جون سے اب تک کشمیر میں بھارتی افواج کے ہاتھوں کم ازکم
ڈیڑھ سو نہتے کشمیری بہیمانہ طریقے سے قتل کیے گئے جن میں بیس نوخیز بچے
بھی شامل تھے۔پچھلے کئی برسوں سے بھارتی حکومت نے ان سفاکانہ واقعات کی
کوریج کیلئےآنے والے غیر ملکی ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کیلئےکام کرنے
والوں کیلئے مقبوضہ وادی میں داخلے پرمکمل پابندی لگارکھی ہے۔حال ہی میں
پاکستان نے خطے میں سات دہائیوں کے شدید ترین انتظاراور انتہائی مشکل حالات
کے باوجود سکھوں کیلئے ان کی مقدس عبادت گاہ"کرتار پور" کی بغیرویزہ کے
زیارت کیلئےراہداری کاراستہ کھول کریقیناًایک بہترین انسانی خدمت کاثبوت
دیاہے لیکن اس کے ساتھ ہی حکومتِ پاکستان کیلئے ضروری ہےکہ وہ اپنی مُہر بہ
لب خاموشی کو توڑے اور بین الاقوامی فورم پر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی
جارحیت کو بے نقاب کرے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بھارتی افواج کشمیری نوجوانوں
کی نسل کشی میں مصروف ہیں جبکہ وادی میں مکمل طور پر کرفیو نافذ ہے۔ مقبوضہ
وادی میں بھارتی افواج کی جانب سے انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کا حالیہ
انکشاف اقوام متحدہ اور مہذب دنیا کی آنکھیں کھول دینے کیلئےکافی ہے۔
بھارتی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق ریڈکراس کی انٹرنیشنل کمیٹی نے2005ء میں
امریکی سفارت کاروں کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سیکورٹی فورسز کے منظم
طریقے سے اذیت رسانی کے ٹھوس شواہد فراہم کیے تھے۔ وکی لیکس کے ایک حالیہ
انکشاف کے مطابق ایک خفیہ بریفنگ میں ریڈکراس کی انٹرنیشنل کمیٹی نے سفارت
کاروں کو بتایا کہ بھارتی کشمیر میں نظربندی کے مراکز میں قیدیوں کو اذیت
دینے کاظالمانہ اورغیرانسانی عمل میں پہلے سے کہیں زیادہ اضافہ ہوگیاہے ۔
ریڈکراس کے نمائندوں نے یہ بریفنگ 177/ اذیتی مراکز کے دورے کے بعد سفارت
کاروں کو دی۔ ان ڈیڑھ ہزار قیدیوں میں سے جن سے ریڈکراس کے نمائندوں نے
ملاقاتیں کیں، آدھے سے زائد کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کیا گیا۔ 852کیسوں
میں قیدیوں نے بتایا کہ انہیں مارا پیٹا گیا،بقیہ کو ایک سے زائد طریقوں سے
اذیت کا نشانہ بنایا گیا۔ مشتبہ افراد کو بجلی کے جھٹکے دینا تواب ایک
معمول ہوگیاہے۔ ایسے افراد کو چھت سے لٹکا دیا جاتا اور یہ بھی کیا جاتا کہ
ان کی رانوں پر رولر یا گول دھات کی چیز رکھ دی جاتی اور کوئی شخص اس پر
بیٹھ جاتا جس سے پٹّھے تباہ ہو جاتے، جبکہ بعض لوگوں کی ٹانگوں کو 180 ڈگری
کے زاویے پر کھینچا جاتاہے۔اس عمل کے بعداگروہ شخص رہابھی ہوجاتاہے توساری
عمراسے چلنے میں دشواری رہے گی بلکہ بعض حالات میں وہ عمربھرکیلئے
معذورہوجاتاہے۔ اس کے علاوہ مختلف افراد کو پانی کے ذریعے اذیت دی جاتی،
تین سو سے زائد جنسی اذیت کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے۔ وکی لیکس کے مطابق
