مادر وطن کے دفاع کے مقدس مشن کیساتھ منسلک ہونیوالے
جانباز ’’حلف وفاداری‘‘ اُٹھاتے ہیں۔جسے فوجی زبان میں ’’قسم پریڈ ‘‘بھی
کہتے ہیں۔چنانچہ پاک افواج میں خدمات انجام دینے والا ہر سپاہی ،سردار ،افسر
اور جرنیل اپنے حلف کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا ۔(اِسکی قطعی گنجائش
نہیں)یہاں تک کہ عسکری زندگی گزارتے ہوئے غازی بن کر اپنے گھر لوٹ جائے ۔یا
پھر (موجودہ وقت میں)مادر وطن کا دفاع کرتے ہوئے جان قربان کر دے ۔زمانہ
امن ہویا زمانہ جنگ ،فوجی کیلئے اپنی پیشہ وارانہ زندگی سے بڑھ کر کوئی
دوسری دلچسپی نہیں ہوتی ۔پاک افواج کو یہ اعزازحاصل ہے کہ تینوں (بری نحری
فضائی)مسلح افواج میں تربیت و مہارت کے سارے عمل میں’’ قرآن و حدیث ‘‘ کی
طرف رجوع کیا گیا ہے ۔کہیں قرآن حکیم کی کسی آیت مبارکہ کے ذریعے فوجی
زندگی ،اہداف و مقاصد کی اہمیت واضع کی گئی ہے ۔توکہیں کسی حدیث مبارکہ سے
۔یہی وجہ ہے کہ جب ایک عام نوجوان فوج میں بطور سولجریا کمیشنڈ آفیسر
شمولیت اختیار کرتا ہے ۔تو تربیت و مہارت کے مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد
اُسکی زندگی انقلابی تبدیلیوں کی شاہکار بن چکی ہوتی ہے عمومی طور پر مسلح
افواج میں شمولیت اختیار کرنیوالوں میں دلچسپی کی بنیادی وجہ ’’ باوقار
روزگار‘‘کا میسر آنا ہے نہ کہ اپنی جان کو ( چاہے ملک و ملت کیلئے سہی)داؤ
پر لگانے کا عزم و ارادہ ۔۔۔۔یہ سب فوجی زندگی کا کرشمہ ہے کہ ہر افسر /جوان
میں وہ تمام خوبیاں اُبھاری و نکھاری جاتی ہیں کہ جن کے ساتھ ہر فوجی میں
وطن کی خدمت ،وطن کیلئے جان دینے اور جان لینے کا جذبہ موجزن ہوتا ہے۔مسلح
افواج میں شمولیت اختیار کرنیوالوں میں ایسے جوانوں کی ایک خاص تعداد ہمیشہ
سے آرہی ہے ۔جو اس جذبے کیساتھ فوجی زندگی اختیار کرتے ہیں کہ ملک اور ملت
کیلئے خدمات انجام دیں ۔اور ضرورت پڑنے پر اپنی جان سے بھی گزرنا پڑے تو
دریغ نہیں کریں گے۔نائیک سید محمد حسین شاہ کا شمار اُن جوانوں میں ہوتا ہے
۔جو وطن عزیز کے دفاع کیلئے اپنے جان قربان کرنے کا جذبہ لئے فوج میں
شمولیت اختیار کرتے ہیں۔اور کسی بھی آزمائش میں مادر وطن اور اہل وطن کیلئے
جان سے گزرنے سے گریز نہیں کرتے ۔ نائیک سید محمد حسین شاہ 1942ء میں بانڈی
سیداں (چکوٹھی سیکٹر)میں زمیندار سید سید احمد شاہ کے ہاں پیدا ہوئے ۔تقسیم
برصغیر سے پاکستان بنا ،تب چھ سال کی عمر تھی ۔ تقسیم برصغیر کے بعد ریاست
