رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سیاسی کارنامے

اے قریش کے لوگوں۔ تمہارا کیا خیال ہے میں تمہارے ساتھ کیسا سلوک کرنے والا ہوں؟ انہوں نے جواب دیا " اچھا " کیونکہ آپ ایک کریم بھائی ہیں اور کریم بھائی کے صاحبزادے ہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتو میں تم سے وہی بات کہہ رہا ہوں جو یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی۔ (لاتثریب علیکم الیوم)یعنی آج کے دن تم پر کوئی سرزنش نہیں۔ جاؤ تم سب آزاد ہو۔

قارئین۔ یہ اعلان آزادی رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے اس دن کیا تھا جس دن قریش مکہ بحثیت قیدیوں کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دوزانوں ہو چکے تھے۔ اور نہ ان کو اور نہ ان کے سرداروں کے لئے بھاگ نکلنے کی کوئی صورت باقی رہی تھی۔ یعنی ان پر پوری طرح قابو پانے کے بعد جب مسلمانوں کی تلواریں ان کی گردنوںکے اوپر لٹک رہی تھی اور صحابہ کرام کی نگاہیں بارگاہ رسالت کی طرف جھکی ہوئی تھی کہ کب ان کے لئے مارنے کا حکم صادر ہو گا۔ عین اسی وقت یہ فرمان جاری ہوا کہ جاؤ تم سب آزاد ہو۔

لیکن سوال یہاں پر یہ ہے کہ وہ انسان جس کو اپنی ہی قوم کے لوگوں نے قتل کرنا چاہا۔اور صرف ایک ہی دوست کے ساتھ غاروں میں چھپتا، نامانوساور دشوارگزار راستوں پر چلتا ہوا سینکڑوں میل دور جاکر پناہ گزین ہوا اور پھر وہی انسان چند سالوں کے بعد تقریباً دس لاکھ مربع میل کے علاقے کا حکمران بنا۔اور وہ بھی اس علاقے کا جہاں اس سے پہلے کبھی سیاسی مرکزیت آئی ہی نہ ہو۔اور بغیر کسی نمونے کے سامنے رکھے ایک باقاعدہ مملکت کی ضرورت کی ہر چیز رائج کرےاور ایسی حکومت قائم کرے کہ جس کا آغاز ایک شہر کے چند محلوں سے ہوا ہو اور جو 27 ہی سال میں دنیا کی دو بڑی شہنشاہیتوں سے بیک وقت لڑ کر اور اس کے علاوہ دیگر کئی سلطنتوں کو شکست دیکر ایشیاء،افریقہ اور یورپ کے تین براعظموں پر پھیل جائے۔اور جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت فرمائی اس وقت مسلمانوں کی یعنی مہاجرین وانصار کی تعداد چند سو کے لگ بھگ تھی۔اوراس کے برخلاف غیرمسلموں کی تعداد دس ہزار کے قریب تھی۔ جس میں آدھی تعداد یہودیوں کی تھی۔
اور یہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اتنے قلیل تعداد کے لوگجن کو اتنی دشواریوں کے باوجود سیاسی غلبہ حاصل ہوجائے گا۔اور مدینہ کے اندر و باہر کے عرب اور یہودی قبائل کے فیصلے مسلمان کرنے لگے گے۔ جس کا اعترافمشہوربرطانوی (EEKellet)مؤرخ نے کچھ ان الفاظ میں کیا۔ (پیغمبر اسلام نے دشواریوں کا مقابلہ اس عزم کے ساتھ کیا کہ وہ ناکامی سے کامیابی کو نچوڑیں) ۔ چنانچہ مدینہ آتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو فوری ضرورتیں درپیش تھی وہ یہ کہ اپنے اور مقامی باشندوں کے حقوق و فرائض کا تعین، مہاجرین مکہ کی سکونت و گزربسر کا انتظام،شہرکے غیر مسلم عربوں خاص طور پر یہودیوں سے سمجھوتا، شہر کی سیاسی تنظیم اور فوجی مدافعت کا اہتمام، اور قریش مکہ سے مہاجرین کو پہنچے ہوئے جانی و مالی نقصان کا بدلہ وغیرہ۔ جس کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کرنے کے فوراً بعد ایک زمین خریدی جس پر ایک مسجد تعمیر کی۔ جس سے بیک وقت ایک عبادت گاہ، ایک چھاؤنی، پارلیمنٹ ہاؤس اور ایک اعلیٰ عدلیہ کا کام لیا گیا۔ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بڑا سیاسی کارنامہ یہ تھا کہ شہر مدینہ کے اندر و باہر کے عرب اور یہودی قبائل کے حقوق کا تعین کرکے ایک آئین مرتب کیا جس میں کُل 52 دفعات تھے۔ اور جس کو دنیا کی سب سے پہلی تحریری دستور کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اور یہ عہدآفریں کارنامہ اسی دستور میں تحریر کیا گیا جس نے قبائلیت کی افراتفری کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کردیا۔ اور ایک منظم مملکت کی بنیاد ڈالی۔ اس دستور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عدالتی،تشریعی، فوجی اور تنفیذی اعلیٰ ترین اختیارات اپنے لئے محفوظ فرما لئے جو ایک بڑا سیاسی نکتہ تھا۔ مگر ایک نہایت اہم اور قابل ذکر فرق اس اقتدار میں اور دیگر سلاطین کے اقتدارات میں یہ تھا۔ کہ یہاں مادیت کو دخل نہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیاست میں اخلاقی عناصر داخل کئے اور اصل سرچشمئہ اقتدار اللہ تعالیٰ کو قرار دیا۔اور خود کو اس کا رسول اور نائب اور ساتھ ہی امت کے لئے لائے ہوئے احکام خود پر بھی واجب التعمیل قرار دیئے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ہر ایک کو پابند کیا گیا کہ اپنی مذہبی آزادی اور اندرونی خودمختاری برقرار رکھتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ماتحتانہ تعاون کریں۔