دورانِ تفتیش سیکورٹی فورسز کی جانب سے بدسلوکی اور اذیت دہی معمول کی بات
ہے اور یہ سب کچھ افسران کی موجودگی میں کیا جاتا ہے۔ ریڈ کراس کا کہنا ہے
کہ قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کا معاملہ بھارتی حکومت کے سامنے دودہائیوں سے
بھی زیادہ عرصہ سے اٹھایاجارہاہے لیکن یہ طریقہ کار بدستور جاری ہے اور
مجبوراً یہ نتیجہ اخذ کرنا پڑتا ہے کہ بھارتی حکومت ان اذیت رسانیوں سے چشم
پوشی کرتی ہے بلکہ بھارتی سیکورٹی فورسزکوتوہرقسم کے بہیمانہ ظلم وتشددکی
کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔
آئی سی آر سی جس نے ڈیڑھ ہزار قیدیوں سے ملاقات کی، اس بات پر زور دیا کہ
ان میں سے چند ایک پر جنگجوہونے کالزام تھا۔ قیدیوں کی اکثریت عام شہری
تھی، جنہیں اس بنیاد پر گرفتار کیا گیا کہ ان کے پاس بغاوت کی بابت اطلاعات
ہوں گی۔ یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ سیکورٹی فورسز کی تمام برانچیں اذیت رسانی
کے غیرانسانی طریقے استعمال کرتی ہیں اور وہ بھی ایک افسر کی موجودگی میں۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق گزشتہ سال جون سے لے کر اب تک کشمیر کی آزادی
کا مقبول عام نعرہ لگانے والے 323/افراد جن میں نوخیز بچے اور نوجوان بھی
شامل تھے، مار دیے گئے۔ کرفیو،شٹ ڈاؤن اوردیکھتے ہی گولی ماردینے کی بھارتی
افواج کی پالیسی کی وجہ سے ہزاروں کشمیری بالخصوص بوڑھی عورتیں اور بچے
اپنے چھوٹے سے گھروں میں محصور ہونے پر مجبورہوگئے ہیں۔ انہیں وادی کی
روزبروزبگڑتی ہوئی صورت حال کی وجہ سے غذااورپانی کی شدیدقلت کاسامناہے
اوربھارتی فورسزباقاعدہ ایک پلاننگ کے تحت ساری قوم کواجتماعی سزادینے
کیلئےقحط جیساماحول پیداکررہی ہے تاکہ کشمیری قوم کے نوجوان کے جذبہ
جدوجہدآزادی کو کچلاجاسکے لیکن اس کے نتائج بالکل الٹ آرہے ہیں بلکہ کشمیری
قوم کے مردوزن "تنگ آمد بجنگ آمد"کی بناء پرپہلے سے زیادہ قربانیاں دینے
کیلئے میدان عمل میں موجودہیں۔
چند ماہ قبل ایک معروف کشمیری اخبار نے اس عنوان سے سرخی جمائی کہ ’’2017ء
، نوخیزوں کی ہلاکت کا سال‘‘ تاکہ عالمی برادری اور امن عالم کے نام نہاد
ضمانتیوں کو جگایا جا سکے اور انہیں نہتے شہریوں کو اپنے حقوق کیلئےاحتجاج
کرنے پر بھارتی افواج کے غیر انسانی رویے کی طرف متوجہ کیا جا سکےلیکن یوں
محسوس ہورہاہے کہ انسانی حقوق کے چیمپئن اپنے اپنے مفادات کی خاطراندھے
گونگے اوربہرے ہوگئے ہیں اوران کے مردہ ضمیروں کوجگانے کیلئے کسی ایسی
قیامت صغریٰ کاظہورپذیرہوناضروری ہوگیاہےجس سے دنیاکے امن کے تہہ بالاہونے
کاامکان پیداہوجائے توپھروہ اپنی سلامتی کیلئے میدان میں اتریں گے۔
کشمیری میڈیا کے مطابق گزشتہ ماہ نومبر2018ء میں50/افراد کوجن میں زیادہ تر
نوجوان تھے، قتل کردیاگیا،210/بے گناہ افرادپربہیمانہ تشدد
کیاگیا،175/افرادکومحض شک کی بناء پر گرفتار کرکے حوالات میں
بندکردیاگیا،30سے زائدگھروں کونذرِ آتش کرکے تباہ کردیاگیا،چھ نوجوان