جموں و کشمیر میں ہندوستان کی فوجیں اُترنے اور قبائل کی مظفرآباد کی طرف
سے آمد کے نتیجہ میں ریاست میں اُبھرنے والی خونی لکیر کو دیکھتے ہوئے محمد
حسین شاہ نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا ۔اس دوران وہ اکثر پاک فوج کے
قافلے اگلے موچوں کی طرف جاتے دیکھا کرتے ۔منفرد سا ماحول میسر آیا ۔
پاکستان کیساتھ محبت کا جذبہ ورثے میں مِلا ۔ کشمیر کی آزادی کی تڑپ دل میں
تھی ابتدائی تعلیم مقامی لوئر مڈل سکول بانڈی سیداں میں حاصل کی ۔بچپن میں
ہی اپنے ہم عصروں میں طبعاََ مختلف دیکھے گئے ۔سوالہ سترہ سال کی عمر میں
دراز قد ، مضبوط جسامت کیساتھ نمایاں نظر آتے ۔تعلیمی سلسلہ کیساتھ
زمینداری کے کام میں اپنے والد بزرگوار اور بھائیوں سید مظہر حسین شاہ ،فضل
حسین شاہ کا ہاتھ بٹاتے ، نائیک سید محمد حسین شاہ شہیدکے قریبی رشتہ داروں
میں سجاول حسین شاہ (برادرنسبتی)قبل از آزادی برطانوی فوج میں بھی رہے ۔سید
محمد حسین شاہ نے ابتدائی طور پر پاکستان آرمی کے’’ میڈیکل کور ‘‘AMCمیں
شمولیت اختیار کی ،تاہم مادر وطن کیلئے جذبہ جہاد شوق شہادت دل میں موجزن
تھا، اس واسطے اُنھوں نے بحیثیت نرسنگ سولجر5 سالہ خدمات کے بعد باقاعدہ
استدعا کرکے بحیثیت لڑاکا فوجی، آزادکشمیر رجمنٹ کی سیکنڈ (انفینٹری بٹالین
)میں چلے گئے جہاں خدمات انجام دیتے ہوئے 1965 کی جنگ لڑی ۔غازی بنے ۔
متعدد مشنزمیں کامیابی نے قدم چُومے ۔ اورپھر1971کادسمبر آیا ۔جب دشمن نے
ایک طرف مشرقی پاکستان میں اپنے آلہ کاروں کے ذریعے عوام کو فوج کے مدمقابل
لاکھڑا کردیا ۔تو دوسری طرف مغربی پاکستان کی مشرقی سرحد سے جنگ مسلط کردی
۔ نائیک سید محمد حسین شاہ کی بٹالین للیال منڈہیرچ ھمب جوڑیاں سیکٹر میں
تعینات تھی ۔جہاں دشمن کیساتھ جنگ میں ریڈ ہل کو آزادکروایا گیا۔اس دوران
میجر فاروق ( کمپنی کمانڈر )نائیک سید محمد حسین شاہ سمیت 38 جانبازوں نے
جام شہادت نوش کیا۔کہا جاتا ہے شہید کی موت ہی قوم کی زندگی کی ضمانت ہوتی
ہے۔ بِلاشُبہ ایسا ہی ہے ۔ مادر وطن کے بہادر سپوت نائیک محمد حسین شاہ فوج
میں گئے تو ملازمت کی نیت سے نہیں ۔بلکہ کشمیرکی آذادی اور پاکستان کے دفاع
کے عزم و جذبہ کیساتھ ساتھ ’’حلف وفاداری‘‘کی مکمل پاسداری کرتے ہوئے 14
سال تک عسکری زندگی گزاری اور پھر1971میں جام شہادت نوش کیا۔اس طرح نائیک
محمد حسین شاہ سمیت دیگر ہزاروں شہدائے1965/71ملک و قوم کیلئے اپنا سب سے
