موجودہ دور میں جب ہر چیز بدل رہی ہے تو کیا یہ ممکن نہیں
کہ میرے سپنے پورے ہو جائیں ۔فروا نے رابیل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ رابیل
ہنسی ۔ پاگل تم جنہیں سپنے کہتی ہو وہ نا ممکن سی باتیں ہیں ۔ مجھے تو سمجھ
نہیں آتی ،تم ایسے سوچ بھی کیسے سکتی ہو۔ فروا نے رابیل کی طرف افسردگی سے
دیکھتے ہوئے لمبی سی آہ بھری ۔ کیا ایسا کبھی نہیں ہو سکتا جو میں چاہتی
ہوں۔ رابیل نے سنجیدگی سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ تم اگر یہ کہہ رہی
ہوتی کہ اپنی مرضی کی شادی تمہارا سپنا ہے تو شاہد ممکن تھا۔ تم یہ کہہ رہی
ہوتی کہ اچھا لباس زیور تمہار ا خواب ہے تو شاہد وہ بھی مل جاتا مگر تم جو
کہہ رہی ہو ،اس کا تصور نہیں ہے۔ ہمارے ہاں کی لڑکیاں اس طرح کے سپنے نہیں
دیکھتی بہن۔ رابیل کی باتوں سے چڑ کر فروا نے کہا ۔ ہمارے ہاں کی لڑکیاں
سپنے دیکھتی کہاں ہیں ۔ وہ تو دیکھتی ہی وہ ہیں جو انہیں دیکھایا جاتا ہے۔
جیسے گھوڑے کی انکھوں پر وہ سائیڈوں پر نہیں لگا دیتے کہ آگے پیچھے نہیں
بلکل سیدھا دیکھے ویسے ہی لڑکیوں کے ساتھ کیا جا تا ہے۔ شادی اور فقط شادی
ہی ان کی منزل رہ جاتی ہے۔ رابیل نے ہنستے ہوئے کہا تو کیا کریں ۔
دنیا گھومنے کا پروگرام بنائیں تمہاری طرح۔ تمہیں پتہ ہے اسلام میں نا محرم
کے بغیر سفر نہیں ہے ۔ سمجھی۔
فروا نے غصے سے کہا، یہ اسلام صرف ہمارے لیے ہی ہے۔مجھے تو لگتا ہے،ابھی وہ
بولنے ہی والی تھی کہ رابیل نے غصے سے کہا۔ کوئی بکواس نہیں کرنا ۔ مجھے تو
لگتا ہے تم مسلمانوں کے گھر پیدا ہو کر بھی کافر ہی ہو۔ فروا کے چہرے پر
مسکراہٹ آ گئی ،وہ ایک آہ بھرتے ہوئے بولی ۔ اپنی مرضی سے جینے کی چاہت
اگر کفر ہے تو میں کافر ہی سہی۔ رابیل نے کتابیں سمیٹی اور واپس کلاس روم
کی طرف دیکھا۔ فروا نے بھی کپڑوں کو جھاڑا وہ سکول کی ان سیڑھیوں پر بیٹھی
تھیں جو کہیں نہیں جاتیں تھی۔ بس تین سیڑھیاں ۔ فروا نے نیچے سے اوپر اور
اوپر سے نیچے چڑھتے اور اُترتے ہوئے کہا۔ ابھی میری زندگی ایسی ہے مگر میں
وہ سیڑھی چاہتی ہوں جو منزل تک لے جاتی ہو۔
رابیل نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کھنچتے ہوے کہا۔ فروا چلو کلاس میں مس چلی گئی
ہے ۔ فروا نے ہنستے ہوئے کہا۔ چلو ،آج مس کو مس کر دیں ۔ رابیل ہنسی ۔نہیں
نہیں کہتی ہوئی کلاس کی طرف بھاگ گئی۔
ستر لڑکیوں کی کلاس میں آخری بینچ میں فروا اور رابیل جا کر بیٹھ گئی۔ یہ
ہی ان کی روز کی جگہ تھی اور یہ ان کی کلاس۔فروا نے رابیل کو ٹانگ مارتے
ہوئے کہا۔ یہ مس کاکون سا والا بیٹا ہے۔ رابیل نے کاپی پر چار لکھا۔ فروا
نے کاپی پر اس چار کے نیچے لکھا۔تمہیں یاد ہیں فارمولے ۔ابھی اس نے اپنی
پنسل اوپر کی ہی تھی کہ مس غزالہ نے فروا کا نام لیتے ہوئے کہا۔ فروا آپ
