کراچی کبھی عروس ا لبلاد کہلاتا تھا ، روشنیوں کا شہر
کہلاتا تھا ، بین الاقوامی شہر کہلاتا تھا، غریب پرور شہر کہلاتا تھااور
ہماری کم علمی کہ معلوم نہیں اور کیا کچھ کہلاتا تھا، کراچی کی سڑکوں کا
مقابلہ پاکستان کے کسی اور شہر سے نہیں کیا جاسکتا تھا، کراچی کی سڑکوں کی
ناصرف صفائی ستھرائی کی جاتی تھی بلکہ اہم شاہراہوں کی روز صبح ماشکی
دھلائی بھی کیا کرتے تھے، تانگہ بھی چلا کرتا تھا، بیل گاڑیاں بھی چلتی
تھیں اور بڑی بڑی گاڑیاں بھی سڑکوں کو رونق بخشاکرتی تھیں۔ کراچی کی ایک
بین الاقوامی شہرت یافتہ سواری ڈبلیو ۱۱ ویگن بھی سڑکوں کی رونق تھی ۔ پیدل
چلنے والوں کا احترام ہوتا تھا ایک دوسرے سے حال احوال ، خیر عافیت طلب کی
جاتی تھی۔ سب طرف رونق ہی رونق تھی، چہل پہل تھی ، ادب تھا ادبی بیٹھکیں
تھیں ، میلاد و مجالس کی محفلوں کی طرح گرجا گھراور مندر بھی بلاخوف و خطر
آباد تھے ، شعلہ بیان مقررین تھے ، شعراء تھے اور سب سے بڑھ کر صاحب علم
لوگوں کی ایک کثیر تعداد شہر کی روشنیوں کے اصلی مینار تھے ، تعلیم اور
شعور کی بہتات تھی ،ادب سے لبریز اردو زبان مخصوص لب و لہجہ لئے گلی محلوں
اور بازاروں میں گونجتی رہتی تھی اور کانوں میں خوب چاشنی گھولتی تھی ۔
تعلیم تھی تربیت تھی ، ادب تھا لحاظ تھا ۔ وہ ادھ کھلی کھڑکیوں سے تانکہ
جھانکی تھی اور وہ نقابوں سے جھانکتی محبت کی داستانیں تھیں۔ وہ مٹی کے
چولوں میں پھونکنی سے آگ جلانے میں کوئی دقت نہیں تھی ، روٹیاں بنانے میں
کسی کو کوئی دقت نہیں تھی، کم گوشت والے جسم تھے، سالن میں بھی پانی کی
فراوانی تھی ۔ لوگ محنت مشقت آج سے بھی زیادہ کرتے تھے ، میلوں پیدل چلا
کرتے تھے ، لیکن تھکن سے مزاج نہیں بگڑتے تھے لہجے تلخ نہیں ہوتے تھے اورسب
سے بڑھ کر وقت بھی بچالیتے تھے اور ذرا دیر کو حقہ سلگا لیتے تھے۔ نا زبان
تقسیم کرتی تھی نا مذہب میں اتنی دیواریں تھیں۔معلوم نہیں کہ کراچی حقیقت
پسندنہیں تھا لیکن ترقی پسند ضرور تھا ۔ کراچی شہر اپنے ہوش و حواس میں بہت
خوش و خرم تھا ہر کسی کی بہت پرواہ کیا کرتا تھا، آؤ بھگت کیا کرتا تھا۔
وقت بدلتا ہے ، وقت بدل گیا، ان دونوں جملوں کے بیچ میں اتنا کچھ ہوا کہ جس
کا اندازہ لگانے بیٹھتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ انسان نے دنیا کو
اپنے رہنے کے قابل بنانے کی کبھی کوئی حد طے نہیں کی اور کر بھی کیسے سکتا
تھازیادہ سے زیادہ سہل پسندی(آرام طلبی کی سہولیات) نے انسان کو مسلسل
جدوجہد کی عادت ڈال دی اور اب یہ عادت فطرت میں تبدیل ہوچکی ۔ آج ہر کوئی
اس فطرت پر عمل پیرا ہے اور اس عمل کی لت میں لتھڑتا ہی چلا جا رہا ہے ۔
بدلاؤ کسی نا کسی طرح من کیلئے تکلیف کا سبب بنتا ہے ، بچہ جب اسکول جانے
کی عمر کو پہنچتا ہے تو اسکے ساتھ ساتھ والدین کیلئے بھی بدلاؤ کا وقت ہوتا
ہے اب بچے کو اسکول بھیجنا ہے اپنے سے الگ کرنا ہے پچھلے دو تین سال کا ہر
وقت کا ساتھ اب کچھ وقت کی دوری میں بدلنے جا رہا ہے اور جو کہ دل کے کسی
نا کسی خانے میں دکھ کی شکل بن کر بیٹھ جائے گا اور یہ دکھ زندگی کے آخری
وقت تک ساتھ جائے گا(دوری کا یہ سلسلہ طویل تر ہوتا چلا جائے گا)۔ بدلاؤ
