مولانا طارق جمیل صاحب ایک جید عالمِ دین ہونے کے ساتھ
ساتھ مبلغ بھی ہیں، وہ اپنے مخصوص اندازِ بیان کی وجہ سے مشہور ہیں، انہوں
نے تبلیغی جماعت کے ساتھ کئی ممالک کا سفر کیا ہے ، لوگ بڑی تعداد میں اُن
کے بیانات سنتے ہیں، ان کے بیانات سے متاثر ہوکر کئی معروف شخصیات اسلامی
طرزِ زندگی کی طرف مائل ہوئیں ، اوراُن کی تبلیغی کوششوں کے باعث بہت سے
گلوکار، اداکار اور کھلاڑی نہ صرف یہ کہ خود دینِ اسلام کے احکامات کے اوپر
عمل پیرا ہوئے بلکہ دوسروں کے لئے بھی ذریعہ ہدایت بنے، مولانا کا تعلق
دعوت و تبلیغ کی اس جماعت سے ہے جس میں ان پڑھ ،کاشتکار مزدور ، تاجر ،
ملازمت پیشہ ، اہل صنعت ، اہل علم، گریجویٹ، ڈاکٹر انجنیئر ہر طبقہ کے لوگ
اپنے خرچ پر سفر کرتے ہیں ،جس کو جتنا وقت ملا نکلا، ہر فرد اپنے سے بڑے سے
سیکھتا ہے اور چھوٹے کو سکھاتا ہے ۔کسی نے نماز سیکھی ، کسی نے قرآن کی
سورتیں سیکھیں، کسی نے ترجمہ ومطلب سیکھا ،کسی نے حدیثیں یاد کیں ، گشت کے
لئے نکلتے ہیں، اپنے بھائیوں کے پاس جاکر نہایت ہمدردی سے ان کی خوشامد
کرکے مسجد لاتے ہیں ، دین کی اہمیت بتلاتے ہیں ، نماز کی طرف توجہ دلاتے
ہیں، کوئی وضوء کراتا ہے، کوئی فاتحہ ،کوئی سورہ اخلاص تو کوئی تشہد یاد
کراتا ہے ، عموماً مسجدوں میں قیام کرتے ہیں، نوافل پڑھتے ہیں ، تہجد کا سب
کو خوگر بناتے ہیں دعاء میں روتے ہیں، پیدل سفر کرکے گاؤں گاؤں پھرتے ہیں ،
ہرجگہ اپنا مشغلہ سیکھنا سکھانا جاری رکھ کر، دنیا کے سینکڑوں ملکوں میں
پھیلے کام کررہے ہیں
اس جماعت کے بانی مولانا الیاس کاندھلوی رحمہ اللہ تھے اور اس جماعت کی
تائید تقریباً تمام علماء دیوبند کرتے آرہے ہیں ، ان علماء کے فتاویٰ کی
کتابیں دعوت و تبلیغ کی حمایت سے بھری پڑی ہیں، عصرِ حاضر کے ہمارے اساتذہ
کرام مولانا یوسف لدھیانوی شہید ، سابق صدر وفاق المدارس شیخ سلیم اللہ خان
رحمہ اللہ اور مفتی تقی عثمانی صاحب جیسے اکابر علماء دیوبند وارباب بصیرت
کی طرف سے تحریری وتقریری طور پر ہمیشہ تائید ہوتی رہی ہے ، جامعہ فاروقیہ
کراچی میں پڑھنے کے دوران استاد محترم حضرت شیخ سلیم اللہ خان رحمہ اللہ کی
معیت میں دوبار مدرسے یا اُن کی ذاتی گاڑی(جیپ)میں شب جمعہ کے لئے جانے کا
شرف حاصل ہوا ، حضرت رحمہ اللہ اصول کے سخت پابند تھے ،مرکز پہنچنے کے بعد
گاڑی سے اترنے کے وقت فرمایا: اگر ہمارے ساتھ ہی واپس جانا ہے تو عشاء کی
نماز کے بعد فوراً گاڑی کے پاس آنا ہے ، ورنہ ہم چلے جائیں گے ، آمدم برسرِ
مقصد
پانچ دسمبر 2018کو اسلام آباد میں بڑھتی آبادی پر توجہ کے عنوان سے سمپوزیم
کا انعقاد کیا گیا جس میں وزیراعظم عمران خان، چیف جسٹس ثاقب نثار، اور
مولانا طارق جمیل صاحب کے علاوہ قدآور سیاسی اور سماجی شخصیات نے شرکت کی،