آئیں اور بتائیں کہ جب پانی کا مالیکیول کاربن سے ملتا ہے تو کیا بنتا ہے۔
یہ بھی بتائیں کہ جلنے کے عمل کے بعد کیا مادہ کی مقدار کم ہو جاتی ہے ،اگر
نہیں تو کیوں نہیں اور اگر ہو جاتی ہے تو اس کے متعلق دلائل دیں ۔
فروا بلیک بورڈ کے پاس پہنچی ہی تھی کہ ٹیچر نے اسے چاک تھما دیا۔ اس نے
ٹیچر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ پہلے کس سوال کا جواب دینا ہے ۔ پانی والے کا
یا آگ والے کا۔ آگ کا پہلے دے دوں ۔ پانی کا بعد میں آئے گا تو اچھا رہے
گا۔ پوری کلاس ہنس رہی تھی جبکہ فروا مس کی طرف معصومیت سے دیکھ رہی تھی۔
مس نے اپنے بیٹے کو ایک سٹوڈنٹ کی کاپی چھین لینے سے روکنے کی نا کام کوشش
کی تھی ۔ اپنی ناکامی کا سارا غصہ انہوں نے فروا پر نکالتے ہوئے کہا، جس کو
آتا ہوتا ہے وہ جواب دیتا ہے سوال پر سوال نہیں کرتا۔ پانی والے سوال کا
جواب پہلے دو۔ فروا نے مس کی طرف پھر معصومیت سے دیکھتے ہوئے کہا ،سوال کیا
تھا۔ اس بار پوری کلاس اس ذور کی ہنسی کہ ٹیچر کا خود پر قابو پانا مشکل
تھا۔ ٹیچر نے غصے سے فروا کو باہر جانے کا کہا۔
فروا باہر کھڑی تھی اور سوچ رہی تھی کہ کلاس سے باہر نکالنے تک تو ٹھیک مگر
یہ ٹیچر ہر روز ہاتھ اوپر کھڑے کرنے کا کیوں کہتی ہیں ۔ آسمان تک تو جاتے
نہیں ،کچھ بھی کر لیں ۔ کبھی وہ آسمان کو دیکھتی تو کبھی اپنے کالے شوز۔
جو اس نے لنڈا بازار سے اپنی امی کے ساتھ جا کر لیے تھے۔ اس کے ابا رکشہ
چلاتے اور امی اس سمیت نو بہن بھائیوں کو سنبھالتی۔ فروا کا نمبر پانچ
تھا۔اپنے بہن بھائیوں میں وہ پہلی تھی جو نویں کلاس تک پہنچی تھی۔ اگرچہ وہ
لائق نہیں تھی مگر جب وہ پاس ہو جاتی تو سارے گھر میں اس کو واہ واہی ملتی
۔ جو اسے بہت پسند تھی۔ وہ اپنے چونتیس ،پینتیس نمبروں پر بھی اتراتی
پھرتی۔
اس کے چچا کے لڑکے حید ر نے بھی رکشہ لے لیا تھا۔ اس سے اس کی نسبت بچپن
میں ہی طے کر دی گئی تھی۔ حیدر جب بارہ سال کا تھا تو فرواپیدا ہوئی ۔ اس
کی دادی نے مسکراتے ہوئے کہا۔ حیدر کا کام بن گیا۔ حیدر کے ابا نے فروا کے
ابا سے ہنستے ہوئے کہا۔ تو راضی ہے اماں کی بات پر ۔ فروا کے ابا نے حیدر
کو اپنے سینے سے چپکاتے ہوئے کہاتھا۔ کیوں نہیں ، بھتیجے سے بڑھ کر کون ہو
سکتا ہے۔ اس کے لیے تو جان حاضر۔
فروا کی شادی کا فیصلہ اسے گھٹی دینے سے پہلے ہی ہو گیا تھا۔ فروا انکھیں
بند کیے دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔ اس کی ماں نے پاس آ کر اس کے
سر پر ایک ہلکی سے چپت لگاتے ہوئے کہا۔ اُٹھ تیری جوئیں دیکھوں ۔ فروا کچھ
کہے بغیر اُٹھ کھڑی ہوئی ۔ اس نے امی کی طرف دیکھتے ہوئے بیزاری سے کہا۔یہ
کڑوا تیل نہیں لگانا ۔ سمجھی۔ اس کی ماں نے اسے بازو سے پکڑ کر نیچے گھسیٹا
اور بولی ۔ توپھر تو خود ہی نکال لے۔
فروا اپنی امی کی گرفت میں افسردگی سے بیٹھی تھی۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس
