رنگ ریز

کئی دن ہو گئے پھیکا آیا ہی نہیں ۔سوچا میں ہی لنگر خانے جا کر مل آتا ہوں۔ مجھے دیکھتے ہی پھیکا کِھل سا گیا۔ سچ پوچھیں تو میرے سینے میں بھی اُسے دیکھ کر ٹھنڈ سی پڑ جاتی ۔اُس نے بہت اچھے طریقے سے لنگر خانے کاکام سنبھال لیا تھا۔ ملتے ہی کہنے لگا۔ ”میں ابھی آپ کو یاد ہی کر رہا تھا۔ وقار کے ساتھ ایک شادی میں جانا ہے۔ آپ نے بھی ساتھ چلنا ہےصاحب جی۔“

” وقار نے اپنے لنگر خانے کے لیئے ایک ڈاکٹر صاحب کا انتظام کیاہے۔ تاکہ لوگوں کو مفت علاج کی سہولت بھی مہیا ہو سکے۔صاحب جی ڈاکٹر صاحب بہت اچھے انسان ہیں ایک دن کہنے لگے۔” پھیکے بھیا ایک بیوہ خاتون ہیں ۔انتہائی نیک اور شریف ان کے لیئے رشتہ چاہیئے ۔“

”صاحب جی یہ اللہ کے کم بھی نا بڑے نرالے اور سوہنے ہوتے ہیں وہی وسیلے بناتا ہے۔عجیب بات ہے نا ؟“ اُس سے اگلے دن ہی وقار لنگر خانے آگیا اور کہنے لگا۔” پھیکے یار میرے ایک چاچا جی ہیں چاچی کے گزرنے کا بعد کلے ہو گئے ہیں۔ بہت اچھے اور نیک انسان ہیں ۔ ان کے لیئے کوئی اچھا رشتہ ڈھونڈنا ہے ۔“

”اب بتائیں صاحب جی“ ” یہ میرا اللہ ہے نا ”بادشاہ ہے بادشاہ ۔سوہنا یار ہے جی میرا“۔”ہولی جئی میرے من میں نئی گل ڈال دیتا ہے پھر من اندر جویں کوئی سوچ کی پُڑی گُھل جاتی ہے۔راہ سوکھا ہو جاتا ہے۔صاحب جی نویاں نویاں پگڈنڈیاں دکھنے لگتی ہیں ۔حیاتی شہد ورگی ہے۔”صاحب جی جے اُس یار جانی کی باتیں ہواؤں کے پروں پرلکھی من کو چھو جائیں کولوں دی گا کر لنگ جائیں کن سننے لگ جائیں۔تے مت نہ ماری ہو بندے کی ۔تے صا حب جی ”حیاتی شہد ورگی ہے۔“

پھیکا درست کہہ رہا تھا۔ بندے کی نیت سہی ہو تو اُس کے دِل کے تار سوہنے یار کی مرضی پر بجنے لگتے ہیں۔زندگی کے ساز پر اِک نئی دُھن چھڑتی ہے ۔اور پھیکے نے اُس دُھن پر رقص کرنا بخوبی سیکھ لیا تھا۔
”اچھا پھر کیا ہوا پھیکے۔؟“

”ہونا کیا تھا صاحب جی ڈاکٹر صاحب کو چاچا جی سے ملوا دیا بڑے سوہنے بھلے مانس انسان ہیں جی۔صاحب جی اگے کے کم آپے سوکھے ہو گئے ۔ اور کل شام کو سادگی سے نکاح ہے آپ نے ضرور آنا ہے یہ میری زندگی کی سب سے انوکھی شادی ہے اور شاید یہ آپ کی زندگی کی بھی سب سے انوکھی شادی ہو گی ۔“

”ٹھیک ہے پھیکے یار پر انوکھی کیوں؟“ مجھے تجسس ہونے لگا ۔”بس صاحب جی کچھ نا پوچھیں کل آپ آ کر خود ہی دیکھ لیں۔“ اور پھیکے نے ٹھیک ہی کہا تھا اگلے دن مولوی صاحب نے جب مسجد میں میں نکاح پڑھایا تو وہ میری زندگی کا سب سے انوکھا نکاح تھا کل سے لے کر اب تک میں کئی بار رو چُکا۔جب مسجد میں مولوی صاحب نے پوچھا مکرم ڈاکٹر خالد صاحب آپ کو اپنی والدہ کا نکاح محمد امین صاحب کے ساتھ مبلغ بیس ہزار روپیہ حق مہر منظور ہے؟

میرا رُواں رُواں تڑپ اُٹھا یہ کانوں نے کیا سنا تھا شاید میں آج پیدا ہوا تھا میرے کانوں میں اذان دی جا رہی تھی یا شاید میں نے کلمہ آج پڑھا تھا مسلمان آج ہوا تھا یہ کیسا نکاح تھا اور یہ کیسا عظیم بیٹا تھا میرے کانوں میں اب تک مولوی صاحب کے الفاظ رس گھول رہے ہیں۔ میں نے نم آنکھوں سے ڈاکٹر خالد کو گلے سے لگا کر مبارک دی۔

