آزادکشمیر کا لاوارث احتساب

آزادکشمیر کا لاوارث احتساب

وطن عزیز پاکستان کی طرح آزادکشمیر میں بھی رب کی عنائیات وسائل ‘ اسباب ‘ صلاحیت بے پناہ ہیں ‘ مگر اچھائیوں اور اچھے لوگوں کی شرافت کے باعث برائیوں اور بُرے لوگوں کا غلبہ چلتا رہا ہے اچھے دیانتدار باصلاحیت اپنے اُمور میں کمال دسترس رکھنے والوں کا فطرتی مزاج ہوتا ہے وہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں اور حکومتوں سیاستدانوں ‘ اعلیٰ اتھارٹیز کے پاس محض سلام یا صرف حاضری کیلئے جاتے ہیں ‘ نہ جی حضوری اور واہ واہ سے ان کاواسطہ ہوتا ہے ‘ خصوصاً دلیر نڈر ہوں تو یہ اپنے ذمے کام کو احسن انداز میں ادا کرتے ہوئے صحیح معنوں میں منصب اور رزق حلال کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں جس کا اجتماعی فائدہ نیک نامی حکومتوں اداروں کو ہوتی ہے مگر ان کے خلاف ناجائز طریقوں ‘عادات پر یقین رکھنے والے ہر جگہ ہر نہج پر متحد ہو جاتے ہیں ‘ کیوں کہ ناجائز ذرائع پر یقین رکھنے والے ہر جماعت ‘ ادارے ‘ شعبہ میں اپنی اپنی سرمایہ کاری ‘ خدمت جی حضوری کا باعث موجود ہوتے ہیں جن کا آپس میں مقناطیسی کشش والا رابطہ ہوتا ہے ایک دوسرے کے مفادات کے تحفظ کیلئے بڑے سے بڑے سور مایا پھر اس کے عزیز اوقاب احباب سمیت مجبوریوں کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنا رنگ دکھا جاتے ہیں جبکہ اُصول دیانت ‘ محنت کردار والے یہ سب کچھ نہیں کر سکتے لہٰذا شریف النفس طبیعت والے کبوتر کی طرح کیفیت میں زندگی تمام کرتے ہیں اور دلیر نڈر لوگ سرکار ہو یا معاشرے کا کوئی شعبہ ہو یہ کھڈے لائن لگا دیئے جاتے ہیں جس کا ان کو ذاتی طور پر نقصان ہوتا ہے نہ پرواہ ہوئی ہے مگر ملک معاشرے ادارہ شعبہ سب کو اس کا ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے جس کی تلافی وقت گزرنے کے بعد کسی طرح بھی ممکن نہیں رہتی ہے ‘ گزشتہ نصف صدی خصوصاً ڈھائی عشروں سے یہ صورتحال پورے ملک کی طرح آزادکشمیر میں بھی مہلک مرض اختیار کر گئی ہے ‘ ایک تو جواب دہی کا عمل خاکستر ہے ‘ دوسرا محاسبہ کرنے والے ادارے بھی پولیو کے مریض بنے ہوئے ہیں گو کہ سپریم کورٹ نے احتساب بیورو میں ملازمت کے طریقہ کار سے متعلق بڑا فیصلہ دیکر ریاست حکومت کو بہت بڑا راستہ دیتے ہوئے سیاسی معاشرتی مجبوریوں مصلحتوں سے آزادی دلائی ہے ‘ اور یہاں کی موجودہ سمیت سب ہی حکومتوں نے اپنے طور پر کوششیں بھی کیں مگر سارے نظام اداروں معاشرے کی طرح پارلیمانی پارٹیوں کے اندر بگڑے عناصر آڑے آ جاتے رہے ہیں جو احتسابی اداروں سمیت ہر جگہ اپنے خوشامدی کمزور لوگوں کو لگوا کر مافیا کا کردار ادا کرتے ہیں اب پاکستان میں تجاوزات مافیا سے لیکر کرپشن کے ڈان پکڑے جا رہے ہیں تو یہاں کے عوام نے بھی بڑی اُمیدیں لگائی ہیں کہ شاید خلق خدا کی مسیحائی کا دور شروع ہو مگر سیاسی ‘ معاشرتی ‘ جماعتی ‘ پارلیمانی محکمانہ مصلحتوں مجبوریوں نے بلیک میلنگ کو بالادست بنا رکھا ہے ‘ ماضی اور موجودہ ادوار میں کئی بار یہ تجویز پیش کی گئی اور کوشش بھی کی گئی ‘ نڈر ‘ بے باک ‘ اعلیٰ پولیس آفیسر سردار فہیم خان کو چیئرمین احتساب بیورو کا فریضہ سونپا جائے مگر ہر بار یہ فیصلہ التواء کا شکار ہو جاتا ہے ‘ اور وہی عناصر آڑے آ جاتے ہیں جن کے باعث چوہدری رقیب کو پہلی ذمہ داری سے ہٹایا گیا تھا یہ مثالیں ہیں ان جیسے بہت سے سیاست ‘ بیورو کریسی ‘ جریدہ ‘ غیر جریدہ ‘ ہر شعبہ زندگی میں لوگ موجود ہیں جن کا استفادہ کرتے ہوئے نظام کو جواب دہی کے راستے پر گامزن کیا جا سکتا ہے کیوں کہ جواب دہی کا بالادست ہونا رضاالٰہی اور خلق خدا کی خدمت کا بہترین راستہ ہے ‘ ناصرف فہیم عباسی ایڈیشنل آئی جی پی کو بلکہ ان جیسے لوگوں کو جواب دہی کا عمل بحال کرنے کیلئے سامنے لا کر اصلاح لازمی ہو گئی ہے جس کے لیے اسلام آباد ‘ مظفر آباد حکومتوں ‘ اداروں سمیت سب کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے کیوں کہ بہت محدود عناصر کا جوڑ ساری عوام اور نظام کو تباہ کیے ہوئے ہے یہ عناصر محض وہ خوف ہیں جن کا وجود نہیں ہوتا بہت بزدل اور کمزور ہوتے ہیں ‘ ان کو ایک جھٹکا لگ جائے تو یہ سب کچھ کھول کر رکھ دیتے ہیں ‘ پاکستان کی طرح آزادکشمیر میں بھی سیاستدانوں ‘محکموں ‘ شعبوں نظام کو ان سے نجات دلانے کیلئے دلیرانہ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے ؟۔ صرف تین سال پہلے خود یہاں مسلم لیگ (ن) بلند آواز میں باور کرایا کرتی تھی کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق آزادکشمیر میں گڈ گورننس ‘ انصاف ‘ میرٹ کا قیام حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے ۔

Tahir Ahmad Farooqi
About the Author: Tahir Ahmad Farooqi Read More Articles by Tahir Ahmad Farooqi: 206 Articles with 148947 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.