اسلام ایک دین کامل اور مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں نہ تو
کھلی آزادی ہے جو انسانی زندگی کو بے ہنگم کردے اور نہ ہی تنگ نظری جو
انسانی ذہنوں کو بونا کردے۔ یہ ایک دین ہے جو ہر زاویہ سے ہم آہنگ نظر
آتا ہے جہاں نہ تو ایک گال پر تھپڑ مارنے کے بعد دوسراگال حاضر کرنے کی
روایت ملتی ہے اور نہ ہی فرعونیت۔۔۔!
اسلام احساس کمتری اور احساس برتری سے ماوراء اعتدال پسندی کو لائحہ عمل
بنانے کی تلقین کرتا ہے۔ دین محمدی کو دراصل ہم نے یا تو سمجھا نہیں یا
ادراک کرنے کی صحیح سعی و جستجو نہیں کی۔ ورنہ رواں دور میں مغربی ادھ کچری
فکر رکھنے والے اس دین مقدس کے خلاف راگ الاپنے کی فکر نہ کرتے۔ انہیں حقوق
انسانیت اور اسلام کا مطلق علم نہیں۔ انہیں اسلام کے سلسلے سے ذرہ بھر
معرفت نہیں ورنہ مٹھی بھر لوگ کے سیاہ کارنامے لے کر اسلام پر انگشت نمائی
کرنے کی جرات نہ کرتے۔
اللہ تبارک و تعالی نے اپنی عالمگیر کتاب قرآن مجید میں انسانوں کی خلقت
کا سبب عبادت و معرفت قراردیا ہے۔’اور میں نے جنات اور انسان کو صرف اپنی
عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔‘ (ذاریات ۵۶)
عبادتوں میں نماز کی عظمت سب بلند ہے۔ نماز مومن کی معراج ہے۔’اگر نماز
قبول تو دیگر اعمال بھی قبول اور اگر یہ رد کر دی گئی تو سارے اعمال اکارت
ہو جائیں گے‘۔
نماز کی اہمیت کا یوں بھی اندازہ لگایا جا تا ہے کہ اس کو بہر صورت ادا
کرنا ہے اور کسی بھی صورت میں اس کا ترک کرنا جائز نہیں ہے۔ چند مقامات کے
علاوہ۔ اسلام نے اتنی باعظمت عبادت میں بھی تحفظ انسانیت کو مدنظر رکھا اور
اسے نماز پر ترجیح بخشی ہے۔ دین محمدی میں انسانیت کا اس قدر پاس و لحاظ
رکھا گیا ہے کہ اگر روزہ رکھنے کے باعث کسی مسلمان کو مشکلات کا خدشہ ہوتو
اس کا روزہ رکھنا صحیح نہیں ہے اور وہ بارگاہ احدیت میں ناقابل قبول ہے۔
دین اسلام نے زکوۃ کو واجب قراردیا تاکہ معاشرے سے غربت کے فاصلوں کو کم
کیا جاسکے اور اس طرح ہم ’تعاونوا علی ابر والتقوی‘کا عملی نمونہ پیش
کرسکیں اورمعاشرہ میں مزید بھائی چارہ کا رنگ دے سکیں۔
اسلام نے خدمت خلق کی یوں بھی راہ ہموار کی ہے ۔ احترام والدین میں’اف‘ تک
کہنے پر سخت ممانعت ہے۔ (سورہ اسراء ۲۳)
اور قرابتداروں، یتیموں، مسکینوں، قریب کے ہمسایہ، دور کے ہمسایہ، ہم نشین،
مسافر، غربت زدہ غلام، کنیز سب کے ساتھ نیک بر تاو کرنے کا حکم دیا ہے۔ (سورہ
نساء ۳۶)
مسلمانان جہاں کا اس بات کو بخوبی علم ہے کہ نماز واجب عینی ہے۔ ساتھ ہی
ساتھ اس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ کسی انسان کی مدد کرنا بھی بے حد ثواب
رکھتا ہے۔ روزہ رکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ لیکن روزہ دار کو افطار کرانا
ایک عظیم ثواب ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک صحابی جو آپ کے محضر درس سے استفادہ
کیا کرتے اور اپنے رفیقوں کے یہاں بھی آمدورفت رکھا کرتے۔ ایک دفعہ ایسا
ہوا کہ آپ کچھ دن تک نظر نہیں آئے۔
امام علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے سوال کیا کہ فلاں شخص کہاں ہیں ؟ کئی
روز سے نظر نہیں آئے ؟
اصحاب نے عرض کیا:اے فرزند رسول! وہ تنگدستی اور فقر و فاقہ میں مبتلا ہیں۔
آپ نے سوال کیا : تو کرتے کیا ہیں ؟
صحابی نے عرض کیا: کچھ نہیں ! گھر میں بیٹھے اللہ کی عبادت کیا کرتے ہیں ۔
آپ نے فرمایا : زندگی کیسے گزرتی ہے ؟
عرض ہوا: ان کے ہم نشینوں میں سے ایک نے ان کے اخراجات زندگی کی ذمہ داری
لے رکھی ہے۔
آپ نے فرمایا: بخدا قسم ! وہ دوست اس عابد سے زیادہ بلند درجات کا مالک ہے۔
(وسائل الشیعہ ج ۲ ص ۵۲۹، داستان راستان ج ۲ عنوان: کدامیک عابد ترند؟ طبع:
انتشارات صدرا)
دین اسلام میں حقوق انسانی کا دائرہ مسلمانوں سے بڑھ کر انسان کی سرحد کو
جاتا ہے۔ کسی بھی انسان کو بے جاں کوفت پہونچانا ہرگز بھی قابل قبول نہیں
ہے۔ کافر والدین کی خدمت کرنا ہے ۔ ان کی تعظیم و تکریم میں کوئی دقیقہ
اٹھا نہیں رکھنا ہےاور ہرآن ان کی خدمت میں کوشاں رہنا ہے۔ پڑوسی کا خیال
رکھنا بہرحال ضروری ہے اگرچہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو!
لوگوں میں یا تو آپ کے ہم مسلک افراد ہیں یا ہم نوع۔ اگر وہ آپ کے دینی
بھائی تو شرعی ذمہ داری اور اگر ہم مذہب نہیں تو انسانیت کے ناطے اس کی
حرمت کا لحاظ رکھنا ہوگا۔
اسلام نے ہمیشہ سے ہی مخلوقات خدا کی عزت وآبرو کا خیال رکھنے کا صریحی
حکم فرمایا ہے۔ اگر دنیا کو اسلام کے ہمہ گیر اصول کا صحیح علم ہوجائے تو
وہ فوج در فوج دین اسلام سے جڑتے چلے جائیں گے اور ان چند نام نہاد
مسلمانوں کو دیکھ کر پوری اسلامی امت کو داغدار ٹھہرانا بہرحال انصاف نہیں
ہے۔ |