”تم دنیا کے سب سے پیارے بیٹے ہو تم نے آج اسلام کو زندہ کر دیا نام نہاد رسم و رواج کے زنداں میں مقید لوگوں کے لیئے تم سورج کی پہلی کرن ہو۔“ ” جیتے رہو“

مجھے پُھپھی اماں یاد آگئیں میری پیاری پُھپھی جان جو بھری جوانی میں بیوہ ہو گئیں تھیں ۔کئی سال بیت گئے اب تو اُن کی مانگ نے سفید جوڑے سے رنگ چُرا لیا تھا۔ ہم نے کبھی اُن کےدوسرے نکاح کے بارے میں سوچا ہی نہیں۔ جیسے کوئی طے شدہ بات تھی ۔عمر بیوگی میں ہی بسر ہو۔ گاۓ تھی جو چُپ کر کہ کھونٹے سے بندھی رہے۔کیا منہ دکھائیں گے ہم اللہ کو۔

میرے دل کی عجب حالت تھی۔” پھیکا بتا رہا تھا صاحب جی ڈاکٹر خالد کی بیوہ والدہ نے محنت کر کے بیٹے کو پڑھایا لکھایا اب وہ بیٹے کی شادی کرنا چاہتی تھیں کہ بیٹے نے دنیا کی سب سے انوکھی شرط رکھ دی امی پہلے آپ کی شادی کروں گا پھر اپنی۔

”صاحب جی وہ کہنے لگا۔ ”اماں مُجھے آپ کا ساری ساری رات سلائی کرنا یاد ہے مجھے آپ کے ہاتھوں کے چھالے سونے نہیں دیتے میں کیسے اپنی راتیں سجا لوں میری اماں کی ویران راتیں میری سیج کے پھولوں میں سسکتی رہیں۔ نا میرے دل کو چین نہیں آۓ گا۔“

” صاحب جی آپ نے دیکھا” اس نے ماں کو بیٹیوں کی طرح رخصت کیا ہے۔

”صاحب جی میری امّاں کی راتیں بھی کتنی پھیکی اور ویران ہوں گی۔اور امّاں کی ”رات کا چن وی کِنّا کَلّا ہو گا“ امّاں کی منجی امّاں کے رت جگے لکھتی تو میرے تو خورے ساہ ہی نکل جاتے۔امّاں کی پاسے پلٹتی بے چین رات کے دُکھ میں پڑھ ہی نہیں سکا۔میں امّاں کا بدقسمت بیٹا۔“

پھیکا ماں کو یاد کر کے روتا رہا اور میں پُھپھی امّاں کو اُن کا چہرہ آنکھوں کے سامنے سے ہٹ ہی نہیں رہا تھا۔ بچپن کے کتنے ہی خوبصورت لمحے آنکھوں کے سامنے آتے رہے کہیں پھپھی اماں میری سائیکل کے پیچھے بھاگ رہی ہیں اور کہیں اپنے ہاتھوں سے لقمے دے رہی ہیں ۔ پھر ایک دم پُھپھی امّاں کی چوڑیاں ٹوٹیں لقمے میرے حلق میں پھنسنے لگے۔انہیں سوچوں میں گُم ہم گھر پہنچ گئے۔

میں پھپھی اماں کی ٹوٹی چوڑیوں پر چل کر آیا تھا بہت لمبی مسافت طے کی تھی میرے پاؤں لہو لہان تھے۔ پھیکا اپنے گھر چلا گیا اور میں بوجھل دِل کے ساتھ اپنے گھر آگیا۔

وہ رات میری زندگی کی سب سے لمبی اور نم رات تھی۔سسکیاں بھرتی ہوئی ماتم کرتی ہوئی اورصبح پھپھی اماں کے سفید جوڑے جیسی سوگوار۔ابھی ابھی اطلاع آئی تھی رات پھپھی اماں چلی گئیں ۔میرے اندر سفید رنگ جیسے ڈیرہ ڈال کر بیٹھ گیا۔سفید رنگ نے راتوں کو اپنے رنگ میں رنگ لیا تھا۔بیوہ رات آنکھوں میں سفید جوڑا پہن کر گھومتی رہتی۔ دھیان ہوا تو دیکھا ارد گرد کئی سفید چُنی والیاں تھیں۔پھپھی اماں کے سوئم کے فورا بعد ہی میں نے پھیکے کو بلا بھیجا۔”رنگ ریز نے دوپٹّے رنگنے کا حکم بھیجا تھا۔“
( ختم شد )

Mubashra Naz
About the Author: Mubashra Naz Read More Articles by Mubashra Naz: 4 Articles with 6878 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.