تحریر:راحیلہ بنت مہر علی
میری زندگی پریشانیوں اور الجھنوں سے بھری ہوئی تھی میں اپنی زندگی سے بہت
تنگ آگیا تھا۔ پہلے جاب کی پریشانی تھی اور کچھ عرصہ پہلے ایک فیکٹری میں
جاب ملی تو اب معمولی تنخواہ، جس سے بمشکل گزر بسر ہو رہی تھی ۔اوپر سے دو
بہنوں کی شادیاں کرنا تھی اور امی روز فرمان جاری کرتیں کہ ’’بیٹا کہیں اور
کوشش کرو اس تنخواہ سے تو کھینچ تان کر کھا ہی لیتے ہیں بس، تمہاری بہنوں
کا جہیز کیسے بنے گا‘‘؟ میں ہر روز امی کو تسلی دیتا کہ ان شاء اﷲ بہت جلد
دوسری کوئی اچھی جاب مل جائے گی میں کبھی بھی امی کو یہ نہ بتا پاتا کہ میں
ہر روز کوشش کرتا ہوں ۔ہر جگہ لیکن ہر روز ناکام ہوتا ہوں اور اپنے اندر
ویرانیاں سمیٹتا ہوں ۔
آج بھی فیکٹری میں ڈیوٹی دینے کے بعد کئی جگہوں پر کسی معقول تنخواہ کی
نوکری کی خاک چھاننے کے بعد تھک ہار کر ایک پارک میں آکر بیٹھ گیا اور
زندگی پر چھائی دھند کے پار کوئی روشنی کی کرن ڈھونڈنے لگا تھا۔ تب ہی
قریبی مسجد سے مغرب کی آذان گونج اٹھی چند لمحے شش و پینچ میں رہنے کے بعد
میں اٹھا اور تھکے تھکے قدموں سے مسجد کی طرف چل دیا۔ نماز ادا کرنے کے بعد
مسجد سے نکلا اور یوں ہی پیدل چلتے چلتے جانے کہاں نکل گیا تھا جب اچانک
ایک گھر جو گھر کم جھونپڑی زیادہ تھی سے عجیب سی آوازیں سنیں۔میرے قرم بے
اختیار اس گھر کی طرف اٹھنے لگے یہ گھر جس کے گرد جھاڑیاں کھڑی کرکے
چاردیواری بنائی گئی تھی۔ اندر دو خستہ حال مٹی کے کمرے بنے ہوئے تھے ۔شام
کا اندھیرا تیزی سے پھیل رہا تھا لیکن ایک تجسس تھا جس نے مجھے گھر کے اندر
قدم رکھنے پر مجبور کیا اور پھر میں نے آگے بڑھ کر اس کمرے جس سے عجیب
وغریب قسم کی آوازیں آ رہی تھیں کے دروازے پر ہلکی سی دستک دی۔
دستک دیتے ہی کمرے سے آوازیں چند لمحوں کے لیے آنا بند ہوگئی ایک کمزور سی
عورت دروازے میں آئی اور مجھے دیکھ کر حیرانگی اور سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے
لگی۔ میں نے جلدی سے اسے سلام کیا۔ اس نے سلام کا جواب دیا اور اندر آنے کی
دعوت دے دی۔ میں نے جیسے ہی کمرے میں قدم رکھا بدبو کا ایک بھبھکا میرے
نتھنوں سے ٹکرا گیا ۔ایک لمحے کو تو سیدھا واپس مڑنے کا خیال آیا لیکن
سامنے چارپائی پر لیٹے ہوئے دو لڑکوں کو دیکھ کر میرے قدم وہیں رک گئے۔
دونوں لڑکے جن کے منہ سے رال ٹپک رہی تھی، سر بڑے اور باقی جسم حد سے چھوٹے
تھے ان کو دیکھ کر میں جھرجھری لیکر رہ گیا ۔میں یوں ہی کھڑا رہا جب اس
عورت نے سامنے چارپائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہاں بیٹھ جائیں۔
میں آگے بڑھ کر اس چارپائی پر بیٹھ گیا دونوں لڑکے مجھے دیکھ کر عجیب سی
خوشی کا اظہار کرنے لگے اور ان کے منہ سے عجیب سی آوازیں برآمد ہونے لگیں ۔میرے
استفسار پر اس عورت جو دونوں لڑکوں کی ماں تھی اس نے بتایا کہ یہ دونوں
جڑواں ہیں اور یہ پیدائشی معذور ہیں ۔اس نے کہا کہ ان بچوں کی پیدائش کے
