتالیکن ایک گاہک بھی نہ آیا۔رات کوتھک ہارکرخالی ہاتھ
گھرگیااوربیوی سے کہنے لگاـ،میرے شہدمیں معلوم نہیں کیا خرابی ہے کہ کوئی
خریدتا ہی نہیں۔بیوی نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔تلخ مزاج آدمی کا شہدبھی تلخ
ہوجاتاہے"۔
بات ہورہی تھی اپوزیشن کی جانب سے تنقیدپر حکومتی وزراء کے شدیدرد ِعمل
اورحکومتی کارناموں کی قصیدہ گوئی کی۔ عوام کی خدمت کرنا آسان نہیں ،ملک و
قوم کی خدمت کرکے جتانا یا اس پراترانا،کس بات کا؟ یہ کوئی احسان نہیں ،
ہرجماعت عوامی خدمت کے نعرہ اورمنشورکے ساتھ عوام کی ہمدردیاں اورووٹ لے
کراقتدارمیں آنے کی کوشش کرتی ہے اورکامیاب ہوکرحکومت میں آنے کے بعدملک و
قوم کی خدمت فرض ہے اورفرض کی ادائیگی پراحسان کس بات کا؟عمل اورجدوجہد
مسلسل سے بات بنے گی۔پرانے وقتوں کی ایک بدعت کے تحت لوگ مٹی کے گھڑے کوپاک
کرنے کے لئے خودساختہ چھومنترکرتے ۔ اس کا طریقہ کاریہ ہوتاکہ گھڑے میں
پانی ڈال کر، جنگل کی مٹی ،کمہار کا چاک ۔۔۔ محمد کے کلمہ سے ہوجا پاک۔پڑھا
جاتااورپھرپانی باہرانڈیل دینے سے گھڑا پاک ہوجاتا۔
حکومت کی کارکردگی کا آغاز ہوچکا ہے۔وزیراعظم عمران خان نے اپنے عوام کے
سامنے 100دن کا حساب دے کر ایک اچھی روایت قائم کی ،ورنہ اس سے پہلے تویہاں
کی روایت یہ تھی کہ جس سے حساب کی بات کی جاتی،وہ کہتا ،کس بات کا حساب،
حساب لینا بھی ہے تو مجھ سے ہی کیوں،پہلے دوسروں سے حساب لے کردکھاوٗ۔اگرچہ
حکومت کے موجودہ مختصردوارنیے میں عوام کوکوئی خاص ریلیف نہیں ملا،پھربھی
عوام مایوس نہیں۔ مہنگائی کے اس طوفان کو برداشت کرنااورموجودہ صورتحال
تسکین واطمینان بخش نہ ہونے کے باوجود خاموشی، ایک لحاظ سے عوام کاوزیراعظم
عمران خان سے کسی حدتک اظہار ِ اعتماد ہے ، دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا
جاسکتا ہے کہ باامرمجبوری قوم عمران خان کوکچھ مزیدمہلت دینے پرآمادہ
نظرآتی ہے۔
لہذٰاحکومت پربے جاتنقیدکرنے والے تمام احباب اور ایسے صحافیوں سے گزارش ہے
کہ"میں نے دیکھا،میں نے سنا،مجھے کسی نے بتایا،میری اہم سیاسی شخصیت سے بات
ہوئی،مجھے اپوزیشن کے اہم راہنمانے بتایا،نہ کوئی تحقیق،نہ محنت،بس عوام کے
سامنے جھوٹ بول کراورسنی سنائی آگے پھینک کر،قوم کوگمراہ اورمایوسی کاشکار
بنانے کی بجائے صبروتحمل کا مظاہرہ کریں،آپ بھی حکومت کوکچھ مہلت دیں۔اس
کیساتھ ساتھ تحریک انصاف کے وزراء،راہنماوٗں اورکارکنوں سے بھی
التجاہے،اپنے منہ میاں مٹھونہ بنیں،پاکی داماں کی حکایتیں سنانے
اورپاپولرازم کی غلط فہمی کا شکار ہوکر ،جنگل کی مٹی ،کمہار کا چاک ۔۔۔
محمد کے کلمہ سے ہوجا پاک، پڑھ کر چھومنترسے پاک ہونے کی بجائے پرفارم
کریں۔مان لیا، حکومت نے اب تک جوکیا،اچھاکیا،مگرمسائل اس سے کہیں زیادہ
کاتقاضاکرتے ہیں۔ |