تحریر:سید وقاص الدین احمد
سرزمین کراچی کو اس بات پر فخر حاصل ہے کہ اس کی کوکھ سے کئی نامور شخصیات
نے نہ صرف جنم لیا بلکہ بین الا اقوامی سطح پر شہرت حاصل کی انہیں شخصیات
میں بابائے قوم حضرت قاعد اعظم محمد علی جناح کا نام سر فہرست ہے انہوں نے
اپنی جرات مندانہ صلا حیتوں کی بنیاد پر نہ صرف عالمی سطح پر اپنی قائد انہ
صلا حیتوں کا لاہا منوایا بلکہ بر صغیر کا موجودہ بدلا ہوا نقشہ بھی انہیں
کی مرہون منت ہے ان کی یہی قائدانہ صلاحیتیں تھیں جس کی بنیاد پر انہوں نے
نہ صرف بر صغیر کی تاریخ کا رخ موڑ دیا بلکہ اپنی دلیرانہ قیادت سے
مسلمانوں کی عظمت رفتہ کو بحال کرنے کے لئے مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن
حاصل کیا اور آسودۂ خاک ہو گئے اور آج افسوس تو اس بات کا ہے اس خالق وطن
جس نے ہمیں پاکستان کا تحفہ دیا کو ہم بھول بیٹھے ہیں جس کے تحت آج تک ہم
قائد اعظم کی تاریخ کو ٹھیک نہیں کر سکے اکثر لوگ ان کی تاریخ پیدائش20
اکتوبر تو بیشتر لوگ 25دسمبر بتاتے ہیں جبکہ ان کی جائے پیدائش کے حوالے سے
بھی اب تک ٹھوس طریقے سے اس بات کا تعین نہیں کیا جا سکا کہ وہ جھرک میں
پیدا ہوئے یا کراچی میں اسی طرح ہم میں سے بیشتر لوگ یہ نہیں جانتے کہ ان
کی آخری آرام گاہ کب اور کیسے تعمیر ہو ئی ہم سب مل کر ہر سال یوم آزادی ،یوم
دفاع کے موقع پر اے قائد اعظم تیرا احسان کے ملی نغمے گا کر ان 2دنوں میں
قائد کا احسان چکاتے نظر آتے ہیں مگر ہم میں سے اکثر بابائے قوم کے حیات و
افکار سے نا بلد ہیں اور ان کے چھوڑے ہوئے مشن کو پورا کرنے سے بھی قاصر
نظر آتے ہیں اب جہاں تک قائد اعظم کی یادوں کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں
کھارادر کے علاقے میں ان کی جائے پیدائش وزیر مینشن فاطمہ جناح روڈ پر ان
کا ذاتی گھر قائد اعظم ہا ؤس میوزیم اور کلفٹن کے علاقے میں ماہوٹا پیلس
موجود ہے جبکہ ان کی آخری آرام گاہ نمائش کے علاقے میں واقع ہے جس کے بارے
میں یہ کہا جاتا ہے کہ جب قائد اعظم محمد علی جناح کا انتقال ہوا تو اس وقت
اس بات کی پریشانی ہوئی کہ قائد اعظم کو ان کے شایان شان کے مطابق شہر کے
کون سے علاقے میں سپرد خاک کیا جائے اس سلسلے میں کمیٹی نے 5مقامات کا تعین
کیا گیا مگر مادر ملت فاطمہ جناح کو مذکورہ جگہ نہ بھائی جس پر قائد کی
تدفین کے لئے ذمہ داری اس وقت کے کراچی کے ایڈ منسٹریٹر ہاشم رضا کو سونپی
گئی جنہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کی مشاورت سے شہر کے عین وسط میں ایک بلند
مقام جہاں مہاجرین کی بستیاں آباد تھیں کی جگہ کا انتخاب کیا گیا اور بھارت
سے آنے والے مہاجرین نے فوری طور پر یہ جگہ خالی کر دی جس پر قائد اعظم
محمد علی جناح کو اسی مقام پر سپرد خاک کر دیا گیا اور پھر 21 جنوری1956 کو
وفاقی کابینہ نے مزار قائد اعظم کی تعمیر کا فیصلہ کیا اور مزار کے ڈیزائن
کے لئے ایک بین الا قوامی مقابلہ منعقد کرایا گیا اور اس مقابلے میں یحیحی
مر چنٹ کے پیش کر دہ ڈیزائن کی منظوری دے دی گئی تعمیراتی کام کا با قاعد
آغاز 8فروری1960کو کیا گیا اور 31مئی 1966کو مزار کا بنیادی ڈھانچہ مکمل کر
لیا گیا بارہ جون 1970کو عمارت کو سنگ مرمرسے آراستہ کرنے کا کام پایا