بعد اس کے شوہر نے اسے چھوڑ کر دوسری شادی کرلی اور دس سال گزر گئے لیکن
پلٹ کر خبر نہیں لی ۔کوئی رشتہ دار گھر نہیں آتا بس کوئی اﷲ کا بندہ آکر
کچھ پیسے دے جاتا ہے اور کہا کہ صبح کسی سیٹھ کے بنگلے میں کام بھی کرتی
ہوں جس گزر بسر ہو جاتی ہے لیکن وہ عورت بار بار اپنے اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا
کر رہی تھی۔ دونوں بیٹوں کے منہ صاف کرتی پیار کرتی بال سنوارتی اور وہ
دونوں خوشی سے سرشار ہوکر اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کو ہلا کر اور منہ سے
آوازیں نکال کر ماں سے محبت کا اظہار کرتے ۔
اس نے شرمندہ شرمندہ سے انداز میں بتایا کہ دن میں دو تین بار صفائی کرتی
ہوں لیکن اس کے باوجود کمرے سے تعفن آتی ہے ۔میں اس بدحال عورت کی جیسی
صابر و شاکر عورت دیکھ کر کنگ ہوگیا جس کی زبان پر اﷲ تیرا شکر اﷲ تیرا شکر
کا ورد جاری تھا۔ میں حیران بھی ہوا ،خوش بھی ہوا اور شرمندہ بھی۔ اس عورت
سے اور اپنے خدا سے میں نے جیب ٹٹولی تو چند سو روپے جیب میں باقی تھے جو
کل کا خرچہ تھا لیکن میں نے وہ پیسے اس عورت کو دے دیے ۔اس نے بہت انکار
کیا لیکن میرے بہت اصرار پر بہت سی دعائیں دیتے ہوئے لے لیے اور پھر اس کی
آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے جنہیں جلدی سے صاف کرتے ہوئے بولی،’’ کہ آج دونوں
کی دوائی ختم ہو گئی تھی لیکن فی الحال پیسے نہ ہونے کی وجہ نہیں لے سکی۔
کہا کہ اب ابھی سٹور جاکر لاؤں گی‘‘۔ میں نے پیسے اس سے واپس لیے اور
میڈیکل سٹور سے مطلوبہ دوائی لے کر آگیا۔
وہ عورت بار بار دعائیں دے رہی تھی۔ میری امی بہت دعائیں دیا کرتی تھی لیکن
جتنے کم وقت میں جتنی زیادہ دعائیں اس عورت نے دی میری امی نے بھی نہیں دی
تھیں۔میں خود کو کافی ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگا تھا ۔اس بدحال گھر سے
دعاؤں کے بیش قیمت انمول تحائف سمیٹ کر نکل آیا تو رات کے اندھیرے نے ہر
سمت چادر پھیلائی ہوئی تھی ۔میرا گھر کافی دور تھا لیکن میں پیدل چل رہا
تھا کیونکہ میرے پاس رکشے والے کو دینے کے لیے پیسے نہیں تھے یوں چلتے چلتے
اچانک ایک رکشہ والے نے میرے قریب رکشہ روکا تو میں نے شرمندگی کے مارے سر
جھکا لیا۔ اسے شاید مجھ پر ترس آیا بولا،’’ کوئی بات نہیں بھائی آجاؤ ۔میں
اس کا شکریہ ادا کرتا ہوا رکشے میں بیٹھ گیا اور جب گھر آیا تو ماں پریشان
بیٹھی میرا انتظار کر رہی تھی۔ مجھے بے حد دکھ ہوا میری ماں روز بروز کمزور
ہوتی جا رہی تھی۔
جوان بیٹیوں کی فکر اسے اندر ہی اندر نڈھال کر رہی تھی اس رات میں ٹھیک سے
سو نہ سکا لیکن جب صبح اٹھا تو ایک خوشخبری میری منتظر تھی ۔مجھے ایک بہت
اچھے فرم میں جاب مل گئی تھی مجھے فوراً جاب جوائن کرنا تھا ۔اپائمنٹ لیٹر
ہاتھ میں پکڑے میں اس عورت کے بارے میں سوچ رہا تھا میری تنخواہ پر اس کا
بھی حق ہے۔ میں نے دل ہی دل میں خود سے عہد کیا یقیناً اس کی دعاؤں کا ثمر
مل گیا تھا۔ |