میں دکھ کی آمیزش ہوتی ہے برس ہا برس سے گھر میں رکھی ہوئی کرسی جو کہ
بارہا مرمت کے بعد اب تبدیل کی جانی ہے اپنے بچھڑنے کا کہیں نا کہیں دل میں
تھوڑا بہت دکھ چھوڑتی ہے ۔
گاؤں دیہاتوں کا خالص پن ختم کرنا ہوتو وہاں سڑکیں بنادی جائیں تاکہ ترقی
کو سادگی اور ایمانداری کو بے ایمانی سے تبدیل کر کے ترقی کی داغ بیل ڈال
دی جائے، شائد یہ باتیں دقیانوسی محسوس ہورہی ہوں لیکن اس بات سے اختلاف
کیا جاسکتا ہے ۔ دورِ حاضر میں تو سڑک سے زیادہ خطرناک انٹرنیٹ کی سہولت بن
چکی ہے ۔کراچی جو کہ ایک زندہ جیتا جاگتا، بین الاقوامی شہر تھا ، ترقی کی
دوڑ میں شامل ہونا شروع ہوا ۔کراچی کا محل وقوع واضح ہونا شروع ہوا دنیا کے
حکمت عملی سازوں نے کراچی کی اہمیت کو بھانپ لیا مگر بد قسمتی سے پاکستانی
اس اہمیت کی بوتک محسوس نا کرسکے ۔ترقی کی گھنٹی بجنا شروع ہوئی ، ترقی نے
کراچی کی سڑکوں پر دوڑ لگانا شروع کردی۔ ابھی ترقی کراچی سے دور تھی کے
نامعلوم افراد نے کراچی میں ڈیرے ڈال لئے بس پھر کیا تھا کہ کراچی میں
خونریزی کی وارداتوں نے جنم لینا شروع کیا ، انسانیت کا قتل عام ہونے لگا
کراچی کے شہری ڈر گئے سر شام اپنے اپنے ٹھکانوں کا رخ کرنے لگے ، اسکول
کالجوں اور دیگر تعلیمی اداروں کو تالے لگنا شروع ہوگئے ، کھیل کے میدانوں
میں کتے لوٹنے لگے ، کراچی سہم گیا اور سہمتا بھی کیوں نا، کہیں نا کہیں
بوری میں بند لاشیں ملنا شروع ہوگئیں، گلی محلوں میں لاشیں پڑی ملنے لگیں۔
سرِ راہ لوٹ کھسوٹ عام سی بات ہوگئی، ایک معمولی سی چیز کی خاطر جان لی
جانے لگی، املاک کو گاڑیوں کو آگ لگائی جانے لگی کراچی نے سہمنا ہی تھا (حالات
کی سنگینی اس حد تک بڑھی کے کراچی والے ذہنی معذور ہونے لگے)۔دشمنوں کی
سازشیں رنگ لائیں، دنیا کی نظروں میں کراچی اپنا مقام کھوتا چلا گیا، جن
لوگوں کے پاس وسائل تھے انہوں نے ملک بدر ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ کاروبار اور
کاروباری کسی اور شہر کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے یہاں تک کہ پاکستان میں
کراچی ایک سیاہ دھبا بنتا چلا گیا۔ بدلاؤ کی اس دوڑ میں کراچی لہولہان
ہوگیا، کراچی کی ایک نسل اس بدلاؤ کی بھینٹ چڑھ گئی جبکہ کراچی کی دو نسلیں
علم سے دور ہوگئیں ہر دو نمبر کام عام ہوگیا، نا مسجد محفوظ رہی نا ہی مندر
اور نا ہی کلیسا ء ساری سجدوں کی جگہیں لہولہان ہوگئیں۔کوئی پرسان حال نہیں
تھا۔ کراچی جو کبھی خوفزادہ نہیں ہوا تھا ، خوفزدہ دیکھائی دینے لگا۔ کراچی
نے جنہیں اپنا والی وارث بنایا تھا یا جو کراچی کے والی وارث بنے پھرتے تھے
وہی کراچی کو اس حال میں پہنچانے والوں کی صفہ اول میں شامل تھے۔
بدلاؤ میں پھر بدلاؤ آیالیکن کراچی اب وہ کراچی نہیں تھا ،کراچی اب نئے سرے
سے آباد ہونا شروع ہوا اورملک کے خصوصی طور پر پسماندہ علاقوں سے لوگوں نے
کراچی پہنچنا شروع کیا جس کو جہاں جگہ ملی اس نے پڑاؤ ڈال لیا ۔ کراچی کے
دوردراز علاقوں میں نوآبادیاں آباد ہونا شروع ہوگئیں اور کسی گاؤ ں دیہات
جیسے مناظر عام دیکھائی دینے لگے۔ شہر لاوارث سا دیکھائی دینے لگا جس کو