کشمیری خواتین کوبیوہ کردیاگیااوردودرجن سے زائدبچوں کویتیم کردیاگیااورظلم
کی انتہاء تویہ ہوئی کہ صرف چندماہ کے بچے کوبھی نہیں بخشاگیااوروہ بھی
سیکورٹی فورسزکی پیلیٹ گن کا شکارموت وحیات کی کشمکش میں مبتلاہےاور یہ سب
کچھ امن و امان کو بہتر بنانے کے نام پر پیراملٹری سی آر پی ایف فوجیوں نے
بے دردی سے طاقت کا استعمال کر کے کیا۔
چودہ میں سے نو کشمیری نوجوانوں کو بھارتی افواج نے بے دریغ فائرنگ کر کے
اس وقت ہلاک کر دیا جب یہ نوجوان اپنے ایک ساتھی کے قتل کے خلاف احتجاج
کررہے تھے۔ دو نوجوان بھارتی فوج کے آنسو گیس کے شیل لگنے سے ہلاک ہوئے
جبکہ ایک اور بارڈر سیکورٹی فورس کے عملے کی فائرنگ سے شہید ہوا۔ نومبر کا
مہینہ اس اعتبار سے خونیں تھا کہ اس ماہ شہیدہونے والے درجن سے زائد معصوم
نوجوانوں کو بھی ہلاک کیا گیا۔
تحریک حریت کانفرنس کے بزرگ رہنماء کوتوپچھلے سات برسوں سے گھرمیں
نظربندکررکھاہے جہاں زندگی کی تمام سہولتوں سے ان کومحروم کردیاگیاہے جبکہ
وہ پچھلے کئی برسوں سے سخت علیل بھی ہیں۔بھارتی جمہوریت کاشرمناک عمل تویہ
ہے کہ اس نے کشمیری خواتین پربھی بے پناہ تشدداورظلم وستم روارکھاہواہے۔
کشمیری خواتین کی تنظیم دخترانِ ملت کی سربراہ 56سالہ سیدہ آسیہ اندرابی
اور اُن کی دو قریبی ساتھیوں ناہیدہ نسرین اور صوفی فہمیدہ کو6جولائی 2018ء
سے گرفتارکرکے بھارت کی بدنام ترین تہاڑجیل میں قیدتنہائی میں ڈال دیاگیاہے
اوران سب کو زندگی کی تمام بنیادی سہولتوں سے محروم کردیاگیا ہے۔آسیہ
اندرابی اوران کی ساتھیوں پرغیرقانونی طورپربیرونِ ملک(پاکستان اورجماعت
الدعوۃ کے امیر حافظ محمد سعید)سے رقومات حاصل کرکے مقبوضہ کشمیر میں تشدد
اور تخریبی سرگرمیوں کوبڑھاوادینےکیلئے استعمال کرنے کاالزام عائد
کیاگیاہے۔اُنہیں بغاوت اورحکومت کے خلاف جنگ چھیڑنے کے الزامات کا بھی
سامنا ہے۔آسیہ اندرابی نے بایوکیمسٹری سے گریجویشن اورعربی سے پوسٹ
گریجویشن کیاہے۔ 1990ءمیں اس کی حزب المجاہدین کے بانیان میں شامل
ڈاکٹرقاسم فکتوسے شادی ہوئی تھی۔ سیکورٹی اہلکاروں نے1993ءمیں قاسم
فکتوکوگرفتارکرلیا تھا،جس کے بعد سے آج تک وہ جیل میں ہی بند ہیں۔اس وقت تک
آسیہ خودبھی جدو جہدآزادی کشمیرکی بڑی اوراہم رہنماؤں میں شمارکی جانے لگی
تھی۔
گجرات کاقصاب نماشخص جس کے ہاتھوں پر خودگجرات کے ہزاروں مسلمانوں کاخون
لگاہواہے اوراس کی مصدقہ گواہی توخودبھارتی فوج کے سابق وائس چیف آف سٹاف
جنرل ضمیرالدین شاہ کی کتاب ''سرکاری مسلمان''میں شائع ہوچکی ہے جس کی
13/اکتوبر2018ء کوانڈیانیشنل سینٹردہلی میں سابق نائب صدرحامدانصاری کی
زیرصدارت رونمائی ہوئی۔جس میں جنرل ضمیر الدین شاہ نے بھارتی ریاست گجرات
کے مسلم کش فسادات (فروری مارچ2002ء ) کے بارے میں چشم کشا انکشافات کئے
ہیں۔اس گھناؤنے المیے میں اس وقت کاوزیراعلیٰ اورآج کاوزیراعظم مودی پوری
طرح ملوث تھا۔ ضمیرالدین شاہ اپنی کتاب میں تحریرکیاہے:''20فروری2002ء
کومیں تین ہزار فوجی لیکرجودھ پورسے احمد آباد ایئرفیلڈ پہنچ گیاتھالیکن