قیمتی نذرانہ دیکر سرخُرو ہوگئے ۔لیکن اُن شہیدوں کے گھرانوں کیساتھ وقت و
حالات کی ستم ظریفی نے کیا کرشمے دکھائے ۔ جاننے والے جانتے ہیں۔اور پھر
کوئی پتھر دل کیسے ہوسکتا ہے جسے شہداء گھرانوں پر وقت و حالات کے ستم
مصائب وآلام سے آگاہی نہ ہو۔۔۔ ۔ بہر حال جنگ ختم ہونے کے بعد 34 ویں دن
شہیدکے بھائیوں (سید مظہر حسین شاہ ،سید فضل حسین شاہ ) سیکٹرمیں گئے ۔اورفوج
کی نشاندہی و معاونت سے امانتاََ دفنائے گئے نائیک سید محمد حسین شاہ شہید
کے تابوت کے ہمراہ گاؤں آئے ،جہاں شہید کے جسد خاکی کو حسب روایت خون میں
لت پت فوجی وردی کیساتھ ہی قبر میں اُتارا گیا ۔بعد ازاں شہید کو پاک فوج
کی طرف سے اعزازات سے نوازا گیا ،جبکہ کمانڈنگ انچیف ،ایڈجوٹینٹ جنرل زاہد
علی اکبر،آزادکشمیر رجمنٹل سنٹر کمانڈر برگیڈئیر غوث نے شہید کے اہلخانہ کے
نام اپنے علیحدہ علیحدہ خطوط میں شہیدکے جذبے ،بہادری اورقربانی کو خراج
عقیدت پیش کیا گیا ۔شہید وطن نائیک سید محمد حسین شاہ کے چار حقیقی بھائیوں
میں سے دو بھائی پاکستان آرمی میں خدمات انجام دینے کے بعد غازی بن کر لوٹ
آئے ،جبکہ خاندان کے بیسیوں افراد پاک فوج کے مختلف شعبہ جات میں خدمات
انجام دے چکے ، شہید کے اکلوتا بیٹے(راقم) نے پاک فوج کیساتھ شانہ بشانہ
کئی جہت سے اپنے حصے کا کردار ادا کیا ہے ۔اور پاک فوج اور ریاستی عوام میں
’’اعتماد و یقین‘‘کے مضبوط رشتے و تعلق کیلئے سرگرمیوں کا سلسلہ بھی جاری
رکھا ہے جبکہ شہید کی تیسری نسل بھی پاکستان آرمی سے منسلک ہے ۔جبکہ آزاد
کشمیر سے تعلق رکھنے والے چار ہزار شہدائے وطن میں سے یہ اعزازنائیک سید
محمد حسین شاہ کی نسل کو حاصل ہے کہ جس نے اپنے والد کے خون اور وردی کا
قرض و فرض ادا کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ۔اور گزرے سالوں سے
بااختیار قوتوں کو باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ’’ شہدائے وطن ،پاک فوج
اورقوم کے درمیان مضبوط کڑی ہونے کے علاوہ دشمن کی سازشیں غیر موثر بنانے
کیلئے سب سے مضبوط ترین حصاربھی ہیں،اِس حقیقت کا شعور و ادراک کرلیا جائے
،تو کسی علامتی ،بناوٹی روش کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ مادر وطن کی حفاظت کی
مختلف جہتیں ہیں ۔کسی بھی جہت سے حفاظت کا مقدس فریضہ انجام دیتے ہوئے جان
دیدی جائے ۔جانباز سرخُرو ہوجاتا ہے۔ اُسکا مقام و مرتبہ ہمالیہ کی طرح
