تحریر عائشہ یاسین
میں اپنے وجود کو زمین کی جانب گرتا محسوس کر رہا تھا۔ میں بوائز کمپس کے
آفس کے باہر پرنسپل سے کچھ ڈسکس کرنے کے لیے کھڑا تھا اور پرنسپل کے بلائے
جانے کا انتظار ہی کر رہا تھا تو گولیوں کی ترتراہٹ نے دماغ کو الرٹ کیا پر
صبح سے ہی کوئی ٹریننگ کا سلسلہ جاری تھا۔ اس لیے اپنے خیال کو جھٹک کر جب
میں مڑاتو پرنسپل صاحبہ خود باہر آچکی تھی اور ان کے چہرے کی ہیبت بتا رہی
تھی کہ صورت حال درست نہیں۔ میں نے ان کی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے اسی
جانب دیکھا جہاں وہ آنکھوں میں خوف لیے دیکھے جارہی تھیں۔ میں جوں ہی مڑا
تو میری نظر بد بخت شخص پر پڑی جومیری استاد محترم پر بندوق سیدھی کر چکا
تھا۔ میرا جسم جیسے جذبہ ایمانی سے بھر گیا اور کسی شعلے کی مانند میں نے
اس پر حملہ کرکے بندوق کو ہتھیانے کی کوشش کی ہے۔
وہ میری نگاہوں کی وحشت سے زیر ہوکر لڑکھڑا چکا ہے پرکوئی آگ سی چیز شدت سے
جسم میں پیوست ہوتی محسوس ہورہی ہے۔ میں اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پا رہا
ہوں اور زمین کی طرف آرہا ہوں۔ دماغ سن ہوچکا ہے۔ میرے سامنے میرے اساتذہ
اور ساتھی ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں۔ سب پریشان ہیں۔ ایک شورسا اٹھ رہا ہے
لیکن میری سمجھ میں کچھ بھی تو نہیں ارہا۔ جب تک میں فرش پر نہ گرا میری
آنکھوں کے سامنے شعلے کا غبار سا اٹھا اور کچھ لوگ اسلحے سے لیس میرے چاروں
طرف پھیلتے گئے۔ میں گرتے گرتے اپنے وجود کو گھٹنے کے بل سنبھالنے کی کوشش
کررہا ہوں ’’ماں!، ماں!‘‘،یہ کہتے ہی میرے نظر میرے جسم سے رستے ہوئے خون
پر ہڑی۔
’’ماں!‘‘،میری روح نے اپنی متاع جاں کو پکارا۔’’ماں! کیا میں مر رہا ہوں
ماں‘‘؟ میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے دھندلاتے منظر میں اپنی محبوبہ کا چہرہ
دیکھا تو پوچھا۔’’ماں کیا میں تجھ سے دور جارہا ہوں‘‘؟ میری ماں نے مجھے
اپنی بانہوں میں تھام لیامگر وہ خاموش رہی۔ میرا حلق اب سوکھ رہا تھا اور
آنکھوں میں سارے منظر گھوم رہے تھے۔ میں نے ماں کی گود میں سر رکھ دیا۔
میرے جسم سے رستا گرم خون زمین میں پھیل رہا تھا۔ میں نے پھر کہنا شروع کیا۔
’’ماں !میں مر رہا ہوں۔پر ماں! مجھے تجھ سے بہت سی باتیں کرنی ہیں، تم سن
رہی ہو نا!‘‘۔وہ تصور میں مامتا کا مجسمہ بنے مجھے دیکھے گئی۔ میں نے پھر
اس کو پکارا۔’’ ماں! پتا ہے میں تم کو بہت چاہتا ہوں ماں۔ اتنا کہ تمہاری
خاطر جان بھی دے سکتا ہوں۔ میں تم کو ہر خوشی دینا چاہتا ہوں تو کہے تو
چاند بھی لا دوں ماں کیونکہ تو میری پہلی محبت ہے۔ تو مامتا کا آنگن ہے۔
تجھ سے مجھے زندگی ملتی ہے ماں۔پر ماں میں جارہا ہوں۔ اچھا ہے کہ تو میرے
پاس نہیں ورنہ کیسے میرے بہتے خون کو دیکھتی۔ کیسے تو میرے بے بس وجود کو