وزیراعلیٰ مودی نے ہمیں تین دن تک ایئرفیلڈسے باہرآنے اورفوج تعینات کرنے
کی اجازت نہیں دی،ان تین دنوں میں بھارتی غنڈوں نے پولیس کی سرپرستی میں
کھلی چھٹی پاکر پورے گجرات میں مسلمانوں کے خون وآگ کی ہولی کھیلی
اورہزاروں مسلمان بچوں عورتوں، مردوں اوربوڑھے ضعیف افرادکوانتہائی بیدردی
سے شہیدکردیا،ہزاروں مسلمان زندہ جلاکر شہید کردیئے گئے،ہزاروں مسلمان
خواتین اوربچیوں کی عصمت دری کی گئی''۔
مودی جیسے درندے کی خباثت دیکھئے کہ جنرل ضمیرالدین شاہ کے تین ہزار فوجیوں
کے ساتھ احمدآبادپہنچنے اوروزیردفاع جارج فرننڈس کی موجودگی میں فسادیوں
کوگولی مارنے کاحکم دیا اورگاڑیاں فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی لیکن تین
دن بعداس یقین دہانی کوعملی شکل دی جب ''خونی ہندو درندے فسادی'' مسلمانوں
کی جانی ومالی اورعزت وآبروکابے بہانقصان پہنچا چکے تھے۔ضمیرالدین شاہ نے
اپنی کتاب میں لکھاہے:''اس یقین دہانی کے ذریعے مجھے بیوقوف بنایا گیا جس
سے مسلمانوں کے بارے میں انتہاء پسندہندوؤں کی ذہنیت کااندازہ لگایاجا سکتا
ہے،اگرفوج کو بروقت کردار ادا کرنے دیا جاتا تو فساد پر
قابوپایاجاسکتاتھا''۔ہندوافسروں کی مسلمان ساتھیوں کے بارے میں
چالبازی''بغل میں چھری منہ میں رام رام"کی عکاسی کرتی ہے۔جنرل ضمیرالدین
شاہ لکھتے ہیں: ''سرکاری افسر(مسلمان)کسی بھی عہدہ پرہو،وہ بے بس ہوتاہے،یہ
بڑالمیہ ہے کہ کوئی مسلمان اپنی وفاداری اورحب الوطنی ثابت نہیں
کرسکتا۔ہندوسرکاری افسر جو ملازمتوں میں رفقائے کارہوتے ہیں،بظاہراچھے
روّیے کامظاہرہ کرتے ہیں مگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پران کے خلاف
زہراگلتے ہیں''۔
متعصب مودی سرکارنےآسیہ اندرابی پریہ الزام بھی لگایاہے کہ جماعتہ الدعوۃ
کے امیرحافظ سعید اپنی تقاریرمیں آسیہ اندرابی کو"بہن"کہہ کر مخاطب
کرتےہیں۔مودی کویہ ذہن نشیں کرلینا چاہئے کہ جس طرح سیدعلی گیلانی
ہرپاکستانی کے دل کی دھڑکن ہیں اسی طرح ان کی تربیت یافتہ سیدہ آسیہ
اندرابی اپنی سرفروشی اورلازوال قربانیوں کی بناء پرپاکستان کے تمام
نوجوانوں کیلئے نہ صرف شجاعت وبہادری کااستعارہ بن چکی ہیں بلکہ پاکستان کا
ہر جوان اپنی بہن کے کردارپرنازاں ہے۔ یادرہے کہ آسیہ اندرابی پرہر14اگست
پاکستان کی یوم آزادی کے موقع پر سری نگرمیں پاکستانی جھنڈا بلند کرنے،
وادی میں لڑکیوں کو سیکورٹی اہلکاروں کے خلاف احتجاجی مظاہرے کے لئے مشتعل
کرنے سمیت کئی معاملے درج ہیں۔وادی کشمیر کے نوجوان طلبا وطالبات پرآسیہ
اندرابی کازبردست اثرماناجاتاہے۔ آسیہ اندرابی پریہ الزام بھی ہے کہ2016
میں حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی سیکورٹی اہلکاروں کے ساتھ
مڈبھیڑ میں شہادت کے بعد وادی میں اسی کے اکساوے پرطلبا ءنےسیکورٹی
اہلکاروں پرپتھر بازی کی تھی۔
اس مقدمے میں حافظ سعید، استصوابِ رائے کامطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں
