اپنی پہچان آپ کریں

 باہر کے فتنوں سے بچنے کے لیے انسان کو اپنی آنکھیں کھلی رکھ کر مخلوق کی طرف سے ملنے والی عزت افزائی مداح و ستائش کو اپنی کسوٹی پرپرکھنا چاہئے کیونکہ دوسروں کی بے جا تعریف سے ہم اپنے افعال پر خوش ہو کر برائیوں کو نہیں دیکھ پاتے جب کسی چیز کے وجود کا احساس ختم ہو جائے تو اس کی اصلاح ناممکن ہو جاتی ہے ملامت کا عنصر ناتواں ہوجائے تو بندہ اپنے آپ کو بڑا خوش قسمت سمجھنے لگتا ہے میں ہر دلعزیز ہو گیا وہ یہ کیوں بھول جاتا ہے کہ کلمہ حق منہ سے نکالنے والوں کو تنگ و مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہ علامت خوش بختی نہیں بلکہ خوشامد پرستی ہے جو ہمارے معاشرے میں گرد و غبار کی طرح پھیل کر نہ نظر آنے والے ذرات سے صرف انسانی وجود کو امراض کا گلدستہ ہی پیش نہیں کر رہی بلکہ امراض قلبی و روحانی کا سبب بن کر زہرقاتل کی طرح رواج پا چکی ہے نتائج کے خوف سے آزاد ہو کر ہر ایک اسے شوق سے کھاتا ہے لیکن اپنے آپ کو پہنچاننے کا تریاق اس کے اثرات کو نہ صرف زائل کر نے کی طا قت رکھتا ہے بلکہ اپنے اندر چھپے گہرنیاب کے ذخائر کی دریا فت سے گردو نواح کو معطر کرکے مالک کونین کی اس لازوال نعمت سے اپنی ذات کے علاوہ دوسروں کو بھی مستفید کر سکتاہے کیونکہ بنانے والی ہستی نے انسان کو شہکار بنا کر اشرف المخلوق کے لقب سے نوازکر ثابت کر دیا کہ تمام مخلوق سے پیارا انسان ہے اب یہ اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرے کچھ لوگ اس پر اس طرح عمل کر تے ہیں جن کا زکر سر ہارون الرشید تبسم نے اپنے اس شعر میں کتنی خوبصورتی کے ساتھ کیا ہے۔
تیری الفت کے سمندر میں چھپا کر ذات کو
سیپ میں تیرے گہر پھر ڈھونڈتا رہتا تھا میں

آج کا انسان ابن الوقت بن کر اپنی اوقات بھول کر عارضی دنیا کے پیچھے پڑ گیا ہر طرف دوڑ لگی ہے غریب روٹی کے پیچھے بھاگتا تو امیر ہضم کرنے کے لیے دونوں ایک دوسرے کے لیے باعث عبرت ہیں لیکن نشانیاں ہیں عقل والوں کے لیے اپنی ذات کا علم ہر طالب حق پر فرض ہے کیونکہ جب انسان کو معرفت الہٰی کا مکلف بنایاگیا تو سب سے پہلے اسے اپنی معرفت ہونی چاہئے کہ میں کون ہوں مجھے کس نے بنا کس مقصد کے لئے بنایایہ تجسس اس کو خالق تک پہنچائے گاایک حدیث پاک کے الفاظ ہیں مَن عَرَفَ نَفسَہُ فَقَد عَرَفَ رَبَھُ جس نے اپنے نفس کو پہنچانا اس نے اپنے رب کو پہنچانا۔

