کسی کو چاہنے کا اپنا مزہ ہے اور چاہے جانے کا اپنا ہی
لُطف ہے ۔ دونوں حالتوں کی کیفیات و ضروریات اور واردات میں بڑا فرق ہوتا
ہے ۔ چاہے جانے کا احساس بھی بڑا خوبصورت ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی بوجھ بھی
بن جاتا ہے اور کسی کو چاہنا تو اچھی خاصی زمہ داری مفت میں اپنے سر لینا
ہے۔
تمام محبتوں سے آزاد رہ کر صرف ایک یا پھر ایک خدا سے محبت کرنے والے بڑے
خوش اور خوش نصیب ہوتے ہیں اور تمام محبتیں اسی کے تابع ہو جاتی ہیں ۔
مجھے ان تینوں کیفیات کا تجربہ رہا ہے
جن کے اپنے اپنے مسائل غم خوشی کی کیفیات ہیں جن سے گزرنا ہی پڑتا ہے
اگر کوئ ایک بار ان کیفیات میں داخل ہو جاے تو کسی نہ کسی انجام سے دوچار
ہوے بغیر ان سے نکلنا بڑا مشکل کام ہوتا ہے لیکن قدرت حالات پیدا کر ہی
دیتی ہے اگر ارادہ کر لیا جاے۔
کم از کم مجھے تو سلسلہ توڑے بغیر ن سے نکلنا بہت مشکل معلوم ہوا اور ٹوٹنے
کے بعد وقت نے بھُلا بھی دیا مگر ایک یاد سی کہیں اٹک کر محفوظ ہو جاتی ہے
جیسے کمپیوٹر میں کوئ آئ کون جسے استعمال نہ کیا جاے مگر ایک کلک کرنے کا
خطرہ بدستور قائم رہے۔
سلسلہ توڑنے کے لئے ایک خاص عرصے تک رابطہ کا منقطع ہونا ضروری ہوتا ہے اور
کسی کے لئے رابطہ رکھنا مجبوری ہوتا ہے
سلسلے توڑ گیا وہ سب جاتے جاتے
ورنہ اتنے مراسِم تھے کہ آتے جاتے
مجھے بھی کئ دفعہ ٹوٹ کر چاہا گیا مگر آخر کار میں نے اپنی آزادی کو ہی
ترجیح دی لیکن وقت گزرنے کے بعد وہ دن بہت یاد آے اور خواہش پیدا ہوئ کہ
دوبارہ وہ دن آئیں مگر وہ دن آنے پر میری فطرت پھر جاگ پڑے گی اور تمام
خوشی اور غم کے مراحل سے گزرنے کے بعد شائد پھر سے آزادی کو ترجیح دوں
تم سے اُلفت کے تقاضے نہ نباہے جاتے
ورنہ ہم کو بھی تمنا تھی کہ چاہے جاتے
۔۔۔۔۔۔۔
دی نہ مہلت ہمیں ہستی نے وفا کی ورنہ
اور کچھ دن غم ہستی سے نباہے جاتے |