توقع یہ کی جارہی تھی کہ نظریہ اسلام سے سوفیصد متصادم نظریہ پر منعقد کئے
گئے اس سمپوزیم میں مولانا صاحب کی زبان سے وہ للکار سننے کو ملے گی جو آج
سے تقریباً 8سال قبل، طاقت کے نشے میں مست ، ہر وقت مُکے لہرانے والے ایک
ڈکٹیٹر کے سامنے اُس وقت کے طالبِ علم اور آج کے مفتی عدنان کاکاخیل صاحب
کی زبان سے ایوان میں گونجی تھی-
لیکن یہاں تو اگر کھل کر اس نظریہ کی حمایت نہیں کی گئی تو اشاروں کنایوں
میں ضرور کی گئی ، بجائے اسلام کے درست نظریہ کو بے غبار طریقہ سے پیش کرنے
کے الٹا بڑھتی آبادی کو جہالت کا شاخسانہ قرار دے کر
سادہ طبیعت کی مالک دیہاتی خواتین کے سینے زبان کے تیر سے چھلنی کئے گئے ،
اُن بیچاریوں نے تو اپنے محلے کے کسی مولوی سے شاید یہ سن رکھا ہوگا کہ
ہمارے پیارے نبی روز قیامت اپنی امت کی کثرت پر فخر فرمائیں گے اس لئے آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اپنے فگر کی پرواہ کئے بغیر بچے پہ بچہ جنم
دے رہی ہیں ، ورنہ آج کل تو مائیں ایک بچے کو بھی پیدائش کے بعد اپنے سینے
سے لگانے کی بجائے نوکروں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیتی ہیں ، کیونکہ نہ تو اسے
اپنی سوشل لائف خراب کرنی ہوتی ہے اور نہ ہی فیڈ کروا کر اپنا فِگر خراب
کرنا ہوتاہے، بلکہ بہت سوں کو اگر کوئی کوکھ کرایہ پر مل جائے تو خود بچہ
پیدا کرنے کی زحمت ہی نہیں اٹھاتیں، تبادلہ خیال کی اس مجلس میں
چیف جسٹس کو اپنا فرضِ منصبی چھوڑ کر دوسرے معاملات میں بے جا مداخلت پر
سلام پیش کیاگیا ، مدینے کی ریاست کی پُر فریب صدا بلند کرنے والے وزیر
اعظم کو (کلمۃ حق ارید بہا الباطل ) کا لحاظ کئے بغیر سراہا گیا ، کاش
مولانا صاحب موقع کو غنیمت سمجھ کر لگے ہاتھوں مدنی ریاست کے مختصر سے خد و
خال بھی سامنے رکھ لیتے، کسی اور موقع پر کثرتِ اولاد کی ترغیب دینے والے
مولانا نے یہاں آکر اپنے گاؤں کے کسی آدمی کو10 بچوں کی پیدائش پر بیوی
کاآپریشن کرانے کے اپنے نایاب فتویٰ کاذکر فرماکر دبے لفظوں میں دوسروں کو
برتھ کنٹرول کی اجازت بھی دی ، یہ بتایا ہی نہیں گیا کہ جس خدا نے زمین پر
رینگنے والے ہر جاندار کو رزق دینے کاوعدہ فرمایا ہے وہ آنی والی نسل کو
بھی رزق دے سکتاہے ، تمہیں بڑے بڑے عہدوں پر براجمان کرنے والا بھی وہی ربّ
ذوالجلال ہے ، اپنے عہدوں کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے اُس کی قدرت کو چیلنج
کرنے کی کوشش پر خوفِ خدا ہی نہیں دلایا گیا مدنی ریاست کے والی کے اس قول
کے بھی بظاہر نفی کی گئی کہ ”سب سے پاکیزہ چیز جس کو تم کھاتے ہو تمہاری
اپنی کمائی ہے اور تمہاری اولاد بھی تمہاری کمائی میں سے ہے " ترمذی)