جب وہ جان لے گا کہ آخر فنا ہونا ہے تو اس کے دل میں خوف خدا پیدا ہوگا ایک انسان کا دوسرے انسان سے تعلق انسانیت کا ہے مالک صرف اﷲ کی ذات ہے جو قومیں یہ بھول کر غلامی کی زنجیر پہن لیتی ہیں ان کا انجام آساطیر الا والین میں ملتا ہے جس کی ایک بڑی مثال فلسطین کی اسرائیلی قوم کا مصر میں غلامی کے پھندے میں لمبے عرصہ تک جکڑے رہنا ہے حضرت موسیٰ علیہ اسلام کی پیدائش کے وقت مصر میں بنی اسرائیل فر عون کی غلامی میں تھے وہ بالکل بھول چکے تھے کہ آزادی کیا ہوتی ہے جس چیز کا علم ہی نہ ہو اس پر عمل کیسے ہوگا ظلم و ستم کے آگے احتجاج سے ناواقف قوم کو جب اﷲ کے حکم پر اس کے بنی نے آزاد کر وایا تو مالک دو جہاں کا شکر آداکر نے کی بجائے طرح طرح کی فر مائشیں کرنے لگی کبھی ان کے لیے من ٰوسلو اتر تا تو کبھی سمندر راستہ دیتا کبھی پہاڑ پھٹ کر چشمے بہ نکلتے یہ ساری سوغات پانے کے باوجود اﷲ کی ناشکری کرتے تقریبا چھ لاکھ کی تعداد کب تک صحر ا میں رہتی تو ان کو شہر فتح کرنے کا حکم ملا جس کو سن کر انہونے حضرت موسیٰ سے کہا کہ وہ بہت طاقت ور قوم ہے ہم تو کبھی نہیں جائیں گے ان کے مقابلے میں۔ سیوائے دو لوگوں کے سب نے انکار کیا پھر ان کو فتح کی خوشخبری سنائی گئی جو اتنے معجزات پہلے دیکھ چکے تھے کہ اﷲ کا ہر وعدہ سچا ہوتا ہے پھر بھی کہا کہ آپ اور آپ کا اﷲ ان کو پہلے شہر سے نکالے تب تک ہم یہیں بیٹھے ہیں ،ایسا کیوں کہا ایک تو ان کی ہر ضد ابھی تک پوری ہوتی آرہی تھی اﷲ کے نبی کے زریعہ منوالیتے دوسرا آزادی کی اہمیت سے نا واقف تھے تیسرا ذہنی طور پر غلام بن چکے تھے ایسا نہیں تھا کہ ان میں جان نہیں تھی پھر وہی قوم اﷲ کے نبی کی اس دنیا سے رخستی کے بعدتقریبا چالیس سال تک صحراؤں میں بھٹکتی پھری شہری ماحول سے دور یہاں تک کہ نئی نسل پروان چڑ گئی صحرا میں کوئی تہذیب نہیں تھی اور فرعونی تہذیب کا ان کو کیسے پتا چلتا اب وہ دور کوئی میڈیا کا دور تو تھا نہیں کہ مورنیگ شومیں ان کو مختلف کلچر سکھائے جاتے نہ ان کے سلیبس تھے جن میں سابقہ واقیات ہی رٹوائے جاتے اس لیے نئی نسل کی اصلاح غلامی کی تاریخ کو بھول جانے پر ہوئی پھر اسی قوم نے شہروں کے شہر فتح کرلئے ۔

حضرت موسیٰ نے اپنی قوم کو فر عون سے نجات دلوا کر انہیں تورات کا تحفہ دے کر اس کے مطابق عمل کا درس دیا ،ہمارے قائد نے بھی ایک آزاد ریاست اسی نظریہ کے تحت بنائی تاکہ ہم بھی اپنے اﷲ کی دی ہوئی سچی کتاب قرآن پاک اور ہمارے نبی کریم ﷺ کی دی ہوئی تعلیما ت کے مطابق اپنی زندگیاں گزاریں زمین کا ایک ٹکڑا تو ہم نے آزاد کروالیا لیکن ہمارے رسمو رواج ہماری تہذیب ہمارا کلچر ،سلیبس ،نظام زندگی ہمارے قوانین آج تک وہی ہیں ایسے لگتا ہے کہ ہم نے اپنی عقل کو گروی رکھ کر آزادی حاصل کی پاکستان اکہتر سال کا ہو چکا اور ہماری سوچ آج تک طفل شیر خوارہے اگر اسلام کے مطابق کوئی کام کریں گے زمانہ کیا کہے گا دنیا والے کیا کہیں گے برادری کی روایت سے کیسے ہٹ جائیں ناک کٹ جائے گی ،جبکہ اس کے بر عکس اس بات کی فکر ہونی چائے کہ ہم اﷲ کے سامنے کیسے جائیں گے اپنے شفیق نبیﷺ کا سامنا کیسے کریں گے قرآن کریم جو عمل کی کتاب ہے کتنا عمل کیا اس کا کیا جواب دیں گے ایسا اس لئے ہے کہ ہم بھول چکے ہیں کائنات ہمارے لئے بنائی گئی ہے ہم کائنات کے لئے نہیں اپنا مقام و مرتبہ یاد نہیں کو ئی ایسا کلیہ جو غلامی کی زنجیروں سے جکڑے دماغوں کو آزاد کروائے وہ یہ ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے
ترجمہـ:اور ایپر جو کوئی ڈرا کھڑے ہونے سے آگے پر وردیگار اپنے کے اور منع کیا جی اپنے کو خواہش سے پس تحقیق بہشت وہی ہے جگہ رہنے کی ۔عبس۔۴۰،۴۱۔

جس نے نفس کو خواہش سے روکا ،بیشک جنت اس کا مسکن ہے۔

Kaneez Batool Khokhar
About the Author: Kaneez Batool Khokhar Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.