بلند ہو جاتا ہے۔ بظاہر ایسے ہی ہے۔مگر فوج اور عوام کے سامنے سرخُرو
ہونیوالے جانباز ( شہید )کے گھرانوں میں بعد ازاں کیا مناظر ہوتے ہیں ؟؟
منظر کشی بہت تکلیف دہ اور بہت ہمت وحوصلہ کی بات ہوگی۔تاہم موقع کی مناسبت
سے سرسری طور پر ہی سہی اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے۔کہ فوجی وردی میں بڑے
ٹھاٹھ باٹھ کیساتھ نظر آنیوالے جوانوں / افسروں کو اگر اپنی زندگی میں وہ
سارے مناظر کہیں خواب میں بھی نظر آجائیں تو شاید ہی کچھ فوجی اپنی جانیں
دینے پر مائل رہ سکیں ۔۔۔۔۔مثلاََ 1965/1971اس سے پہلے اور بعد میں کرگل تک
،جتنے فوجیوں نے اپنی جانیں دیں ۔افسروں ،جوانوں میں غالب اکثریت گھرانوں
میں دلخراش مناظر دیکھنے میں آئے ۔بہت سی شہیدوں کے گھرانے تو جیتے جی مر
گئے ۔۔۔۔کچھ پنشن کیوجہ سے ۔۔۔۔۔کچھ زمین و جائیداد کی وجہ سے ۔۔۔۔اور پھر
نہ فوج اور نہ کوئی حکومت پلٹ کر خبر لے سکی ۔ ایک خاندان کا جوان فوجی
شہید ہوگیا۔ فوج نے واجبات/پنشن دیدئیے۔فرض پورا ؟؟ ؟ ؟ حکومت نے کوئی ایک
دو خط لکھ دئیے ۔ ۔ فرض پورا؟؟؟؟اب مرحلہ آگیا ۔ واجبات ٹھکانے لگانے کا ۔اگر
شہید کے پیچھے صرف والدین ، یاکوئی بھائی ہے تو پھر کوئی جھگڑا نہیں ہوگا۔
واجبات بھی اپنے ،اور جائیداد بھی اپنی ہی رہ گئی ۔اگر شہید کے پیچھے
اولذکر کے علاوہ بیوہ بھی رہ گئی تو یہاں سے ایک دنگل شروع ہو گا ،واجبات ،پنشن
سے شروع ہونیوالے یہ دنگل اس قدر وسعت اختیار کریگا ۔کہ گاؤں ،محلہ ، قصبہ
شہر میں ہر طرف اسکا چرچا ہوگا۔۔ ۔اس سارے بکھیڑے میں ’’شہید ‘‘کی قربانی
کسی کیلئے اہمیت کی حامل نظر نہیں آئیگی ۔البتہ واجبات ،پنشن کی کشمکش میں
شہید کا ذکر ضرور ہوتا ہے۔ ۔۔۔مگر فوج میں کیوں گیا ؟؟ جان کیوں قربان کی
؟؟مقصد (نصب العین )کیا تھا؟؟کسی کو سروکار نہیں ۔یہ تماشا کئی دہائیوں تک
ہو رہا ہے۔بِشُبہ قرآن و حدیث کی رہنمائی میں ایک فوجی کی کا کردار تومکمل
کردیا گیا ۔اب یہ پہلو توجہ طلب ہے ۔کہ فوج میں شمولیت اختیار کرنیوالا ،
کسی درخت پر پھل کی طرح نہیں لگا ،نہ کہیں کھیت میں فصل کے طور پر اُگا ہے
۔بلکہ وہ ایک گوشت پوست کا انسان ہے ۔جسکے والدین ہیں ۔پھر بیوی بھی ہے ۔اور
بچے بھی ہوسکتے ہیں۔ لہذا فوجی زندگی میں باقاعدہ یہ ضابطہ بھی ہونا چاہیے
۔کہ ہر فوجی ،اپنی شہادت کی صورت میں واجبات ،پنشن کے سلسلے میں باقاعدہ