کے اتحاد حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں،عسکری تنظیم حزب المجاہدین کے سپریم
کمانڈر محمد یوسف شاہ عرف سید صلاح الدین اوردخترانِ ملت کو ملزم دکھایا
گیا ہے۔ این آئی نے اس سال جنوری میں دِلّی کے پٹیالہ ہاؤس کی ایک خصوصی
عدالت میں بارہ افراد کے خلاف جن میں حافظ سعید اورسید صلاح الدین بھی شامل
ہیں باضابطہ فردِ جرم دائر کی تھی۔ اس نے گزشتہ 14ماہ کے دوران دو درجن کے
قریب افراد کوجن میں کئی آزادی پسند لیڈراورسرگرم کارکن اورایک سرکردہ تاجر
بھی شامل ہیں،گرفتار کیاہواہے۔آسیہ اندرابی، ناہیدہ نسرین اور صوفی فہمیدہ
کے گھر والوں کو انہیں سرینگر کی مرکزی جیل سے ایک خصوصی پرواز کے ذریعے
دِلّی منتقل کرنے کے بارے میں با لکل بے خبر رکھا گیا۔ تینوں خواتین کو
اننت ناگ کی ایک عدالت نے ایک کیس کے سلسلے میں عدالتی حراست میں دیدیا تھا
جس کے بعد پولیس نے انہیں سرینگر کی مرکزی جیل پہنچایا گیاتھا۔ اب سوال یہ
ہے کہ ایک ایسے وقت جب یہ تینوں عدالتی حراست میں تھیں انہیں کیسے این آئی
اے کے سپرد کیا جاسکتا تھا اورپھر ان تینوں خواتین کوبدنام زمانہ دِلّی
تہاڑ جیل منتقل کرنے کی اجازت کس نے دی؟دراصل ان کاقصوریہ ہے دختران ملت
کشمیر میں استصواب رائے کا مطالبہ کرنے والی تنظیموں میں پیش پیش ہے۔ تاہم،
اس کا موقف ہے کہ خودبھارت نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پرکشمیریوں کوحق
خوداردیت دینے کاوعدہ کیاتھاجس کی ضمانت دنیاکے بڑے طاقتور ملکوں نے بھی دی
تھی لیکن آج اس مظلوم کشمیریوں کی آوازکوجبر،ظلم وتشددکے ذریعے دیا جا
رہاہے تاہم آسیہ اندرابی کاایک جرم یہ بھی ہے کہ ان کامطالبہ ہے کہ کشمیر
چونکہ ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے اس لئے اس کا الحاق پاکستان سے ہونا
چاہیے۔
جیل کے اندردن بدن ان خواتین کی صحت تیزی سے خراب ہورہی ہے اورعلالت کی
بناء پران کو ذاتی ادویات کے استعمال سے بھی محروم کردیاگیا ہے اورجیل کی
سلاخوں کے باہرسے انہیں پلاسٹک کی تھیلی میں ناقص غذامہیاکی جارہی ہے جس کی
بناء پران کی خراب صحت پرتشویش بڑھتی جا رہی ہے اورانسانی حقوق کی عالمی
تنظیموں کوبھی اس سلسلے میں آگاہ کیاگیاہے لیکن متعصب مودی سرکارکواس کی
کوئی پرواہ نہیں۔یادرہے کہ آسیہ اندرابی کے شوہرپچھلے26سال سے بھارتی جیل
می قیدوبندکی صعوبتوں کوجھیل رہے ہیں۔بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیرمیں میر
واعظ عمر فاروق اوربلال لون کو محض اس بنیاد پر کہ انہوں نے ایک سیمینار
میں بھارت کے خلاف ریمارکس دیے،دائیں بازو کی ایک ہندوتنظیم کے کارکنوں کی
جانب سے بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا۔ کشن بھون میں ’’مسئلہ کشمیر ہند و پاک
تعلقات کے تناظر میں‘‘کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کے دوران ہی میر
واعظ فاروق سے بدسلوکی کی گئی۔ اس کے بعد جناب لون پر بھی حملہ کیا گیا۔
میرواعظ اپنی کرسی سے گر پڑے اور انہیں مشتعل ہندو کارکنوں نے مکّے مارے۔