دیکھتی۔ دیکھ ماں تو ہمیشہ کہتی تھی نہ کہ مرد تو بہادر ہوتا ہے درد میں
بھی ایک آنسو نہیں گراتا ۔دیکھ ماں میں نہیں رویا جبکہ درد میرے نس نس میں
دوڑ رہا ہے پر میں نہیں رویا ماں۔ تیرا خواب تھا نہ کہ میں فوجی بنوں۔
مضبوط اور نڈر۔ دیکھ ماں میری بہادری پر ناز کر کہ دشمن کی گولی سینے پر
کھائی پر ڈرا نہیں۔
دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر دیکھا پر ہلا نہیں۔ میں نے اپنا وعدہ پورا
کیا ماں۔ میں شیر کی ایک دن ہی جیا پرگیڈر کی سو دن کی زندگی کو ٹھوکر مار
دی۔ ماں مجھ سے وعدہ کرو تم رو گی نہیں۔نہ ہی میرے جانے کے بعد اداس ہوگی
اور جب میری یاد آئے تو ہلکے سے مجھے پکار لیا کرنا میں تمہارے آس پاس ہی
تو ہوں گا کیونکہ میں مروں گا نہیں میں تو شہید کہلاوں گا اور شہید مرتا
نہیں ہے ماں۔ تو شہید کی ماں ہے۔ دیکھنا میری بہادری پر تمغا ملے گا تو اس
تمغے کو سب کوفخر سے دکھانا کہ یہ ایک بہادر فوجی جوان کا تمغہ ہے‘‘۔
’’ماں میری جب بھی یاد آئے تو اپنے ہاتھ سے گلاب جامن بنا کر حسن کو کھلا
دینا۔ شکر ہے حسن نے آج چھٹی کرلی ورنہ تو تو اکیلی رہ جاتی تو میں کیسے جا
پاتا۔ ماں مجھ سے وعدہ کرو کہ بابا کو ہارنے نہیں دوگی ان کو رونے نہیں
دوگی۔ جو مجھے تمغہ ملے گا وہ بابا کے سینے پہ سجا دینا۔ ماں وعدہ کروحسن
کو مجھ سے بھی زیادہ بہادر فوجی بناوگی۔ جب جب اس کے وردی میں ستارہ چمکے
گا تب تب میں خوشیاں منانے تیرے اس پاس موجود ہوں گا۔ ویسے ہی تجھ کو گلے
لگایا کروں گا جیسے آج صبح اسکول آتے ہوئے لگایا تھا۔ حسن کے جوان بطن میں
مجھے دیکھ لیا کرنا۔ماں! میری ساری کتابیں بھی حسن کو دے دینا۔ اس کو یہ
کتابیں بہت پسند تھی پر میں اس کو ہاتھ تک لگانے نہیں دیتا تھا‘‘۔
’’ماں! اب میری آنکھوں کی روشنی جارہی ہے تیری تصویر دھندلی ہورہی ہے اور
ایک روشن دروازہ کھل رہا ہے۔ ماں میرے جانے کا وقت آن پہنچا ماں! مجھے جانا
ہے اب اور ہاں ماں میرے جانے کے بعد میری دھرتی ماں کی مٹی کو بوسہ ضرور
دینا اور کہنا کہ اس دھرتی ماں کے سپوت نے اپنا حق ادا کیا۔ جو وعدہ کیا
اسے پورا کیا۔میں ڈرا نہیں جھکا نہیں مٹا نہیں بلکہ اس کے احسان کا قرض
اتار گیا ہوں اور میں اپنے جاتے ہی کئی رکھوالے چھوڑ گیا ہوں جو اپنی دھرتی
ماں کی حفاظت پر مامور ہیں جو نہ اس کی حرمت میں آنچ آنے دیں گے ۔
نہ اس پر کوئی افتاد آنے دیں گے۔ چاہے تو مجھ جیسے اک اک نوجوان کو آزمالے۔
اس کی مٹی پر جاں لٹا دیں گے۔ یہ دھرتی اپنے ماں جیسی نہیں بلکہ ہماری ماں
ہے۔ ہماری پہلی محبت ہمارا آخری پیار۔ہمارا عشق ہمارا جنوں اور ہماری
زندگی۔یہ کہتے ہوئے سانس ڈوبی۔ پھر اگلے لمحے آخری گرم بھانپ نے یہ کہہ کر
جان چھوڑی ’’ایک زندگی کیا،سو زندگی قربان ہے۔ اے دھرتی ماں تجھ کو سلام
ہے‘‘۔
|