کے دماغ میں جو سوال آتے کرتی جاتی۔ امی کیا تمہارے سر میں بھی جوئیں
ہوتیں تھیں۔ امی نے جو ں کو مارتے ہوئے کہا۔ چپ کر کے بیٹھ۔فروا نے پھر
سوال کیا ۔امی تو تنگ نہیں پڑھتی ۔ہم سب کے کاموں سے ، تجھے نہیں لگتا ہم
کچھ زیادہ ہیں ۔ جو لوگ کہتے ہیں ، بچے دو ہی اچھے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب اس کی
امی نے اس کی بات کو کاٹ کر کہا ۔ تو کرنا نا دو۔ میں تو اپنی گزار بیٹھی
اب تو کرلینا اپنی۔ یہ کہہ کر امی ایسے ہنسی ، جیسے فروا کا مذاق بنا رہی
ہوں ۔ فروا نے ہنستے ہوئے کہا ، تو دو کی بات کرتی ہے ۔ میں ایک بھی نہیں
کروں گی۔ امی نے ہنس کر کہا ،جب ہو گیا تو کیا کرئے گی۔ فروا نے غصے سے کہا
دنیا میں ایسا کوئی پیدا نہیں ہوا ،جو میری مرضی کے بغیر مجھ سے کچھ کروائے
۔ امی نے ہنس کر کہا ، تجھ سے بارہ سال پہلے پیدا ہوا ہے ، تجھے ایسا ٹھیک
کرئے گا نا کہ تیرے سارے لاڈ نکال دے گا۔ فروا نے سر کو جھٹکا دے کر بال
چھڑاتے ہوئے کہا۔ تو چاہتی ہے کہ میر ے لاڈ نکل جائیں ۔ اس نے امی کی
انکھوں میں انکھیں ڈال کر کہا۔ امی نے اس کی طرف پیار سے دیکھتے ہوئے کہا۔
یہ لاڈ صرف ماں ہی کر تی ہے۔ اگلے یہ چونچلے نہیں سہتے۔ تو سدھر جا۔ حیدر
تو سنا ہے بات کم کرتا ہے ہاتھ ذیادہ اُٹھا تا ہے۔ فروا نے منہ بناتے ہوئے
کہا۔ اس کی تو ایسی کی تیسی۔ایک مارے گا دس کھائے گا۔ اس کی ماں ہنس رہی
تھی، اسے ہنسی نہیں آ رہی تھی ۔ وہ سنجیدگی سے اپنی امی کی طرف دیکھے جا
رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر نے چیخ کر کہا، روٹی تو ٹھنڈی ہے۔ اس کی اماں نے غصے سے کہا،تو گرم
کرنے والی لے آ ۔ بات کر اپنے ابا سے ۔ جوان ہو گئی ہے تیری منگ۔ مجھ سے
نہیں کرنے ہوتا اب کچھ۔ کوئی کام کرنے والی آ جائے گی تو میرا ہاتھ بٹھائے
گی۔ حیدر نے منہ بناتے ہوئے کہا۔ تو کر ، میں اچھا لگوں گا ابا سے کہتے
ہوئے،،،،،،،،اس کی ماں نے ہنستے ہوئے کہا ۔ کہا تھا میں نے ۔ پر تیرا ابا
کہتا ہے ، اٹھارہ سال کی ہو جائے ۔ پھر۔ حیدر نے ٹھنڈی روٹی کو توڑنے کے
لیے ذور لگایا۔تیری شادی تو ہو گئی تھی نا تیرہ سال میں ۔ تو نے سنبھال لیا
تھا نا گھر ۔ پتہ نہیں ابا کو وہ کیوں چھوٹی لگتی ہے۔ اس نے پانی پینے کے
بعد اپنی لمبی لمبی موچھوں کو تاو دیا۔ وہ چار بہنوں کا ایک ہی بھائی تھا
جو سب شادی شدہ تھیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رابیل نے فروا کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا، چل گول گپے کھا کر جاتے ہیں ۔ فروا
نے رابیل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ پیسے ہیں تیرے پاس ۔ رابیل نے ہنستے ہوئے
کہا،ہاں ہاں ۔ میں نے کل توڑا ہے نا اپنا ہاتھی ۔فروا نے ہنستے ہوئے کہا
،اچھا کتنے پیسے نکلے تیرے۔ رابیل نے ہنس کر کہا اتنے نہیں کہ تیرا گھر بن
