☆☆بشیر ترکھان کی کہانی "

(تحریر شہزاد اعوان۔۔۔ انگریزی ناول سےماخوذ)

آج محمد بشیرکا میرے ہاں کام پر پہلا دن تھا۔ سادہ مزاج، پنجابی بول چال والا سیدھا سادھا عام محنت کش۔ میں نے اُسے اپنے پُرانے فارم ہاوس کے ایک حصے کی تزئین وآرائیش اور مُرمت کے کافی بڑے پراجیکٹ سے لکڑی کے کام کا ٹھیکہ دیا تھا، فارم ہاوس کا یہ حصہ میرے دادا جی نے 1950 کی دہائی میں اپنے دوستوں اور خاندان کے بزرگوں کی محفلوں کے لئیے بنوایا تھا۔ 65 سال کے بعد اب اُس بڑے ہال نُما کمرے میں مَیں نے جدید طرز کی فٹنگز والا باتھ رُوم بنوایا، ایک لائیبریری بنوائی اورایک کونے میں کافی بڑا الیکٹرک آتش دان بھی لگوایا تھا۔

۔۔۔۔ تو آج محمد بشیرکا میرے فارم ہاوس پر کام کا پہلا دن ہی اس کے لئیے کافی پریشان کُن رہا۔ بقول اس کے صبح جب کام پر نکلنے لگا تواُس نے دیکھا کہ اس کے پرانے موٹرسائیکل کا پہیہ پنکچر ہے، ایک گھنٹہ اس کی مرمت میں ضائع ہو گیا۔ کام شروع کیا تو بجلی سے چلنے والا آرا جواب دے گیا، اور اب شام ڈھلے جب اس نے موٹرسائیکل کو اسٹارٹ کرنا چاہا تواس کا انجن بے آواز،بار بار کوشش کے باوجود موٹرسائیکل ٹس سے مس نہ ہُوئی۔ میں نے اُس کی پریشانی بھانپتے ہوئے فوراَ اپنا پک اپ ٹرک اسٹارٹ کیا اور بشیر کو کہا: آئیے، ہم پہلے آپ کی موٹر سائیکل کو ورکشاپ پرچھوڑتے ہیں اورپھرمیں آپ کو گھر تک چھوڑ دوں گا ۔ ہلکے سے شکریے کے بعد وہ چُپ چاپ پُوار راستہ پتھر بنا خاموش بیٹھا رہا۔

جب ہم اُس کے گھر کے آگے رُکے تو مجھے کہنے لگا: " صاب جی آئیں! آپ میرے بال بچوں، گھار والوں سے بھی مل لیں۔" ۔ جِس وقت ہم گاڑی سے نکل کر اس کے گھر کے بیرونی دروازے کی طرف جا رہے تھے، تو بشیر چند لمحوں کے لئیے ایک چھوٹے سے درخت کے آگے رُکا، اس کی جھکی ہوئی شاخوں کو، اور نرم کونپلوں کو اپنے دونوں ہاتھوں سے چھُوا۔ اس تین یا پانچ سیکنڈ کے عمل کے بعد دروازے پر دستک دینے اور کھُلنے تک میں نے محسُوس کیا کہ محمد بشیر اپنی ذات اور اپنے رویے کی ایک حیران کن تبدیلی سے گُذر چکا تھا۔

اس کے مُرجھائے ہوئے افسُردہ چہرے پربڑی سی مسکراہٹ پھیلی اور وہ پُھول کی طرح کھِل اُٹھا تھا۔ دروازہ کھلنے پر پہلے اُس نے اپنے دونوں بچوں کوبڑی سی جپھی ڈالی اور پھر بیوی کو ہنستے مسکراتے سلام کیااور میرا تعارف بھی کروایا۔ جب وہ مجھے اللہ حافظ کہنے میری پک اپ تک آ رہا تھا تو اُسی درخت کے قریب سے گزرتے ہوئے میرا تجسس اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ میں نے اس سے پوچھ ہی لیا۔

