ہائے ہائے کتنی موٹی ہورہی ہو، اس کودیکھا ہے پھیلتی ہی
جارہی ہے، معلوم نہیں اس کا پیٹ ہے یا کیا، جب دیکھو کھاتی ہی رہتی ہے
ہروقت، ارے ارے کچھ دن پہلے تک تو بڑی پتلی تھیں تمہیں ایک دم کیا ہوگیا،
کون سی چکی کا آٹا کھا رہی ہو؟ ہمیں بھی تو بتاؤ، ہمیں توکچھ لگتا ہی
نہیں، کم کرو خود کو زیادہ موٹاپا اچھا نہیں ہوتا ، تھوڑی عجیب لگ رہی ہو،
رشتے میں مسئلہ ہوگا، معلوم ہے لڑکوں کی کیسی کیسی ڈیمانڈ ہیں آج کل، اس
لیے ذرا خیال کرو! ڈائٹنگ وائٹنگ کرو، رات کا کھانا چھوڑ دو، میٹھا چھوڑ
دو، آئس کریم چاکلیٹس سب سے کنارہ کشی اختیارکرلو اور ہلکا پھلکا کھاؤ
بلکہ ہوسکے تو ڈائٹنگ کے شروع شروع میں دلیا اور سلاد وغیرہ لو، پھر دیکھنا
اچھی لگو گی۔
اف یہ زمانہ اور اس کی حکایتیں، سمجھ سے باہرہے کہ سب کے موٹاپے کی فکر اس
بے چین زمانے کو کیوں ہوتی ہے، انہیں آخر بے چینی کیا ہے، موٹے ہوں یا
دبلے، کالے ہوں یا پیلے، ناک لمبی ہو یا چھوٹی، یہ لوگ ہر موقع پر بڑے بڑے
تجزیہ نگار کیسے بن جاتے ہیں۔ ہائے ہائے یہ ایسا ہائے ہائے وہ ویسا، ارے ان
لوگوں سے لے کرکھاتے ہیں کیا جویہ لوگ ہر وقت پریشان رہتے ہیں اور دے دھنا
دھن مشوروں کی بوچھاڑ کردیتے ہیں جن میں کوئی دم خم نہیں اور وہ مشورے صدا
سے چلتے آرہے ہوتے ہیں۔
دوست احباب ہوں یا پڑوسی یا کوئی کولیگ، یا پھرکوئی بھی، ہم کسی کو کسی بھی
وجہ سے کیوں تنقید کا نشانہ بنائیں، ہوسکتا ہے کہ اگر کوئی موٹا یا بہت
زیادہ موٹا ہوتواسے وہ موٹاپا پسند ہویااس پر موٹاپا ججتا ہویا وہ دس ہزار
جتن کرچکا ہو اور وہ اپنے موٹاپے سے جان نہ چھڑا پایا ہو، یا وہ کسی بھی
بیماری کا شکار ہو جس کے باعث اس کا موٹاپا بڑھتا ہی جارہا ہو۔اس میں دوسرے
لوگ کیوں بے چین ہوجاتے ہیں، اس کی زندگی ہے وہ موٹا رہے یا پتلا ، کالا
رہے یا بھکا بھک سفید! اس سے سب کو کیا سروکار ہے یا پھر کچھ نہ کچھ تنقید
کرنے کے لیے ایک موضوع چاہیئے کیونکہ ہمارے آس پاس ایسے بہت سے لوگ ہوتے
ہیں جو ہر وقت بے چینی اوراضطرابی کیفیت میں رہتے ہیں۔
رشتہ آئے یا نہ آئے، کوئی پسند کرے یہ نہ کرے، موٹے لوگ اوربھی موٹے
ہوجائیں پر سوال یہ ہے ان لوگوں کو تجزیہ کرنے کی دعوت کون دیتا ہے؟ایک
تنقیدی انداز اور ایک سمجھانے کا ہنر، دونوں ہی عمل میں بہت فرق ہے، لیکن
اس زمانے میں بہت کم لوگ ایسے ملیں گے جو اس پہلو سے مشورہ دیں گے کہ سامنے
والے کی بہتری ہواوراسے واقعی اچھے اورمناسب مشورے دیے جائیں نہ کہ انہیں
طعنہ، رشتے نہ آنے کی باتیں اورنہ جانے کیا کیا کہا جائے۔
کالے موٹے دبلے پتلے، خدا نے سب کو بنایا ہےاور سب کے اپنے اپنے نصیب ہیں
تو کس بات کی تنقید، ہمیں اپنے مشوروں کو محدود رکھنا چاہیئے اگر وہ کسی کے
لیے کارگر نہ ہوں اور وہ مشورے اگر محض تنقید کی غرض سے دیئے جارہے ہوں تو
اچھا ہے کہ سب اپنے اپنے مشورے اپنے اپنے پاس ہی رکھیں۔
لوگ تو لمبے لمبے فلسفے جھاڑ کرپیچھے ہٹ جاتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ سامنے
والا یہ ہی چیز سوچ سوچ کر پریشان ہوجائے، اس کی دل آزاری ہو، وہ خود کی
ذات کو برا سمجھنے لگے، وہ دوسروں سے خود کا ہر پل موازنہ کرنے لگ جائے اور
بہت کچھ ۔ |