سکے۔
رابیل اور فروا گول گپے کے ٹھیلے پر کھڑی تھیں ،ٹھیلے کے قریب ایک ٹیکسی آ
کر رُکی ایک عورت نے گول گپے والے کو پیسے دیتے ہوئے کہا۔ دو پلیٹ پیک کرنا
۔ جیسے ہی گول گپے والے نے گول گپے دینے کے بعد پیسے لیے ٹیکسی چل دی۔ فروا
نے ہنس کر کہا کتنی پیاری تھی۔ رابیل نے فروا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ، کون
عورت ۔ فروا نے اسے کونی مارتے ہوئے کہا ،میں مرد نہیں ہوں جو عورت دیکھوں
گی۔ رابیل نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔ ٹیکسی والا ،پیاری کیسے ہو سکتی ہے۔
فروا نے چڑھ کر کہا۔ تو بڑی کمینی ہے ، میں ٹیکسی کی بات کر رہی ہوں ۔ ایسی
ایک ٹیکسی مل جائے نا تو میں دن رات چلاوں ۔ ڈھیر سارا پیسہ کماوں اور پھر
گھر بناوں ۔ جس گھر کے باہر لکھا ہو۔ فروا جنید۔
رابیل نے ہنستےہوئے کہا، رُک رُک بریک مار۔ تو تو لگتا ہے ایکسیڈنٹ کرئے
گی۔ فروا نے اسے غصے سے گھورا۔ رابیل نے اس کے ہاتھ کو ذور سے دباتے ہوئے
کہا۔ ایسا کریو۔حیدر کو رکشہ بیچ کر ٹیکسی لینے کا کہیو۔ فروا نے غصے سے
کہا۔ وہ ٹیکسی لے گا تو مجھے کیا فائدہ۔ رابیل نے اسے کونی مارتے ہوئے کہا۔
تو اور تیرے بچے گھومے گئے نا اس ٹیکسی میں ۔ فروا نے تیکھے لہجے میں کہا۔
جہنم میں جائے حیدر اور پہاڑ میں جائیں بچے۔رابیل نے ذور کا قہقہ لگاتے
ہوئے کہا۔ تو پہلی ماں ہے جو بچوں کو پہاڑ پر بھیج رہی ہے۔فروا نے افسردگی
سے کہا۔ وہ دیکھ ، وہ دیکھ۔ گلی کے نکڑ پر ہاتھ دیکھنے والا بیٹھا تھا۔
اپنے پھٹے پرانے تھیلے پر ایک سائیڈ پر بورڈ رکھے ، قسمت کا حال معلوم کریں
۔ فروا نے رابیل سے کہا۔ تیرے پاس دس روپے ہیں ۔ رابیل نے منہ بناتے ہوئے
کہا۔ کیوں میرے پیسے ضائع کرتی ہے۔ اسے کیا پتہ ،اس کی خود کی حالت تو
دیکھ۔ فروا نے رابیل کی قمیض کی جیب میں ہاتھ ڈالا ۔ ابھی چالیس ہیں ۔ باقی
کے پیسے واپس ڈالتے ہوئے کہا۔ میں تجھے جمعہ کو واپس کر دوں گی۔ میرا ادا
خاور جمعہ کے جمعہ مجھے پچاس دیتا ہےنا۔ اب چل ۔ رابیل نے منہ بناتے ہوئے
اس کے قدموں پر قدم رکھے ۔ وہ دونوں ہاتھ دیکھنے والے کے پاس کھڑی تھیں ۔
کسٹمر دیکھ کر کوئی بھی دوکان دار خوش ہو جاتا ہے ۔ دھیرے سے رابیل نے کہا،
بوڑھے کے کان پتلے تھے۔ اس نے سر کو ذور ذور سے ہلایا اور بولا۔ ایک ہی نے
ہاتھ دیکھانا ہے۔ فروا نے فوراً بیٹھتے ہوئے کہا۔ جی جی ۔۔۔۔بابا میرا ہاتھ
دیکھ کر بتائیں ۔ کیا جو میں چاہتی ہوں ملے گا یا نہیں ۔ بابا نے کچھ دیر
ہاتھوں کے ساتھ ساتھ فروا کا چمکتا چہرہ دیکھا ۔ جو چڑھتی جوانی کے باعث
چمک رہا تھا۔ اس کے نین نقش بھی اچھے تھے۔ بابا نے سر کو ہلایا، ہاتھ پر
نظریں گاڑتے ہوئے کہا۔ بہت مشکل ہے لیکن جو تم مشکل کا حل نکالوں گی وہ طے
کرئے گا ۔ کوئی لائن پوری نہیں بچی تیرے ہاتھ کی سب کٹی ہوئی ،ہیں ۔ وقت کے
