ہمارا تعلیمی نظام

روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی نے نہ صرف بہت سے مسائل میں اضافہ کیا ہے بلکہ فروغ تعلیم میں بھی رکاوٹوں کا باعث بن رہی ہے۔ تعلیمی میدان میں سب ممالک تیزی سے ترقی کر رہے ہیں جبکہ ہم سست روی کا شکار ہیں۔ایک عالمی جائزے کے مطابق پاکستان کا تعلیم کے میدان میں 160واں نمبر ہے۔اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی ہے۔درحقیقت ہمارے ملک کا70فیصد ٹیلنٹ مکمل طور پر اور20فیصد جزوی طور پر ضائع ہو رہا ہے۔صرف10فیصد کو اپنی صلاحیتوں سے مستفید ہونے کا موقع ملتا ہے اور ان دس فیصد ٹیلنٹ سے مستفید ہونے والی خواتین اور حضرات کا تعلق99فیصد امیر گھرانوں سے ہے۔ملک کی70فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے جہاں کی ایک بڑی تعداد بنیادی تعلیم سے ہی محروم ہے تو معیاری تعلیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ملک کے بڑے بڑے شہروں میں بعض پرائیویٹ ادارے معیاری تعلیم دے رہے ہیں درحقیقت یہ پرائیویٹ ادارے معیاری تعلیم دینے کی ترغیب دے کر تعلیم فروخت کر رہے ہیں۔اس وقت پاکستان میں معیاری تعلیم کے راستے صرف ان لوگوں کیلئے کھلے ہیں جن کے پاس وافر مقدار میں دولت موجود ہے ۔ہر دولت مند کا ذہین ہونا ضروری نہیں لیکن ہر غریب کا ذہین ہونا اشد ضروری ہے۔ہمارے سرکاری اسکولوں کا کیا حال ہے اس سے سب واقف ہیں۔ ہمارے سرکاری اسکولوں کی خراب کارکردگی کی وجہ سے پرائیویٹ تعلیم اداروں میں طالب علموں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔سرکاری اسکولوں کی حالت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ان اسکولوں میں واجبی تعلیم کے حامل اساتذہ کو تعینات کیا جاتا ہے جو کہ خود ڈسپلن کے پابند نہیں ہوتے۔ان کا تعلیم سے بس واجبی سا تعلق ہے۔یہ اساتذہ اپنے شاگردوں کی بہترین تربیت کر نے کے اہل نہیں ہیں۔ ان اسکولوں کی عمارتیں اپنی مدد آپ کے تحت کھڑی ہیں جس کی تازہ ترین مثال ماضی قریب میں ضلع قمبر (لاڑکانہ) میں اسکول کے کمرے کی چھت گر جانے سے 2طلباء کے زخمی ہونے سے ملتی ہے۔حکومت نے غریب طبقوں سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کیلئے ماہوار وظیفے بھی مقرر کئے اور انہیں مفت نصاب بھی فراہم کیا اور حکومت کی ایک کوشش یہ بھی رہی کہ بچوں کو گائیڈ بکس کی ضرورت نہ پڑے لیکن حکومت کی طرف سے طالب علموں کو ماہوار ملنے والا وظیفہ زیادہ تر سرکاری اسکولوں کی انتظامیہ اور اساتذہ کے کام آگیا اور طالب علموں کو ماہوار کے بجائے صرف 6ماہ بعد کچھ وظیفہ دے کر خاموش کر دیا گیا۔حکومت کی طرف سے دی گئی نصاب کی کتابیں ردی کی دکان پر بک رہی ہیں۔ اساتذہ کی کلاسوں میں عدم موجودگی طالب علموں کو مہنگی گائیڈ بکس خریدنے پر مجبور کرتی ہے۔ کیا ہمارا ملک ان حالات میں ترقی کر سکتا ہے جہاں ایک غریب اور ایک امیر طبقے سے تعلق رکھنے والے طالب علموں میں نمایاں فرق نظر آتا ہے؟کیا اس طبقاتی نظام تعلیم کے ہوتے ہوئے ہمارا ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔ ہم گوروں سے جسمانی لحاظ پر تو آزاد ہوگئے لیکن ذہنی غلامی کا شکار اب بھی ہیں۔
Muhammad Ali Checha
About the Author: Muhammad Ali Checha Read More Articles by Muhammad Ali Checha: 25 Articles with 96026 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.