بھارت کا ماضی گواہ ہے کہ متعدد واقعات میں لبرل عناصر کی آزادیٔ تقریر اس
کے سیکورٹی فورسز اور دائیں بازو کی ہندو تنظیم کے کارکنوں کے ذریعہ سلب کر
لی گئی۔ بھارتی حکومت نے ان واقعات پر بظاہر علانیہ تنقید کی ہے لیکن
درحقیقت خفیہ طور پر ایسے واقعات کی اور ایسے عناصر کی پشت پناہی کی جاتی
ہے۔ ٹھیک یہی وجہ ہے کہ آخر گجرات کے قتلِ عام، سمجھوتہ ایکسپریس اور
سکھوں کے اندھا دھند قتل کے واقعات کے کسی ملزم کو سزا سنائی گئی اور نہ
انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جاسکا۔ بھارت ہندو توا
(Hinduvta) کے انتہا پسندانہ فلسفے پر عمل پیرا ہے جو ہندو جارحیت اور
آزادیٔ تقریر کو کچلنے کا فلسفہ ہے۔
استبدادیت پر مبنی اس ماحول میں دانشور اور سماجی طبقے کو محدود کر دیا گیا
ہے اور ان کی آزادیٔ اظہارِ رائے کو دبا دیا گیا ہے۔ خواہ پنجاب ہو، جنوب
مشرقی ریاستیں ہوں یا کشمیر ہو، بھارت کو سچائی کڑوی لگتی ہے اور وہ اپنی
برخود غلط پالیسیوں کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو پوری طاقت سے کچل دیتا
ہے۔ کشمیر کے عوام اور بھارت کی ماؤنواز آبادی کے علاوہ دودرجن سے
زائدتنظیمیں اپنے بنیادی حقوق کیلئےآج بھی بھارت سے آزادی کی جنگ لڑ رہی
ہیں لیکن انڈین میڈیامیں بھی ان کی آوازکوسختی سے دبادیاگیاہے۔حالیہ واقعات
جن سے ہندوؤں کی غیر روادارانہ ذہنیت جھلکتی ہے، ان میں سے یہ واقعہ آل
پارٹی حریت کانفرنس کے میرواعظ فاروق اوربلال غنی لون کا ہے،جب وہ چندی گڑھ
اورکول کتہ میں مسئلہ کشمیر پر سیمیناروں میں شرکت کیلئےگئے تھے تو انتہا
پسندوں نے ان پر حملہ کر دیا اس بیان پر کہ کشمیر کبھی بھارت کا اٹوٹ انگ
نہیں رہا، بھارتی دانشور ارون دھتی رائے اور سید علی گیلانی کے خلاف بغاوت
کے مقدمات قائم کیے گئے۔ یہ صورت حال بھارت کی متعصبانہ ذہنیت کی عکاسی
کرتی ہے۔ ہندو انتہا پسندو ںکی جانب سے ارون دھتی رائے کے گھر پر حملہ اور
ان کی توہین و تذلیل کرنے میں مبینہ طور پر بھارتی اسٹیبلشمنٹ ملوث رہی ہے۔
غیر ملکی ٹی وی چینلوں پر پابندی، صحافیوں سے بدسلوکی اور ان کی گرفتاری،
بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں اور غیر ملکی صحافیوں کو حقائق و
معلومات تک رسائی سے انکار اور تحریک آزادی کے رہنماؤں مثلاً شبیر احمد
شاہ اور سید علی گیلانی پر جسمانی حملے، یہ ایسے واقعات نہیں ہیں جن کی طرف
سے آنکھیں بند کر لی جائیں۔
سوال یہ ہے کہ بھارت آزادی اور اپنے حقوق کیلئےاٹھنے والی ان آوازوں کو
کب تک دبا سکے گا۔ بھارتی جبرو استبداد جیسے جیسے بڑھے گا ویسے ہی اس کے
خلاف سخت ردعمل سامنے آئے گا۔2011ء میں آل ایشیا پیسیفک کے پروگرام
ڈائریکٹر سام ظریفی نے بھارتی وزیر داخلہ چدم برم کے نام ایک خط میں لکھا
تھا کہ "ان کے ادارے کو مسلسل ایسی رپورٹیں ملی ہیں جن میں بھارتی مقبوضہ
کشمیر میں تحویل میں لیے جانے والے افراد کے ساتھ بدسلوکی اور اذیت دہی کی