"محمد بشیر! یہ درخت کو چُھونے کا کیا راز ہے، اسے چھُوتے ہی آپ میں اتنی بڑی تبدیلی میں نے خود مشاھدہ کی ہے۔۔۔"

۔۔۔"اوہ اچھا ۔۔۔ یہ درخت ۔۔۔ یہ تو جی میرا بیلی ہے، یار ہے میرا جناب! "

اُ س کی آنکھوں میں ایک خاص چمک تھی اور لہجہ بہت ہی شیریں ۔۔۔ ذرا سے توقف کے بعد وہ پھر بولا: "۔۔۔ دیکھیں نا صاب جی! یہ جو چھوٹی موٹی تکلیفیں، پریشانیاں ہیں نا جی۔۔ انہوں نے تو آنا ہی آنا ہے جی۔۔۔ اور یہ سب تو صاب جی میری گھر سے باہر، کام کاج والی حیاتی کا ہار شِنگھار ہیں جی"
" ایہناں ساری پریشانیاں کا میرے گھار سے، میرے دھی، پُتر سے یا میری کرماں والی گھار والی سے تو کوئی تعلق نئیں بنتا نا جی! تو۔۔۔۔۔ "

اُس نے ایک لمبا سا سانس لیا۔۔۔۔ اور بولا :
"۔۔۔ تو صاب جی اِک دن ۔۔۔۔ کافی ڈاھڈے مُشکلاں والے دن۔۔۔۔ میں نے شام کو کام سے واپس مُڑتے ہوئےاس درخت کی سوہنی ٹہنی ہتھ میں پکڑ کر، اس کواپنا سچا سُچا بیلی بنا کر اس کو ترلا ڈالا، اور مِنت کی کہ یار ! یہ میری پریشانیاں اور کچھ تکلیفیں بس اک رات کے لئیے میرے گھار سے باہر اپنے کول رکھ لے"۔۔

"صاب جی! آپ کو پتہ ہے؟ اس نے میری گل مان لی جی، میں نے اپنی دن بھر کی ساری مُشکلیں، لوگوں کے گلے شکوے، سب اس کے اُوپر ٹنگ دیئے جی ! اور بالکل پھُلوں کی طرح ہولا ہو کے آپنے گھار اور گھار والوں کے پاس گیا۔۔۔۔ ہنستا ہُوا جی۔۔۔

اب اس دن سے روز سویرے کم پر جانے لگتا ہُوں تو اس سے اپنی ان مشکلات کا وزن فیرواپس لے لیتا ہوں۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔ صاب جی مزے کی بات بتاوں۔۔۔۔۔ "

وہ پھر سانس لینے کے لیئے رُکا اور وارفتگی سے مُسکراتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔

" مزے کی ۔۔۔ اور حریانی کی بات یہ ہے کہ جب بھی میں سویرے اپنے اس بیلی درخت سے، اس پر لدا ہوا پچھلی شام کا بھار واپس لیتا ہوں تو انج لگتا ہے کہ وہ بھار پہلے سے گھٹ گیا ہے "

میں بالکل گُنگ، بشیر ترکھان کے سامنے کھڑا تھا اور میری آنکھیں نم ہو چُکی تھیں۔

"صاب جی! گل لمی ہو گئی، اور آپ کو دیر ہو رہی ہے جی"۔۔۔ بشیر نے یہ کہہ کر سلام کے لئیے ہاتھ بڑھایا۔ میں نے آگے بڑھ کر اُسے جپھی ڈالی، اور پھر پیچھے ہٹتے ہوئے اپنے دائیں ہاتھ کو ماتھے پر رکھ کر سیلوٹ کرتے ہوئے کہا: بابا بشیر صاحب! اگلا سبق کب پڑھائیں گے؟

Shehzad Ahmed Awan
About the Author: Shehzad Ahmed Awan Read More Articles by Shehzad Ahmed Awan: 6 Articles with 3376 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.