جگہ جگہ دلکش انداز میں خدا کی قدرت بیان کرنے والے
مولانا نے یہ بتایا ہی نہیں کہ "وسائلِ رزق تو بہت ہیں لیکن فرعون وقارون
کا جانشین ، سرمایہ دار ، جاگیردار اور مٹھی بھر عیاش طبقہ اِن وسائلِ رزق
پر سانپ بن کر بیٹھا ہوا ہے۔اسی وجہ سے غریبوں کو ’’بچے کم ، خوشحال
گھرانہ‘‘ کے گیت سنائے جاتے ہیں، ضرورت خاندانی منصوبہ بندی جیسی مردہ
تحریکوں میں دوبارہ پھونک مارکر جان ڈالنے کی نہیں بلکہ ضرورت اس امر کی ہے
کہ سود، جوا، رشوت اور دوسرے ناجائز طریقوں سے جو قومی دولت انہوں نے لوٹی
ہے وہ ان سے چھین کر محروم طبقوں میں منصفانہ طور پر تقسیم کی جائے ، ان کو
سادہ زندگی کا خوگر بنایا جائے، اور ان کی فضول خرچیوں سے قومی سرمایہ بچا
کر عوام کی پسماندگی دور کرنے پر صرف کیا جائے"
کہاں میں( گناہوں میں ڈوبا ہوا بندہ ناچیز) اور کہاں ہر وقت اُمت کے درد
میں رونے والے مولانا، کوئی نسبت ہی نہیں جو تنقید کے لئے وجہ جواز بن
جائے! فقط اپنے دکھ کا اظہار مقصود ہے، جی ہاں،! دل تو پسیجتا ہے جب کوئی
اپنا ہی ہم مسلک و مشرب، جمہور اکابر کے طرزِ عمل سے مختلف چلتے ہوئے نظر
آئے، فقط اپنے بڑوں کی توجہ اس طرف دلانا مقصود ہے کہ موقع کی نزاکت سنگینی
اور حساسیت کو بھانپنے کی ضرورت ہے
ابھی حال ہی میں نظام الدین میں مقیم تبلیغی جماعت کے ذمہ دار مولا نا سعد
کاندہلوی کے بعض غلط نظریات و افکار سامنے آنے پر دینی حلقوں میں پیدا ہونے
والا اضطراب کس سے پوشیدہ ہے؟ کیا ہی اچھا ہوگا اگر
دارالعلوم دیوبند کی طرح ہمارے بڑوں کی طرف سے بھی بروقت کوئی ایسا اقدام
ہو جائے کہ جس سے مولانا بھی بدستور اپنے رہیں اورتبلیغی جماعت کی وحدت بھی
پارہ پارہ ہونے سے بچ جائے، ورنہ اغیار کی طرف سے سلگائی گئی یہ چنگاری
رفتہ رفتہ شعلہ زن ہوئی تو اکابر دیوبند کے خون جگر سے سینچی ہوئی اس
عالمگیر تحریک کو اپنے لپیٹ میں لے لے گی ، اگر صحیح تنقید ، معتدل اور
متوازن لب ولہجہ میں اخلاص اور جذبہ خیر خواہی کے ساتھ کی جائے تو یقیناً
اپنا اثر دکھائی گی ، میرے سر کے تاج مولانا صاحب! ہمیں بچھڑکے نا جانا ،
غلطی کے احساس اور اعتراف میں انسان کی عظمت کا راز پوشیدہ ہے ، مقبولیت
اگر مشکل سے ملتی ہے تو برقرار رکھنا بھی کوئی کم مشکل نہیں، نئے یار ضرور
بنائیں لیکن پرانوں کو تو پرے مت دھکیلیں
اپنی رائے کے ساتھ اہل رائے، صاحب بصیرت ،دور اندیش ،اور زمانہ شناس علماء
کی آراء کو شامل کرنا خِرد مندی کی علامت ہے ، انانیت کی گرد نظر کو دھندلا
، تصور کو داغدار اور قدم کو لغزش پر آمادہ کرتی ہے، تنہا عقل بسا اوقات
بٹھک جاتی ہے۔جبکہ ارباب بصیرت علماء کی تنبیہ سیدھا رُخ اور درست سمت عطا
کرتی ہے۔
فرد قائم ربطِ مِلّت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
|