ساتھ ساتھ لکیریں بدلتی ہیں۔ رابیل نے فروا کو گھورا۔ جھٹ سے بولی ۔ بابا
یہ بتاو ۔ اس کی شادی کب ہو گی۔ فروا نے رابیل کو کونی ماری۔ بابا کے چہرے
پر مسکراہٹ آگئی ۔ اس نے فروا کےدونوں ہاتھوں کو جوڑنے کہا کہا۔ کچھ حساب
کرتے ہوئے کہا۔ بہت جلد۔ رابیل نے ہنستے ہوئے کہا۔ کتنی جلدی۔ کل پرسوں ۔
بابا نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ابھی ٹائم ہے۔ اسی سال ہو گی۔رابیل نے فوراً سے
کہا اور بچے۔ بابا کے دانت سارے دیکھائی دینے لگا ۔ان کی مسکراہٹ کی جگہ
ہنسی نے لے لی۔ فروا نے غصے سے رابیل کو دیکھا۔ بابا نے کہا۔ چھ بچے ہیں اس
کی قسمت میں ۔ بہت اچھی قسمت ہے اس بچی کی۔ اب آخری سوال کرو۔ فروا نے
فوراً سے کہا ۔ بابا کیا میں کبھی پیسہ کماوں گی۔ میرا مطلب ہے ۔کام کر کے۔
بابا نے حیرت بھری نظروں سے اس کا سوال سنا اور کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا
نہیں ۔اس کے نہیں کہنے کی دیر تھی کہ فروا اُٹھ کھڑی ہوئی۔ گھر واپس آتے
ہوئے فروا نے افسردگی سے کہا ان لوگوں کو اپنا پتہ نہیں ہوتا ، کسی اور کا
خاک بتائیں گئے۔ رابیل نے ہنستے ہوئے کہا۔ اگر وہ کہتا کہ تو ٹیکسی چلائے
گی۔ پیسہ بنائے گی۔ شہر میں گھومے گی۔ گھر بنائے گی تو ٹھیک ہاتھ دیکھنے
والا ہوتا۔ فروا نے غصے سے کہا ۔ ہاں بلکل ۔
فروا کے امتحان ہو رہے تھے ۔ اس کی امی نے روٹی چارپائی پر رکھتے ہوئے کہا۔
پس اب ایک کلاس رہ گئی تیری ۔ ہمارے پورے خاندان میں کوئی دس سال پہلے نذیر
نے دس کی تھیں ۔ اب تو کر رہی ہے۔ بس پاس ہو جائیو۔ فروا نے ہنس کر کہا ۔
تو فکر نہ کر ۔ پاس تو میں ہو ہی جاوں گی۔ اس کے کبھی کسی بھی مضمون میں
چالیس نمبر کبھی نہیں آئے تھے ۔ مگر وہ پاس ہونے کے نمبر لے ہی لیتی۔ اس
کی ماں نے پیار سے اسے اپنی چھاتی سے چپکاتے ہوئے کہا۔ اللہ تجھے پاس کرئے۔
فروا کے نویں کے امتحان ختم ہو چکے تھے ۔وہ پاس ہو چکی تھی ۔ اس کی ماں بہت
خوش تھی۔ جبکہ رابیل فیل ہو گئی تھی۔ فروا کو اپنی اکلوتی دوست کے فیل ہونے
کا بہت دُکھ تھا۔ رابیل نے اسے بتایا کہ اس کی شادی طے کر دی گئی ہے اب
رابیل سکول نہیں آئے گی۔ فروا نے افسردگی سے کہا، تو منع کر دے نا۔ رابیل
نے ہنستے ہوئے کہا ، کیوں منع کروں ۔ اچھا ہے نا۔ تجھے پتہ ہے پورے آٹھ
جوڑے بلکل نئے ایک سونے کا چھلا اور چھ جوڑے جوتوں کے لیے ہیں ۔ انہوں نے۔
فروا نے غصے سے کہا۔ یہ انہوں نے ہیں کون؟کمینی۔تو شادی کر لے گی۔رابیل نے
ہنستے ہوئے کہا۔ تو ۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے تیری طرح ٹیکسی ڈرائیور بننے کا شوق نہیں
۔ نہ ہی گھر خود لینے کا کوئی خیال بھی آتا ہے۔ میرے لیے تو ابا کا گھر ہی
اچھا تھا ۔اب جہاں انہوں نے رکھا۔ رہ لوں گی۔ فروا نے غصے سے کہا۔ یہ انہوں
نے کا کوئی نام بھی ہے ۔ ارشاد نام ہے ان کا ، ٹھیلا لگاتے ہیں بریانی کا۔