اس دستور کے چند دفعات کو ہم بطور دلیل پیش کرتے ہیں جس کا سرنامہ کچھ یوں ہے۔ بہت رحم کرنے والے،سراپا رحم خدا کے نام سے۔ یہ ایک حکمنامہ ہے نبی اور اللہ کے رسول محمد کا، قریش اور اہلِ یثرب میں سے ایمان اور اسلام لانے والوں اور ان لوگوں کے مابین جو ان کے تابع ہو اور ان کے ساتھ شامل ہو جائیں اور ان کے ہمراہ جنگ میں حصہ لیں۔ اور یہ کہ تمام (دنیا کے) لوگوں کے بلمقابل ان کی ایک علیحدہ سیاسی وحدت ہوگی۔ اور یہ کہ مہاجرین اپنے انصار مدینہ اپنے اور یہودی اپنے اپنے محلوں پر زمہ دار ہونگے ۔ اور یہ کہ کوئی بھی مشرک (غیرمسلم رعیت) قریش کی جان اور مال کو کوئی پناہ نہ دے گا اور نہ اس سلسلے میں کسی مؤمن کے آڑے آئےگا۔ اور یہودی اس وقت تک مؤمنین کے ساتھ اخراجات برداشت کرتے رہے گے جب تک وہ مل کر جنگ کرتے رہے۔ اور یہ کہ کھبی تم میں کسی چیز کا اختلاف ہو تو اسے خدا اور محمد سے رجوع کیا جائے گا وغیرہ۔ ہم ان سارے دفعات کو یہاں ذکر نہیں کر سکتے تحقیق کرنے والے حضرات اگر چاہیں تو مسلم مؤرخین کے علاوہ یورپی مؤرخین مثلاً
Wellhausen,Muller, Sprenger,اور Ranke
وغیرہ کی کتابوں میں پڑھ سکتے ہیں۔ جنہوں نے بھی اس دستور کا ذکر کرنا ضروری خیال کیا ہے۔ قارئین۔ یہود جیسی قوم سے ایک نیم عرب شہر مدینہ کو حرم مقدس منوالینا بھی پیغمبر خدا کاایک بڑا سیاسی کارنامہ تھا۔ اور اس طرح ایک چھوٹی سی بستی کو شہری مملکت کی صورت میں منظم کیا گیا۔ اور جو لوگ نئے نئے مسلمان ہو جاتے ان کے لئے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان تھا کہ وہ اپنے علاقے چھوڑ کر مدینہ کے آس پاس آکر آباد ہو جائیں۔ تاکہ اندرونِ مدینہ کے یہود اور باہر کے مشرکین پر مسلمانوں کی دھاک بیٹھی رہے۔ جس کی بدولت چند سالوں تک مسلمانوں کو یہودیوں سے کوئی خطرہ نہ رہا اور اس درمیان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اطراف و جوانب کے قبائلیوں کو بھی اس معاہدے کا پابند کیا۔ اور ان ہی سیاسی اصولوں کے تحت مسلمانوں نے جنگیں لڑی جس میں میدان احد کے علاوہ باقی تمام جنگوں میں مسلمانوں کو واضح کامیابی ملی۔اور بلآخر 8ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ پر چڑھائی کرکے اس کو فتح کیا۔اور شرک کو سرزمین حجاز سے ہمیشہ کے لئے ختم کردیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال ایک مملکت کے قیام و استحکام میں نہ صرف صرف کئے بلکہ اپنے ہونے والے جانشینوں کو حکمرانیاور سپہ سالاری کی بھی ساتھ ہی ساتھ مکمل تربیت دیتے تھے۔ اور ان کو نئے شہر تعمیر کرنے کی بھی تعلیم دیتے تھے۔ چنانچہ پروفیسر"مارسے" اپنے ایک مضمون میں یہ تسلیم کرتاہے کہ (نئے شہر تعمیر کرنے میں عرب بڑے خوش نصیب رہے ان کا بسایہ ہوا تقریباً ہر شہر آج بھی آباد و سرسبز ہے)

قارئین۔ یہ ایسا نہیں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر کام کو انجام دینے "جبریل امین" آسمانوں سے اترے تھے۔ جیسا کہ عام مسلمانوں کا تصور بن گیا ہے۔ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پروردگار عالم کی راہنمائی میں ہر کام خود ہی انجام دیتے تھے۔اور میری گزارش ہے کہ اے مسلمانوں اب بس کریں اور اس تصوراتی دنیا سے نکل کر حقیقی اور عملی دنیا میں جینا سیکھ لیں۔اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے سیاسی پہلو کا بھی کچھ مطالعہ کریں۔آج اگر مسلمانوں کے حکمران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق سیاست کرنے لگے تو کیا وہ کامیاب نہیں ہونگے؟
آج بھی ہو جو ابراھیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہیں انداز گلستاں پیدا
 

Malak Gohar Iqbal Khan
About the Author: Malak Gohar Iqbal Khan Read More Articles by Malak Gohar Iqbal Khan: 34 Articles with 34119 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.