جہاں جگہ ملی اسنے اپنا ٹھکانا وہیں بنا لیا۔بے تحاشہ ایسے مقامات اندرونِ
شہر موجود ہیں جہاں کچی بستیاں باقاعدہ آباد کرلی گئی ہیں۔ دیکھتے ہی
دیکھتے کراچی کی سڑکیں گنجلک ہوتی چلی گئیں ، بین الاقوامی شہر کی اہم ترین
شاہراہوں پر چنگچی نامی سواری اپنی آواز اور دھویں سے ماحولیاتی آلودگی میں
اضافہ کرتی بغیر کسی قانون کی اجازت کے دوڑتی پھر رہی ہیں، یہ وہ سواری ہے
کہ جس کے باعث شہر میں بے تحاشہ حادثات رونما ہورہے ہیں۔ شہر کی آبادی
دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں سے کروڑوں میں منتقل ہوگئی ۔ مختلف مافیائیں تھوڑے
ٹھوڑے پیسے لیکر ذاتی مفادات کی خاطر شہر کی خوبصورتی اور اہمیت کو نقصان
پہنچاتے چلے گئے ۔ پورا ملک بغیر کسی حکمت عملی کے چلتا رہا اور اسکا سب سے
زیادہ نقصان کراچی کو اٹھانا پڑا۔ کسی کو سیاسی احتجاج کرنا تھا تو وہ اٹھا
اور سیدھا کراچی پہنچ گیا ، کسی کو مذہبی دھرنا دینا تھا تو وہ کراچی پہنچ
گیا کسی کو انسانی حقوق کیلئے ریلی نکلانی تھی تو وہ کراچی پہنچ گیا۔ بڑھتی
ہوئی آبادی کی وجہ سے کراچی میں پانی کاشدید بحران پیدا ہوگیا ، کراچی میں
ہر طرف کچرے کے ڈھیر دیکھائی دینے لگے، کراچی میں ٹریفک کا بحران پیدا ہو
گیا، کراچی میں نکاسی آب کا مسلۂ طول پکڑتا جا رہاہے، کون سا ایسا مسلۂ ہے
جو پاکستان اور خصوصی طور پر کراچی میں نا پایا جاتا ہو۔ ابھی کراچی سے
کچرے کا ڈھیر پوری طرح سے اٹھایا نہیں جا سکا تھا کہ کراچی کو ملبے کا ڈھیر
بنادیا گیا ہے۔کراچی نے دوبارہ جینے کا حق ہی نہیں مانگا۔
یہ ایک بہت ہی تلخ بات ہے کہ پاکستان حقیقی معنوں میں حکمتِ عملیاں مرتب
کرنے والوں سے محروم رہا ہے ۔ پاکستان میں حکمت عملیوں کی ترتیب دی گئی
لیکن وہ تھیں ذاتی مفادات پر مبنی حکمتِ۔ جس کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ
پاکستان میں افراد تو امیر سے امیر تر ہوتے چلے گئے لیکن ادارے تباہ و
برباد ہوگئے اور جو بچے ہیں وہ تباہی کے سفر پر گامزن ہیں ۔کراچی آج بھی
خود ساختہ معاشی حب سمجھا جاتا ہے ۔یعنی حکمتِ عملیوں کا فقدان بھی اس کی
اہمیت کو کم نہیں کرپایہ ہے ۔
کراچی کو مفادات کی بھینٹ چڑھانے والے کوئی باہر سے آئے ہوئے لوگ تو نہیں
تھے، کراچی کو لاوارث کس نے کیا ہے ۔ سیاسی جماعتیں کراچی سے انتخابات اپنی
نشتوں کی گنتی بڑھانے کیلئے لڑتی ہیں کراچی کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا ۔اردو
زبان کو اپنے لب ولہجے سے گھن آتی ہے ، اب تو ادب بھی بے ادب ہوتا چلا جا
رہا ہے ۔ کراچی میں جب جب تاریکی چھاجاتی ہے ، کراچی روتا ہے ، کراچی کی
سسکیاں ہمارے کانوں میں گونجتی ہیں مگر ہم سب بے حس ہوچکے ہیں ۔ کراچی کی
زمین رلتی چلی گئی ، نازک مزاج کراچی بستر مرگ پر پہنچنے کوہے۔ کراچی اب سب
سے بے پرواہ ہوگیا ہے اب کراچی کو وارثوں کی ضرورت ہے اور نا ہی کسی
مسیحاکی، کراچی ایدھی ہوم میں رکھا ہوا ، دنیا و مافیا سے بیخبر ایک مست یا
پاگل ہے جسے زندگی کی وحشتوں نے اتنا ستایا کہ وہ اپنے ہو ش حواس کھو
بیٹھاہے اور خود کو وقت کی بے رحمی کہ حوالے کر بیٹھا ہے۔ |