فروا نے حیرت سے کہا وہ شیدا جو میدان کے ساتھ ٹھیلا لگاتا ہے وہ۔ رابیل نے
منہ بناتے ہوئے کہا۔ اب ایسے نام تو نہ بگاڑو۔ فروا نے اسے گھورتے ہوئے
کہا۔ اس کی تو دو سال پہلے شادی ہوئی تھی نا۔ رابیل نے افسردگی سے کہا ،وہ
تو مر گئی نا۔ فروا نے غصے سے کہا۔ اب تو مرنا چاہتی ہے۔ اس منحوس سے کیوں
شادی کر رہی ہے۔
رابیل نے ایک لمبی آہ بھری ۔ تو اگر میرے ساتھ خوش نہیں ہو سکتی تو مجھے
تو دُکھی نہ کر۔ جو ہے جیسا ہے اچھا ہے۔ میرے گھر والوں نے کچھ سوچ کر ہی
میرے لیے پسند کیا ہے نا۔ میں تیرے جیسی گوری چٹی تو ہوں نہیں ۔ میرے لیے
یہی ٹھیک ہے۔ فروا نے غصے سے کہا۔ گوری چٹی سے کیا مطلب ہے۔ رابیل کی
انکھوں میں آنسو تھے۔ میری ماں کہتی ہے یہ رشتہ بھی آ گیا تو شکر کروں
۔اچھا کماتا ہے ۔ تو تو جانتی ہے میرے اباکباڑ لیتے ہیں ۔کچھ دینے لینے کی
سکت نہیں ان کی۔ بس ایک جوڑی کپڑے میں رخصت کر دیں گئے۔ ایسے میں ارشاد
قبول کر رہا ہے یہ بھی بڑی بات ہے نا۔ میرا بوجھ اُٹھانے کو تیار ہے۔ فروا
نے غصے سے کہا۔ تو کون سا بوری ہے۔ بوجھ۔
دس کام لے گا تجھ سے کھانا کھلائے گا۔ اس سے تو اچھا ہے تو کسی کوٹھی میں
کام کر لے ۔ رابیل نے افسردگی سے کہا۔ میرا ابا نہیں مانتا ۔ اب تو چپ کر ۔
میرا دل کھٹا نہ کر۔ جا یہاں سے ۔ اگلے جمعہ کو آئیو۔ رخصتی ہے۔ انہوں نے
کہا ہے وہ بریانی کی ایک دیگ لائیں گئے۔ شربت ہماری طرف سے ہوگا۔ ذیادہ
لوگوں کو بلایا ہی نہیں ،اماں نے۔
فروا بوجھل دل کے ساتھ اپنے گھر میں داخل ہوئی ۔اس کی امی نے کھانے کا
پوچھا تو وہ نہیں کھانا ،کہہ کر چارپائی پر اوندی لیٹ گئی۔ امی پاس آ کر
اسے دیکھ رہی تھی۔ تاپ تو نہیں چڑھ گیا۔ ٹھیک تو ہے تو؟ کیا ہوا۔ اس کی
انکھوں میں موٹے موٹے آنسو دیکھ کر امی پریشان ہو گئی۔ فروا اے فری کیا
ہوا؟ میری بچی بتا ۔نا۔اس کی ماں نے سر پر ہاتھ پھیرتے بڑے پیار سے پوچھا۔
فروا ماں سے لپٹ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ فروا کی ماں نے اسے خود سے
پیچھے کرتے ہوئے اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔ بتا ۔نا ہوا کیا۔ بتا
۔نا۔فروا نے روتے ہوئے اٹکتی آواز میں کہا۔ رابی کی شادی طے ہو گئی ۔ اگلے
جمعہ نکاح اور رخصتی کا کہا ہے اس نے۔
تو اس میں رونے کی کیا بات ہے ۔ پاگل ۔ یہ تو خوشی کی بات ہے۔ فروا نے
افسردگی سے امی کی طرف دیکھا اور سر کھجاتے ہوئے بولی ۔ خوشی کی بات۔ وہ
شیدے سے شادی ہو رہی ہے اس کی بد شکل ۔گندہ ۔ اس کی ماں نے اس کے سر پر
پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ تو رابی کون سی پری ہے۔۔ کالی سیاہ ہے۔ اب
تیری دوست ہے تو تجھے اچھی لگتی ہے۔فروا نے حیرت سے امی کی طرف دیکھ کر
کہا۔ کالی ہے تو کیا ہوا۔ شیدے سے تو ہزار درجے پیاری ہے ۔ اس کی امی نے اس
کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ہر کوئی تیری نظر سے نہیں دیکھ سکتا فری۔ اب بس کر
۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی۔ شکر کر اس کی شادی ہو رہی ہے۔ شیدے کو تو کوئی بھی
رشتہ دے دیتا ۔ اچھی کمائی ہے اس کی ۔ بہت مزے کی بریانی بناتا ہے۔ تیرے
بھائی کی شادی میں اسی نے بریانی بنائی تھی۔ کھائی تو تھی تو نے۔ فروا نے
سر جھٹکتے ہوئے کہا۔ کھائی تھی۔ بریانی بنانا اور شادی رچانا دو الگ چیزیں
ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر اپنی ماں کو ہسپتال لے کر گیا مگر وہ پانی کی شدید کمی کی وجہ سے اس
کی موت ہو گئی۔ ایک ماہ ہی گزرا تھا کہ حیدر کی بڑی بہن اور باپ فروا کے
گھر آئیں ۔ فروا کے ماں باپ نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ فروا کے
سالانہ امتحان میں چار ماہ ہی باقی ہیں ، مگر حیدر کی بہن نے منہ بناتے
ہوئے کہا۔ چاچا جی روٹیاں بیلنے کے لیے انگریزی کی نہیں آٹے کی ضرورت ہوتی
ہے اور وہ ہمارے گھر میں بہت ۔ اماں کے بعد حیدر اور ابا کے لیے زندگی بڑی
مشکل ہو گئی ہے۔ نہ کوئی کپڑے دھونے والا نہ کوئی روٹی دینے والی ۔ اماں
تھی تو بات اور تھی ۔ ہم تو چالیسواں کروانے سے پہلے رخصتی چاہتے ہیں ۔ اب
آپ دیکھ لو۔ ہمارے حیدر کے لیے کمی بھی کوئی نہیں ہے۔ اس جیسا جوان پورے
خاندان میں نہیں ہے۔ اپنی فروا کو اور کیا چاہیے۔ جہاں تک امتحان کی بات ہے
تو پھر میاں جانے اورفروا جانے۔ امتحان دلوائے یا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمیں تو بس
فرض پورا کرنا ہے۔ شادی کے بعد لڑکی تو میکے میں میاں کی مرضی کے بغر آتی
ہی نہیں ۔ اگر ہو سکتا تو ہم کر لیتے ۔ ہم ساری تو اپنے اپنے گھر کی ۔ہمارا
گھر خالی ہو گیا ،اماں کے بعد ۔آپ ہماری مجبوری بھی تو دیکھیں ۔ فروا کے
باپ نے کچھ دیر سوچا اور بولا ۔ آپ کی امانت ہے ، انکار کا تو سوال ہی
نہیں ۔ بس کچھ مہلت مل جاتی۔
نسیم نے ہنس کر کہا ،ٹھیک ہے چالیسواں ہو جائے تو دس دن بعد کی تاریخ رکھ
لیتے ہیں ۔ ہم تو بہت سادگی سے شادی کریں گئے۔ ابھی میت اُٹھی ہے۔ باقی جو
فروا بولے کی حیدر لے دے گا۔ آپ جو کہیں ہم حاضر ہیں ۔ فروا کو نسیم کی
باتیں زہر لگ رہی تھیں ، وہ کمرے میں ادھر سے اُدھر کبھی اُدھر سے ادھر چل
رہی تھی۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ دوسرے کمرے میں جا کر نسیم کا گلا
دبا دے۔
فروا کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ اپنے ماں باپ کے سامنے زبان کھولتی اگرچہ
اس کے خواب آسمان چھوتے تھے مگر دل میں پیوست خوف نے اس کے پاوں کو جکڑ
رکھا تھا ۔ وہ لاکھ چاہنے کے باوجود کمرے کی چوکھٹ سے بھی باہر نہ جا سکی۔
وقت تیزی سے گزرا اور وہ دن آن پہنچا جب فروا کا نکاح حیدر سے تھا۔