تکمیل کو پہنچا پھر دسمبر 1970چین کے مسلمانوں کی ایسوایشن کی جانب سے 81فٹ
لمبا خوبصورت فانوس گنبد میں نبس کر دیا گیا اس گنبد میں 41 طاقتور بر قی
قمقمے نضب تھے مزار کی تعمیر پر آنے والے تمام اخراجات جو کہ 1 کروڑ 48لاکھ
روپے تھی عوام کے چندوں اور وفاقی اور صوبائی حکومت کے عطیات سے مکمل ہوئی
مزار قائد کی اونچائی سطح سمندر سے 91فٹ بلند رکھی گئی اور 131.58ایکڑ ہے
جس پر بعد میں باغ لگائے گئے اور ان میں باغ ،راہ داریاں،فوارے ،آبشاریں
نضب کی گئی اور اس کے بعد اسے 15 جنوری 1971کو عوام کے لئے کھول دیا گیا جس
کے بعد عوام کا ایک جم غفیر روزانہ بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی
جناح کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لئے آتا ہے پھر 1995میں مزار کو مزید
خوبصورت اور سر سبز بنانے کی منظوری دی گئی اور اس کانام باغ قائد اعظم
رکھا گیا مزار کے احاطے میں لینڈ لائٹس ،ٹاپ لائٹس اور زیر آب لائٹس کا جال
بچھادیا گیا جس کے بعد مزار قائد مکمل طور پر ایک باغ بن گیا جس کے مختلف
ناموں سے 5 دروازے ہیں جن میں باب جناح ،باب قائدین ،باب تنظیم ،باب امام
اور باب اتحاد کا نام دیا گیا اور اس تمام کام میں تقریبا 4لاکھ 28ہزار
مربع فٹ سنگ مرمر 4 ہزار ٹن سیمنٹ 565ٹن فولاد 64ہزار فٹ پائپ 248زیر زمین
روشنیاں 69راستوں کی روشنیاں 64چبوترے کی فلڈ لائٹس کا استعمال کیا گیا اور
اس تمام کام میں 33کروڑ روپے کی لاگت آئی جبکہ باغ کو مزید خوبصورت بنانے
کے لئے 36اقسام کے 5ہزار درخت 46749مربع فٹ گھاس اور ڈھائی ہزار بینچیں
بنوائی گئیں جس کے سبب اسے آج کراچی کے سب سے پر رونق اور حسین باغ کا درجہ
دیا جاتا ہے جس کا انتظام مزار قائد مینجمنٹ بورڈ چلاتی ہے مزار مینجمنٹ
بورڈ کے سیکریٹری انجینئر محمد عارف اوصاف نے مزار قائد کے حوالے سے مزید
جاننے کے لئے ان کے دفتر میں گفتگو کی تو انہوں نے کہا کہ باغ قائد اعظم
محبتوں کا امین ہے جہاں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ روزانہ نہ صرف مزار
پر حاضری دیتے ہیں بلکہ بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کو خراج
تحسین بھی پیش کر تے ہیں ان کا کہنا یہ بھی تھا کہ مزار قائد مختلف ممالک
کے درمیان پاکستان کے تعلقات کے فروغ کے لئے بھی نمایاں کام کرتا ہے یہی
وجہ ہے کہ ہمارے دنیا بھر سے اچھے تعلقات استوار ہورہے ہیں انہوں نے کہا کہ
چائنہ اور پاکستان کے قریبی تعلقات بھی اسی مزار کے مرہون منت ہے چائنہ نے
پاکستان سے دوستی مضبوط کر نے کے لئے آج سے 46سال قبل مزار قائد کو ایک
فانوس کا تحفہ پیش کیا تھا اور 46سال گزر جانے کے بعد اس نے فانوس پرانا ہو
جانے کے پیش نظر ایک اور فانوس کا تحفہ دیا ہے جس کا وزن 2من قطر28 مربع
میٹر ہے جبکہ اس میں 48بر قی قمقمے اور 8.3کلو گرام سونے کا بھی استعمال
کیا گیا ہے اس فانوس کو نضب کرنے کے لئے چائنہ سے انجینئر اور ٹیکنیشن کی
ایک 13رکنی ٹیم نے 5نومبر کو فانوس نضب کرنے کا کام شروع کیا تھا جو کہ 24
نومبر کو مکمل کر لیا گیا یہ فانوس چائنہ اور پاکستام کی دوستی کو مزید
مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کرے ۔ |