طور پر ’’ وصیت ‘‘میں متعلقین یعنی والدین ،بیوی بچوں کو یکساں شامل کرے ۔اس
طرح کم ازکم یہ تماشا کافی حد تک ختم ہوسکتا ہے۔کسی بھی فوجی کی شہادت کے
بعد اگر یہ تماشے نہ لگیں ۔ تو پھر فوجی کی شہادت کا تذکرہ ہوگا ۔اور اُن
مقاصد پر بات ہوگی ،جن کے تحت ایک فوجی جان دینے پر تیار رہتا ہے۔۔۔۔لیکن
کرگل سے پیچھے جنگوں /محرکوں میں شہید ہونیوالے فوجی افسروں / جوانوں کے
گھرانوں کو جس قدر نقصان ہوا، اُسکا ازالہ ؟؟؟؟سوالیہ نشان برقرارہے ؟اگر
چہ پاک ا فواج نے 2012 سے شہداء کی یاد میں تقریبات کا ایک سلسلہ شروع کیا
ہے ۔تاکہ لواحقین کو یہ احساس دلایا جاسکے ۔کہ اُنکے پیاروں کی قربانیاں
فراموش نہیں کی گئیں ۔اور اُنھیں بھی مسائل و مشکلات کے بھنور میں تن تنہا
نہیں چھوڑا جائیگا ۔ ساتھ ہی ملک کے دیگر طبقات کو ایک پیغام بھی دینا
مقصود ہوتا ہے کہ وطن کا دفاع ،اہل وطن کا سکون یونہی ’’یقینی ‘‘ نہیں بنا
ہوا ۔ بلکہ اسکے پیچھے مادر وطن کی جہد مسلسل ہے ۔ قربانیاں ہیں۔چنانچہ
تقریبات میں شہیدوں کے جذبوں اور فوج کے ارفع و اعلیٰ پیشہ وارانہ کردار
کواُجاگر کیا جاتا ہے ۔ 1948 سے 1965اورپھر1971کے شہیدوں کے حوالے سے ابھی
بھی بہت سا کام باقی ہے ۔ تا کہ اُنھیں اور اُنکے لواحقین کو فراموش کئے
جانے کا تاثر زائل ہوسکے ۔جس طرح نائیک سید محمد حسین شاہ اپنے جذبوں
کیساتھ دشمن کے مقابلے میں شہید ہوئے ۔ فوج نے اُنھیں شہید کے طور پر وقت
کیمطابق واجبات دئیے ۔ پنشن بھی دی ۔میڈلز بھی دئیے ۔۔لیکن شہید کے پیچھے
والدین کے لئے یقینی طور پر دکھ و کرب کی کیفیت متواتر رہی ۔مگراہل خانہ،
بیوی بچوں کی فلاح و بہبود ،تعلیم کیلئے کتنی کاوشیں ہوئیں ؟؟ جواب نفی میں
ہی ہوگا۔ اُنھیں کسی نے پوچھا ؟ کبھی اُنکی ویلفیئر ہوئی؟ ؟ ؟؟حالت یہ ہے
کہ ’’ رواں سال یوم دفاع پر مظفرآباد میں منعقدہ مری گریژن کے تحت تقریب
شہدائے پاکستان کے حوالے سے بد سلوکی کا سامنا کرنا پڑا۔چہ جائیکہ درپیش
ایشوز پر کوئی طفل تسلی ہی سہی ملے ’’شہداء کی یاد میں فوجی تقریبات کے
موقع پرکمانڈر زکا ’’براہ راست‘‘ باقاعدہ طور پر شہداء کے لواحقین سے درپیش
مسائل ومشکلات بارے معلومات لینے کے بعدپیش رفت کا یقین ہوتا ہے ۔تاہم توجہ
دلائے گئے مسائل پر کوئی عملی پیش رفت نہ ہوتو؟؟؟ ؟؟؟ ضرورت اس امر کی ہے
کہ پاکستان آرمی کی لیڈر شپ حالیہ سالوں سے جاری اصلاحاتی عمل میں سست روی
کے خاتمے پر توجہ دے اور 1948سے لیکر پاک بھارت جنگوں ،معرکوں اور نئی طرز