نشاندہی کی گئی ہے" تاہم حقیقت یہ ہے کہ آج سات برس گزرجانے کے بعدحالات
بدسے بتراوربدترسے بدترین ہوچکے ہیں۔
کشمیری عوام پچھلی سات دہائیوں سے اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہ وہاں
تعینات سات لاکھ بھارتی افواج کے مظالم کا شکار ہیں۔ کشمیرمیں یہ جدوجہد
بھارتی افواج کے مسلح قبضہ کے خلاف ہے۔ اس آزادی کا وعدہ اور یقین دہانی
اقوام متحدہ کی قراردادوں میں کرائی گئی ہے جسے بھارت میں برسراقتدار آنے
والی حکومتوں نے نظرانداز کیا ہے۔ آزادی کی یہ جدوجہد کشمیری عوام کی
خواہشات کے برخلاف کبھی ختم نہیں کی جاسکے گی۔ کشمیر کے مسئلے کا واحد حل
یہ ہے کہ کشمیریوں کو حق خود ارادی دی جائے تاکہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ
خود کر سکیں۔ سات دہائیوں پرمشتمل جدوجہد آزادی نے تویہ ثابت کردیاہے کہ
مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی ظلم وتشددکے باوجودکشمیری بھارت کے سامنے
سربلندکرکے اس سے آزادی کامطالبہ کرتے ہوئے اس سے الگ ہوکر پاکستان میں ضم
ہو نے کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے دے رہے ہیں۔
اپنے جوان بیٹے کی قربانی دینے والی اس عظیم خاتون نسیمہ کے یہ الفاظ حریت
پسندوں کانیاولولہ اورجدوجہدآزدی کشمیرمیں نئی روح پھونک دی ہے جس میں مئی
کے شروع کے دنوں میں جب نسیمہ بانونے اپنے بیٹے توصیف شیخ کوموبائل فون
پرکہاتھا"اپنے راستے پرقائم رہنا،میں تمہاری کامیابی کیلئے
دعاگوہوں،خداتمہاراحامی وناصرہو"۔ اس وقت بھارتی فوجی "مجاہدتوصیف شیخ "کے
بہت قریب پہنچ چکے تھے ،اس سے چندہی لمحے پہلے اس 23سالہ کشمیری مجاہدنے
اپنی والدہ کوفون پرکہاتھا:دعاکریں میری شہادت قبول ہو۔پھربھارتی فوج کے
آپریشن کے بعدتوصیف شیخ کی گولیوں سے چھلنی لاش ملی تھی۔اس نے کشمیرکی
آزادی کیلئے اپنی جان نثارکردی تھی۔غم وغصہ میں مبتلانسیمہ بانونے جرمن
نیوزایجنسی ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ کشمیرکی جدوجہدآزادیٔ میں
کشمیری تب تک اپنی جانیں قربان کرتے رہیں گے جب تک وہ آزادی حاصل نہیں
کرلیتے۔
اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی ادارے کی بنیادہی اقوام عالم کے درمیان
متنازعہ معاملات کوانصاف کے ترازومیں دیکھ کرظالموں کی سرکوبی اورمظلوموں
کی دادرسی فراہم کرناتھااورمسئلہ کشمیر تواقوام متحدہ کےایجنڈے پرسب سے
پرانامسئلہ ہے جہاں خودبھارت نے ساری دنیاکے سامنےکشمیریوں کوحق خودارادیت
دینے کاوعدہ کیاتھااور دنیاکی پانچ بڑی طاقتوں نےبطورضامن اس پر اپنے دستخط
ثبت کئے تھے۔کشمیریوں کے ساتھ سنگ دلانہ اوروحشیانہ سلوک کا سلسلہ اب ختم
ہونا چاہیے۔ دنیا کو کشمیریوں کے دکھ اور آزادی کیلئےکی جانے والی ان کی
جدوجہد کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔
نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ کے الفاظ میں: ’’تدیہی المیہ
بدقماشوں کا ظلم اور ان کی سنگ دلی نہیں ہے، بلکہ اس ظلم پر نیک دل لوگوں
کی خاموشی ہے‘‘۔ |