فروا گھر سے بھاگنے کے بارے میں پچھلےکئی دنوں سے سوچ رہی تھی۔اس کی سمجھ
میں نہیں آتا تھا کہ وہ بھاگ کر جائے کہاں ۔جہاں کوئی پناہ ہو۔ کہتے ہیں
اللہ کی زمین بہت بڑی ہے ۔ کہنے کی باتیں اور ہیں اور سہنے کی باتیں اور۔
وہ روتے ہوئے ہنس رہی تھی، یہ ہنسی اس کو اندر ہی اندر کاٹ رہی تھی۔ وہ چپ
چاپ اپنی مہندی لگے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی ۔
رابیل کمرے میں داخل ہوئی تو اس نے مسکراتے ہوئے فروا کی طرف دیکھا۔ جس کی
انکھوں میں آنسو اب جم چکے تھے۔ رابیل نے ہنس کر کہا۔ حیدر بڑا پیارا لگ
رہا ہے۔ چاند اور سورج کی جوڑی ہے تیری اور اس کی۔ فروا نے غصے سے رابیل کی
طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ جوڑی۔ اس کی انکھوں سے آنسو چھلک گئے۔ مجھے تو گلی
کے نکڑ پر آوارہ پھرنے والا کتا خود سے بہتر لگ رہا ہے۔ جو اپنی مرضی کی
جگہ سوتا ہے ،کھاتا ہے۔ جہاں چاہے جاتا ہے۔ کاش اللہ میرے سر میں دماغ نہ
دیتا ۔ کاش میں سوچنے سمجھنے سے معذور ہوتی تو کتنا اچھا تھا۔ رابیل نے منہ
بناتے ہوئے کہا۔ کیا بک رہی ہے ۔ فری ۔ جو منہ میں آتا ہے بول دیتی ہے۔
کتنے ارمان ہوں گئے حیدر کے۔ تجھے شادی کی ذرا خوشی نہیں ہے۔ فروا نے غصے
سے کہا۔ خوشی۔ ارمان ۔ اس نے سر کو ذور کا جھٹکا دیا۔ رابیل حیرت سے اسے
دیکھ رہی تھی۔ نکاح کے لیے مرد کمرے میں مولوی صاحب کے ساتھ آ چکے تھے۔
فروا کی منظوری کے بعد اس سے دستخط لے لیے گئے۔ ان کے چلے جانے کے بعد
رابیل نے افسردگی سے کہا۔ فری ،میری بہن لڑکی کی زندگی یہی ہے۔ سب کچھ بھول
کر نئی شروعات کریو۔ حیدر سے ایسی بات نہ کریو ۔ ورنہ وہ تو ہتھے سے اُکھڑ
جائے گا۔ مرد کہاں عورت کی سنتا ہے۔ سمجھی۔ فروا نے غصے سے کہا۔ اس مرد کی
تو ایسی کی تیسی۔ میرا بس چلے تو اسے آج ہی زہر دے کر آگے کروں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رخصتی ہو چکی تھی ۔ حیدر کے گھر اور فروا کے گھر کی حالت ایک جیسی ہی تھی۔
فرق صرف یہ تھا کہ یہاں پیار کرنے والی ماں نہیں تھی۔ چاہنے والے بھائی
نہیں تھے۔ وہ کمرے کی دیواروں کو گھور رہی تھی۔ جب حیدر کمرے میں آیا تو
اس کے ہاتھوں میں شاپر تھا ۔ وہ کافی خوش لگ رہا تھا۔ فروا سُرخ جوڑے میں
بہت پیاری لگ رہی تھی۔ اس نے فروا کے پاس بیٹھتے ہی کہا۔ سنا ہے تو پڑھی
لکھی ہے۔ مجھے پڑھانے کی کوشش نہ کریو۔ مجھے ویسے پڑھاکو لوگ شروع سے پسند
بھی کوئی نہ ہیں ۔ تو میری اماں کی پسند ہے تو میں نے بھی منظور کر لیا۔
ویسے پیاری لگ رہی ہے۔ فروا نے گھور کر اس کی طرف دیکھا اور پھر اپنی کلائی
میں چمچماتی چوڑیوں کو دیکھنے لگی۔ حیدر نے کچھ دیر اس کی طرف دیکھا مگر وہ
اس کی طرف نہیں دیکھ رہی تھی۔ وہ اُٹھ کر گیا دروازے کوبند کر کے واپس اس
کے پاس آ کر بیٹھا اور پھر سے بات شروع کی ۔ لگتا ہے تو خو ش کوئی نہ ہے
شادی سے۔ کیا بات ہے؟
|