کی جنگ کے شہیدوں تک سب کے گھرانوں کی جانب فوری توجہ کا عمل یقینی بنائے ۔اور
جہاں تک ممکن ہو ۔جس علاقے میں کوئی شہید مدفن ہے ۔وہاں مقامی بٹالین ،فارمیشن
کی نگرانی میں سالانہ تقریب کا اہتمام یقینی بنایا جائے ۔تاکہ ہر شہید کے
متعلقہ علاقہ میں موجود بعض مسائل اُسی تقریب کی وساطت سے حل ہوں ۔نیز فوج
اور عوام میں مضبوط روابط کیلئے شہداء سے متعلق علاقوں میں گاہے بگاہے
مسائل بارے معلومات لی جائیں تو اس سے بھی شہید کی قربانی کی اہمیت و
احترام کا تاثر بڑھے گا ۔اور مقامی لوگوں میں فوج کے وقار میں اضافہ ہونے
کیساتھ ساتھ مسائل بھی ترجیحی بنیادوں پر حل ہوسکیں گے۔
اگر چہ آج شہید وطن نائیک سید محمد حسین شاہ اس تحریر کا موضوع ہیں ۔مگر
یہاں برگیڈئیرنجم سلیم شہید کا تذکرہ بھی کئے بغیر نہیں رہا جاسکتا ۔جنہیں
آزادکشمیر میں خدمات کے دوران شہادت کا منصب ملا ۔مگر فراموش ہوگئے۔
اﷲ رب العزت پاکستان کا حامی و ناصر ہو ،کشمیریوں کو اپنی منزل نصیب ہو اور
ارباب اختیارکو شہیدوں کی قربانیوں کا احترام واحساس کرنے کی توفیق
ملے۔آمین
/'کہتے ہیں دوست ہی دوست کا آئینہ ہوتا ہے ۔اور دوست وہی ہوتا ہے جو مثبت
انداز میں غلطیوں ،کوتائیوں کی اصلاح کی ضرورت پر زور دے ۔مگر لوگوں کے
سامنے اپنے دوست کا بھرم بھی برقرار رکھے ۔بہترین دوست وہی ہوتا ہے ۔جو
دوستی کی بنیادسے واقف ہو۔ادراک رکھتا ہوکہ آخر وہ کیوں دوست ہے ،جب یہ
ادراک ہوجائے تو پھر دوست کا دوست کا آئینہ بنے گا ۔اور آئینہ کبھی جھوٹ
نہیں بولتا ۔ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں اچھے دوست بنانے سے زیادہ
جزوی وقتی اہداف و مقاصد پر کام کرنا ہوتا ہے۔ہمیں ایسا دوست کم ہی برداشت
ہوتا ہے جو آئینہ ثابت ہو چنانچہ ہم اپنی تخلیق کردہ دوستی کو حتمی سمجھ
بیٹھتے ہیں۔قومی حلقے ہوں یا سوسائٹی میں سے کوئی فرد یا افراد وہ یقینی
طور پر عزت و وقار کی زندگی کی خواہش رکھتے ہیں ۔اِنھیں ملک سے محبت ہے
۔ہمیشہ ملک کا بھلا چاہتے ہیں ۔اور عدلیہ ،مقننہ انتظامیہ ،دفاع سے متعلق
اداروں کی اہمیت و افادیت سے بھی آگاہ ہیں۔اور مجموعی طور پر ان ریاستی
ستونوں کو قدر کی نگاہ سے بھی دیکھتے ہیں ۔اور ان سے بہتری کی خواہاں بھی
رہتے ہیں۔اور ساتھ ہی جب ملک کے اندر عدلیہ ،مقننہ ،انتظامیہ کا رول دیکھتے
ہیں تو اپنی اُمیدوں ،توقعات پر پانی پھیرتا نظر آتا ہے۔مگر جب دفاع اور
