زراعت کا معاشی ترقی میں کردار

معاشی ترقی کسی ملک کے لیے اتنی ہی اہم ہوتی ہے جتنی کہ سمندر میں تیرتی مچھلی کے لیے پانی اہم ہوتا ہے۔معاشی ترقی کہ ہونے کی وجہ سے کئی ملکوں کا نام صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے۔ آج کل جنگی مقابلوں کے برعکس معاشی مقابلے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔جس ملک کی معاشی ترقی عروج پر ہے وہ جنگی عروج والے ملک کو بھی زوال پذیر کرنے لگ جاتا ہے۔معاشی ترقی نے اس وقت کی غربت کی دنیا کو اپنے گرد سموئے رکھا ہے۔

معاشی ترقی والے ملک کے لوگ حوشحال نظر آتے ہیں۔وہاں تعلیم کا نظام بہترین سہولیات سے مزین ہوتا ہے۔دہشتگردی کے امکانات کم گردش میں ہوتے ہیں۔غیر ملکی لوگ کثرت سے وہاں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔وہاں کے لوگ درآمدی اشیاء کے بجائے برآمدی اشیاء کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔وہاں انفراسٹرکچر کا نظام رول ماڈل ہوتا ہے۔وہاں گندگی کو گند سمجھا جاتا ہے۔ صفائی ستھرائی کا حد سے زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔وہاں شہریوں کا معیار زندگی بہتر ہوتا ہے اور بہتر مستقبل کے امکانات زیادہ نمایاں نظر آتے ہیں۔

معاشی ترقی کے لیے یکساں قوانین کا ہونا ناگزیر ہے۔سب سے پہلے کاروبار کرنے والوں کے لیے مناسب قوانین بنائے جائیں اور ان کا اطلاق بلا امتیاز کیا جائے۔سمگلنگ جیسی مہلک بیماری سے معیشت کو پاک کیا جائے۔بجلی کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کی ترغیب اور محفوظ سرمایہ کاری کا یقین دلایا جائے۔ہمارا ملک "پاکستان" عالمی مارکیٹ کے لیے اس وقت حد سے زیادہ اہمیت کی راہیں اختیار کرگیا ہے۔یہاں محنت اور کاروبار کے فروغ کی حاجت روائی کرنی چاہیے۔یہ ملک ایک زرعی ملک ہے۔زراعت کے شعبے کو خاص اہمیت دینی چاہیے جو کہ اب تک نظروں سے اوجھل ہے۔زراعت شجر پاکستان کے لیے ایک جڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔یہاں کی 60 فیصد سے زائد آبادی اس سے وابستہ ہے۔زر مبادلہ میں زراعت کا حصہ 22 فیصد ہے۔اس ملک میں پیدا ہونے والی کپاس،گندم،چاول اور گنا کی فصل عالمی مارکیٹ میں خاص اہمیت رکھتی ہے۔اس کے باوجود ملک میں زرعی شعبے کی ترقی میں سست روی کا شکار ہے۔

زراعت کے شعبے میں زرعی ٹیکسوں نے زراعت کو صرف مہنگا ہی نہیں مشکل بنادیا ہے۔ موجودہ حالات میں کسان کھیتی باڑی کرنے کے بجائے اپنی زمینیں فروخت کرکے شہروں کا رخ کررہا ہے۔فی الوقت تو یہی کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے اگر یہی کچھ بدستور جاری رہا تو ملک کی زرعی صورتحال انتہائی گھمبیر شکل اختیار کر لے گی۔ کھاد مہنگی ہونے کی وجہ سے پیداوار میں کمی کا سبب بن رہی ہے۔کسان کا تعلیم یافتہ نہ ہونا بھی جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ حاصل کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔زہریلی زرعی ادوایات کی وجہ سے بھی پیداوار میں کمی واقع ہو رہی ہے۔زراعت کی ترقی کے بغیر صنعتی ترقی بھی ناممکن ہے۔زراعت کی ترقی کی وجہ سے ہی صنعتی اور معاشی ترقی حاصل ہوسکتی ہے۔

زراعت کی ترقی کے لیے کسان دوست پالیسی اختیار کرنی پڑے گی۔کسان کے بغیر زراعت میں خودکفیلی اونٹ کو سوئی کے سوراخ میں سے گزارنے کے مترادف ہے۔ڈیم نہ ہونے کے باعث سیلاب بھی زراعت کی تباہی کا سبب بن رہا ہے۔ہمارا ملک زراعت میں ترقی کرسکتا ہے اس کے لیے حکمرانوں کی خودنیتی اور نیک نیتی درکار ہے۔سیاسی بیانات سے ٹالنے کے برعکس بہترین منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہے۔صرف بیانات سے اس ملک کا بھلا ممکن نہیں ہے۔اگر اس ملک کا بھلا کا ارادہ ہے تو اس شعبے کو اپنی ترجیحات میں شامل کرنا چاہیے اور سہولیات فراہم کرنی چاہییں۔

اگر حکومت زراعت کے شعبے کو اپنی ترجیحات میں شامل کرلے،اس کے گوناگوں مسائل میں دلچسپی رکھے، کسان دوستی کا ماحول فراہم کرے،جدید ٹیکنالوجی کی اہمیت سے آگاہ اور فراہم کرے تو شعبہ زراعت میں ترقی یقینی ہے۔ پاکستان قدرتی ذخائر اور وسائل سے مالا مال ملک ہے۔بس! یہاں صرف ضروت ہے باہمت اور پرعزم قیادت کی۔ایسی قیادت کی جو صرف اس ملک کا بھلا چاہتی ہو۔جو اس ملک کے مسائل سے نمٹنا جانتی ہو۔جو دیانتداری اور خلوص کی صفت سے متصف ہو تو یہ سب کچھ ممکن ہے اور ہو کر رہنے والا ہے۔

Luqman Hazarvi
About the Author: Luqman Hazarvi Read More Articles by Luqman Hazarvi: 24 Articles with 25207 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.