جنات کا وجود قران مجید اور احادیث نبوی سے ثابت ہے۔ حضرت
عبداللہ بن عمرو بن العاص کا قول ہے کی انسان کی تخلیق سے دو ہزار سال پہلے
جنات کو تخلیق کیا گیا تھا۔حضرت عبداللہ بن عباس کا کہنا ہے کہ آگ کی گرم
لو جو شعلے میں نظر نہیں آتی اس لو سے جنات کو تخلیق کیا گیا ہے۔
مولاناابواعلی مودوی نے بھی ابن عباس کے قول کی تصدیق کی ہے۔
جنات عام طور پر انسانوں کو نظر نہیں آتے ۔ مگر ہمارے ارد گرد رونما ہونے
والے واقعات ہمیں جنات کی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ جنات پر کھل کر
علمی بحث ایک مسلمان ماہر حیوانات اورمحقق جناب عمر بن بحر بن محبوب نے کی
ہے جو بصرہ کے رہنے والے تھے۔انھیں لوگ ان کی کنیت ابو عثمان کی بجائے ْ
جاحظ ْ کے لقب سے یاد کیا کرتے تھے۔ اس کا سبب ان کے چہر ے اور آنکھوں کی
غیر معمولی بناوٹ تھی۔ ان کی کتاب ْ حیوان جاحظ ْ میں جنات پر بحث کی گئی
ہے۔ مصنف کے مطابق جنات کی کئی اقسام ہیں، کچھ جن ادمیوں مین مل جل کر رہتے
ہیں اور کسی کو کوئی ضرر یا تکلیف نہیں پہنچاتے۔ ایسے جنا ت کو عامر کہا
جاتا ہے۔ شرارتی جنات جو لوگوں کو ڈراتے ہیں مگر نقصان نہیں پہنچاتے ایسے
جنات کوروح کہا جاتا ہے۔زیادہ شرارتی اور تنگ کرنے والون کو شیطان کے نام
سے یاد کیا جاتا ہے۔ سب سے خطرناک جنات کو عفریت کہا جاتا ہے۔ یہ آبادیوں
سے انسانوں کو اٹھا لے جاتے ہیں۔حضرت علی کے بڑے بھائی کا نام طالب تھا۔ ان
کے بارے میں سید سلیمان ندوی نے لکھا ہے کہ بچپن میں انھیں جن اٹھا کر لے
گئے تھے اور وہ کبھی بھی واپس نہیں آئے۔ عربوں میں عمرو بن عدی لحمی نام کا
ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا۔ اس کے بارے میں بھی کہا گیا ہے کہ اسے جنات اٹھا
کر لے گئے تھے۔اورکئی سال گذر جانے کے بعد اسے واپس بھی کر گئے تھے۔ خرافہ
نام کے ایک شخص کا ذکر بھی ملتا ہے جسے جن اٹھا کر لے گٗے تھے اور جب اسے
واپس کیا تو وہ بہکی بہکی باتیں کیا کرتا تھا۔ انسانوں میں بھی کچھ لوگوں
نے جنات کے ساتھ تعلقات بنا رکھے تھے۔ اہل یمن میں ایک گروہ کا یقین ہے کہ
ملکہ بلقیس جننی ( سعلاۃ) کی اولاد تھی۔ عربوں کی کتابوں کے حوالے سے علامہ
سید سلیمان ندوی نے لکھا ہے کہ عمرو بن یربوع نامی شخص نے ایک سعلاۃ کے
ساتھ شادی کی تھی اور اس کی اولاد بھی ہوتی تھی۔تابط شرا نام کا ایک عامل
تھاجس کی جنات کے ساتھ دوستیاں تھیں۔ ایک نام ابوالبلاد طہوی کا ہے جس نے
ایک بھوت کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
جنات کے بارے میں علمی تحقیق کم اور سنے سنائے قصے زیادہ ہیں۔ ان قصوں میں
عاملین جنات ایک بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ اسلام آباد کے مضافات میں ایک
عامل ہوا کرتے تھے۔ ان کے پاس جو بھی آتا اسے بتاتے کہ اس پر جنات کے ذریعے
کالا جادو ہوا ہوا ہے۔ اور وہ اپنے عمل کے ذریعے چند منٹوں میں دور دراز کے
شہروں اور قصبوں کے قبرستانوں میں دبائے تعویز جنات کے ذریعے نکال کر د
دیتے۔ اسی کی دہائی میں ان کا نذرانہ یا فیس گیارہ سو روپے ہوا کرتی تھی۔
میرے دیکھتے دیکھتے انھوں نے سڑک کنارے پلاٹ خرید کر مکان بنا لیا۔
کشمیر میں ایک عامل سے میری دوستی تھی۔ وہ فوج مین ملازم تھا اور مشرقی
پاکستان میں پوسٹنگ کے دوران اس نے کچھ عملیات سیکھے تھے۔ اس نے ایک بار
خود مجھے بتایا کہ اس نے اس عمل سے دو کروڑ کے اثاثے بنائے ہیں۔
انسان کے اندر حسد اور کینہ دوخصلیں ہیں ۔ عامل لوگ انسان کی ان خصلتوں کو
اپنی میزان کے ایک پلڑے میں رکھتے ہیں اور دوسرے پلڑے کو متاثرہ شخص کو
اپنی دولت سے برابر کرنے کا کہتے ہیں۔ میں نے اچھے خاصے تعلیم یافتہ لوگوں
کو عاملوں کا معمول بنتے دیکھا ہے۔
میرا ذاتی تجربہ ہے کہ کمزور قوت ارادی کے لوگ آگ کی پیداوار اس مخلوق کا
ایندہن بنتے ہیں۔ ان کے وہم کی پرورش عاملین جنات کرتے ہیں اور ان کو کھلی
آنکھوں سے جنات دوڑتے بھاگتے نظر آتے ہیں
|