دفاعی کاوشوں پر نظر جاتی ہے تو ’’اطمینان‘‘ضرور ہوتا ہے۔ پاک افواج زمین
،سمندر ،فضا میں اپنی خدمات کی ناجم دہی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں
کرتیں۔دیکھیں کنٹرول لائن پر کسی دور افتادہ ،بلند وبالا پہاڑٰی چوٹی پر
موسم کی شدت سے قطعی نظر ہمارے لئے سینہ سپر ’’فوجی‘‘پتہ نہیں ملک کے کس
علاقے سے تعلق رکھتا ہوگا۔وہ ہمیں جانتا تک نہیں ۔نہ ہی ہمیں اُس سے کوئی
تعارف ہے ۔مگر وہ ہمارے لئے موجود ہے ۔کسی بھی آزمائش میں اپنی جان پر کھیل
جاتا ہے۔جس طرح ایک فوجی کی اپنے حلف سے وفاداری ،اُسکے عملی سپاہیانہ
کردار میں ہے ۔اِسی طرح ہمیں بھی چاہیے کہ پاک فوج سے دوستی کریں تو دونوں
ایک دوسرے کیلئے آئینہ ہوں ۔حمایت کریں تو ہماری حمایت زبانی کلامی نہ ہو
بلکہ عملی طور پر محسوس ہو کہ واقعی ہی ہم پاک فوج کے حامی ہیں ۔اور جب
حامی ہوجائینگے ۔تو ’’اعتماد و یقین ‘‘کی اُس منزل پر ہونگے ۔جہاں
’’یکجہتی‘‘خود بخود نظر آئیگی ۔اظہار کیلئے کسی بناوٹ اور بناوٹی ماحول کی
ضرورت نہ ہوگی۔ اؤل و آخر افواج میں خدمات انجام دینے والے بھی تو اِسی ملک
کے بیٹے ہیں ۔کسی نہ کسی طبقہ و حلقہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔اور اُنکا
سپاہیانہ کردار اُنکے ملک و قوم سے وفاداری کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔ ۔
یکجہتی کسی بھی سطع پر اجتماعیت اور قومی مقاصد کی تقویت ومفاد میں اُٹھائے
گئے حتمی (فیصلہ کن و نتیجہ خیز)اقدام کا نام ہے۔جسکے بعد کسی اُونچ نیچ
،ہوں ہاں کی کیوں گنجائش باقی نہیں ہوتی۔یعنی ایک ایسا عمل ہے۔جس کے بعد
دوجہتی ،سہ جہتی کا کوئی تصور نہیں ہوسکتا ۔چہ جائیکہ یکجہتی کا ڈھنڈورہ
بھی پیٹا جاتا رہے ۔اور نفرت و نفاق ،شر و شرارت بھی باقی رہے۔ہماری
بدقسمتی یہ ہے کہ من حیث القوم لفظ یکجہتی کو درست پیرائے میں نہیں لے پاتے
۔بلکہ جزوی وقتی اہداف و مقاصد کے تحت کسی بیان یا دوسرے کسی طرز عمل کو
یکجہتی کا نام دیتے ہیں۔بعض اوقات فوج کیساتھ یکجہتی کا راگ الاپا جانے
لگتا ہے۔کوئی بیان کے ذریعے اپنی یکجہتی ظاہر کرتا ہے ۔کوئی کسی طرح کوئی
کسی طرح ،مگرمیں ذاتی طور پر ’’یکجہتی ‘‘کو ایک ایسی کیفیت سمجھتا ہوں ۔جس
میں ریاست ،مملکت ،ادارہ یا فرد و گروہ سے اپنے ربط و تعلق اور رشتوں کی
حقیقت کو سمجھتے ہوئے نیک و قومی مقاصد کیلئے کُلی حمایت مہیا کرے۔یہی
حمایت یکجہتی ہے ۔مثلاََدفاع وطن کیلئے فوج کی کوششوں وکاوشوں کی حمایت سے
یکجہتی کا ماحول تشکیل پانے کی صورت میں کیا کیوں کیسے کس طرح فرض کرو
،جیسی کوئی جہت باقی نہیں رہتی ۔نہ کوئی سوال اُٹھتاہے۔بلکہ اپنی حمایت
پلڑے میں ڈال دی جاتی ہے۔اپنے قول و عمل کو اُس کیساتھ ملا دیا جاتا ہے جس
کی حمایت و یکجہتی کا ارادہ ہو۔پاک فوج کیساتھ مختلف طبقوں و حلقوں کی جانب
سے کبھی کبھار ’’یکجہتی‘‘کے اعلانات ہوتے رہتے ہیں ۔اور یہ سب دعوؤں کی حد
تک ہوتا ہے ۔ایسے دعوے کی دلیل کم ہی موجود ہوتی ہے۔ملک خواہشات پر نہیں
،آئین و قانون کے تابع رہنے سے چلتے ہیں۔اور اگرہم واقعی ہی آئین پرچل رہے
ہیں تو پھرفیڈریشن بیزار روئیے کیوں ہیں ؟ ماضی میں سب سے کہیں نہ کہیں
غلطیاں سرزد ہوئیں ۔کوئی بھی مبرا نہیں ۔عدلیہ نے ’’نظریہ ضرورت‘‘دیا ۔تو
ضیاء الحق بھی ایسی فصل کاشت کرنے میں پیچھے نہیں رہے۔جس کا خمیازہ سب نے
بھگتا۔اسلام کے نام پر اسلام کیساتھ جو کھیل ضیائی سلام نے کھیلا۔اُس کے
اثرات آسیہ مسیح کیس تک محسوس کئے جاسکتے ہیں۔لیکن فوج نے ضیاء کے بعد خود
کو سنبھالا ۔اور ہر ممکن کوشش کی کہ کسی بکھیڑے میں نہ پڑا جائے ۔مگر پھر
میاں کی میاؤں میاؤں نے ’’روشن خیالی‘‘کو راستہ دیا ۔اُسے بھی پوری قوم ملک
و دفاعی اداروں نے بھگتا ۔اُسکے بعد فوج اگرچہ مکمل طور پر اپنے کام میں
مصروف ہوئی۔مگر فوج مخالف حلقہ میں اضافہ کا تاثرقومی ہوا ۔ اب گذشتہ سالوں
سے فوج نشانے پر رکھی جارہی ہے۔بے شک ماضی میں فوج کی لیڈرشپ پر اعتراض بھی
ہوا۔ بہتری کی گنجائش ہمیشہ باقی رہتی ہے۔اور مجموعی طور پر فوج تو ملک و
قوم کیلئے جتنی قربانیاں دی ہیں ۔اُنھی کی بدولت مملکت کے دیگر ستونوں
کیساتھ ملکر درپیش چیلنجز سے عہدہ برآہ ہونے میں مدد دے رہی ہے۔لیکن ہر
معاملہ میں فوج کو رگیدہ گیا ہے آسیہ مسیح کیس سے فوج کا کیا واسطہ؟؟پھر
فوجی قیادت پر فتوے کیوں آئے ؟؟ تو سوچنا ہوگا کہ کہاں کہاں کوئی غلطی
کوتاہی ہوئی ۔بِلاشُبہ فوج اپنی قربانیاں بچانے پرمتوجہ ہے۔قومی حلقوں کے
اُس جانی و مالی نقصان کا احساس رکھتی ہے ۔جو گزرے وقتوں میں ہوا۔مگر یہ
بات باعث حیرت ہے کہ کچھ دانشور ابھی بھی اپنی کرشماسازیاں چھوڑنے پر تیار
نہیں۔اور اُنھیں فوج سے زیادہ حاصل اختیارات کی طاقت نے خود ساختہ ترجیحات
پر متحرک کیا ۔جنہیں آئینے کی ضرورت نہیں ۔کہ وہ عظیم مشن کیلئے کبھی تھے
ہی نہیں ،بس آگئے ۔اور نفرتیں اورحُب الوطنی کے ٹکٹ بانٹنے لگ گئے ۔ |